Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

91یعنی اے پیغمبر آپ کی نسبت یہ اس قسم کی باتیں اور بہتان تراشی کرتے ہیں، کبھی ساحر کہتے ہیں، کبھی مسحور و مجنون اور کبھی کذاب و شاعر۔ حالانکہ یہ ساری باتیں باطل ہیں اور جن کے پاس ذرہ برابر بھی عقل فہم ہے، وہ ان کا جھوٹا ہونا جانتے ہیں، پس یہ ایسی باتیں کر کے خود ہی راہ ہدایت سے دور ہوجاتے ہیں، انھیں راہ راست کس طرح نصیب ہوسکتی ہے ؟

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٤] یعنی کبھی کہتے ہیں کہ اس شخص نے اللہ پر جھوٹ باندھا ہے جو کہتا ہے کہ مجھ پر اللہ کی طرف سے وحی نازل ہوتی ہے کبھی کہتے ہیں کہ یہ قرآن اس نے خود ہی تصنیف کر ڈالا ہے۔ البتہ اس سلسلہ میں دوسروں سے بھی مدد لیتا ہے۔ کبھی آپ کو کاہن کہتے ہیں، کبھی شاعر، کبھی ساحر، جادوگر اور کبھی مسحور۔ پھر کہیں یہ کہتے ہیں کہ اسے فرشتہ ہونا چاہئے تھا۔ کبھی کہتے ہیں کہ اگر بشر ہی تھا تو کم از کم اس کے ساتھ کوئی فرشتہ ہی رہا کرتا۔ کبھی یہ اس نبی کے پاس مال و دولت کی کثرت ہونا چاہئے تھی۔ یہ سب باتیں دراصل ان کے دعوت حق کو قبلو نہ کرنے کے بہانے ہیں۔ ہٹ دھرمی اور تعصب نے ان کو اندھا کر رکھا ہے اور ایسی بےتکی باتیں بنانے پر مجبور کر رکھا ہے۔ ان کی ان باتوں کی حیثیت خوئے بدرابہانہ بسیار سے زیادہ کچھ نہیں۔ البتہ ان کی ایسی ہٹ دھرمی کی باتوں سے یہ ضرور معلوم ہوجاتا ہے کہ دعوت حق کو کسی قیمت پر قبول نہیں کریں گے۔ اور ان کے یہ مطالبات اور اعتراضات محض شرارت اور تنگ کرنے کی بنا پر ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اُنْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوْا لَكَ الْاَمْثَالَ : دیکھو انھوں نے تمہارے لیے کیسے مثالیں بیان کیں، صرف اس لیے کہ کسی طرح آپ کو جھوٹا ثابت کرسکیں۔- فَضَلُّوْا فَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ سَبِيْلًا : سو بھٹک گئے اور ایسے بھٹکے کہ کسی راستے پر آ ہی نہیں سکتے، کیونکہ راہ پر وہ آتا ہے جس کے دل میں اخلاص ہو اور وہ محض غلط فہمی کا شکار ہوگیا ہو، ان کے دلوں میں تو اخلاص کے بجائے ضد اور ہٹ دھرمی ہے۔ مزید دیکھیے بنی اسرائیل (٤٧، ٤٨) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

دوسرا اعتراض یہ تھا کہ اگر یہ رسول ہوتے تو عام انسانوں کی طرح کھاتے پیتے نہیں بلکہ فرشتوں کی طرح کھانے پینے کی ضروریات سے مستغنی اور الگ ہوتے۔ اور اگر یہ بھی نہ ہوتا تو کم از کم ان کے پاس اللہ کی طرف سے اتنا خزانہ یا باغات ہوتے کہ ان کو اپنے معاش کی فکر نہ کرنا پڑتی، بازاروں میں چلنا پھرنا نہ پڑتا۔ اس کے علاوہ ان کا اللہ کی طرف سے رسول ہونا ہم کیسے مان لیں کہ اول تو یہ فرشتہ نہیں، دوسرے کوئی فرشتہ بھی ان کے ساتھ نہیں رہتا جو ان کے ساتھ ان کے کلام کی تصدیق کیا کرتا، اس لئے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان پر کسی نے جادو کردیا ہے جس سے ان کا دماغ چل گیا اور یہ ایسی بےسرو پا باتیں کہتے ہیں۔ اس کا اجمالی جواب تو اس آیت میں یہ دیا گیا۔ اُنْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوْا لَكَ الْاَمْثَالَ فَضَلُّوْا فَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ سَبِيْلًا، یعنی دیکھو تو یہ لوگ آپ کی شان میں کیسی کیسی عجیب عجیب باتیں کرتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ سب گمراہ ہوگئے اور اب ان کو راہ ملنے کی کوئی صورت نہ رہی۔ تفصیلی جواب اگلی آیات میں آیا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اُنْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوْا لَكَ الْاَمْثَالَ فَضَلُّوْا فَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ سَبِيْلًا۝ ٩ۧ- نظر - النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] أي : تَأَمَّلُوا .- والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] ،- ( ن ظ ر ) النظر - کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔- اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں - كيف - كَيْفَ : لفظ يسأل به عمّا يصحّ أن يقال فيه : شبيه وغیر شبيه، كالأبيض والأسود، والصحیح والسّقيم، ولهذا لا يصحّ أن يقال في اللہ عزّ وجلّ : كيف، وقد يعبّر بِكَيْفَ عن المسئول عنه كالأسود والأبيض، فإنّا نسمّيه كيف، وكلّ ما أخبر اللہ تعالیٰ بلفظة كَيْفَ عن نفسه فهو استخبار علی طریق التنبيه للمخاطب، أو توبیخا نحو : كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة 28] ، كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران 86] ، كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة 7] ، انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء 48] ، فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت 20] ، أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت 19] .- ( ک ی ف ) کیف ( اسم استفہام ) اس چیز کی حالت در یافت کرنے کے لئے آتا ہے جس پر کہ شیبہ اور غیر شیبہ کا لفظ بولا جاسکتا ہو جیسے ابیض ( سفید اسود ( سیاہی ) صحیح ( تندرست ) سقیم ( بیمار ) وغیرہ ۔ لہذا اللہ تعالیٰ کے متعلق اس کا استعمال جائز نہیں ہے اور کبھی اس چیز پر بھی کیف کا اطلاق کردیتے ہیں جس کے متعلق سوال کر نا ہو مثلا کہا جاتا ہے کہ اسود اور ابیض مقولہ کیف سے ہیں اور جہاں کہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق کیف کا لفظ استعمال کیا ہے تو وہ تنبیہ یا قو بیخ کے طور پر مخاطب سے استخبار کے لئے لایا گیا ہے جیسے فرمایا : ۔ كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة 28] کافرو تم خدا سے کیونکر منکر ہوسکتے ہو ۔ كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران 86] خدا ایسے لوگوں کو کیونکر ہدایت دے ۔ كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة 7] بھلا مشرکوں کے لئے کیونکر قائم رہ سکتا ہے ۔ انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء 48] دیکھو انہوں نے کس کس طرح کی تمہارے بارے میں باتیں بنائیں ۔ فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت 20] اور دیکھو کہ اس نے کس طرح خلقت کو پہلی مر تبہ پیدا کیا ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت 19] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ خدا کسی طرح خلقت کو پہلی بار پیدا کرتا پھر کس طرح اس کو بار بار پیدا کرتا رہتا ہے ۔- ضَرْبُ المَثلِ- هو من ضَرْبِ الدّراهمِ ، وهو ذکر شيء أثره يظهر في غيره . قال تعالی: ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر 29] ، وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف 32] ، ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ- [ الروم 28] ، وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم 58] ، - ضرب اللبن الدراھم سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی ہیں کسی بات کو اس طرح بیان کرنے کہ اس سے دوسری بات کی وضاحت ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر 29] خدا ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف 32] اور ان سے قصہ بیان کرو ۔ ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ [ الروم 28] وہ تمہارے لئے تمہارے ہی حال کی ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم 58] اور ہم نے ہر طرح مثال بیان کردی ہے ۔ - مثل - والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] .- ( م ث ل ) مثل ( ک )- المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔- ضل - الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] - ( ض ل ل ) الضلال - ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔- الاستطاعۃ - . وَالاسْتِطَاعَةُ : استفالة من الطَّوْعِ ، وذلک وجود ما يصير به الفعل متأتّيا، الاسْتِطَاعَةُ أخصّ من القدرة . قال تعالی: لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء 43] - ( ط و ع ) الطوع - الاستطاعۃ ( استفعال )- یہ طوع سے استفعال کے وزن پر ہے اور اس کے معنی ہیں کسی کام کو سر انجام دینے کے لئے جن اسباب کی ضرورت ہوتی ہے ان سب کا موجہ ہونا ۔ اور استطاعت قدرت سے اخص ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء 43] وہ نہ تو آپ اپنی مدد کرسکتے ہیں ۔ - سبل - السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] - ( س ب ل ) السبیل - ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] دریا اور راستے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٩) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ دیکھیے تو کہ یہ لوگ آپ کے لیے کیسی عجیب عجیب باتیں بیان کررہے ہیں اور ساحر و کاہن جھوٹا شاعر اور مجنون کیا کیا یہ آپ کے نام رکھ رہے ہیں، باقی یہ لوگ خود گمراہ ہوگئے ہیں اور تمام ان کے مکر و فریب خاک میں مل گئے ہیں اور پھر یہ اپنی باتوں سے چھٹکارا نہیں پاسکتے اور نہ ان کے پاس اس بکواس کی کوئی دلیل ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٩ (اُنْظُرْ کَیْفَ ضَرَبُوْا لَکَ الْاَمْثَالَ فَضَلُّوْا فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ سَبِیْلًا ) ” - یہ لوگ ایک ضد پر اڑ گئے ہیں ‘ لہٰذا اب ان کے راہ راست پر آنے کا کوئی امکان نہیں۔ ان الفاظ کو پڑھتے ہوئے یہ بھی معلوم رہنا چاہیے کہ یہ سورت مکی دور کے درمیانی چار سالوں میں نازل ہونے والی سورتوں میں سے ہے۔ مکی سورتوں کی ترتیب نزولی اور ترتیب مصحف کے بارے میں پہلے بھی بتایا جا چکا ہے کہ مکی دور کے ابتدائی چار سال کے دوران میں نازل ہونے والی سورتیں مصحف کی ترتیب میں ساتویں یعنی آخری منزل میں شامل کی گئی ہیں۔ (آخری منزل میں کچھ مدنی سورتیں بھی شامل ہیں اور اس اعتبار سے اس منزل کی مکی مدنی سورتوں کو دو گروپس میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ ) آخری چارسال میں نازل شدہ سورتوں کو مصحف کے پہلے حصے میں رکھا گیا ہے۔ ان میں سورة الانعام ‘ سورة الاعراف ‘ اور سورة یونس سے لے کر سورة المؤمنون تک کل سولہ سورتیں شامل ہیں۔ البتہ زیرمطالعہ سورت یعنی سورة الفرقان سے شروع ہونے والے گروپ اور اس کے بعد والے گروپ کی سورتیں مکی دور کے درمیانی چار سالوں میں نازل ہوئی ہیں اور مصحف کے اندر بھی انہیں درمیان میں رکھا گیا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :18 یہ اعتراضات بھی جواب دینے کے لیے نہیں بلکہ یہ بتانے کے لیے نقل کیے جا رہے ہیں کہ معترضین کس قدر عناد اور تعصب میں اندھے ہو چکے ہیں ۔ ان کی جو باتیں اوپر نقل کی گئی ہیں ان میں سے کوئی بھی اس لائق نہیں ہے کہ اس پر سنجیدگی کے ساتھ بحث کی جائے ۔ ان کا بس ذکر کر دینا ہی یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ مخالفین کا دامن معقول دلائل سے کس قدر خالی ہے اور وہ کیسی لچر اور پوچ باتوں سے ایک مدلل اصولی دعوت کا مقابلہ کر رہے ہیں ۔ ایک شخص کہتا ہے لوگو ، یہ شرک جس پر تمہارے مذہب و تمدن کی بنیاد قائم ہے ، ایک غلط عقیدہ ہے اور اس کے غلط ہونے کے یہ اور یہ دلائل ہیں ۔ جواب میں شرک کے بر حق ہونے پر کوئی دلیل قائم نہیں کی جاتی ، بس آوازہ کس دیا جاتا ہے کہ یہ جادو کا مارا ہوا آدمی ہے ۔ وہ کہتا ہے کائنات کا سارا نظام توحید پر چل رہا ہے اور یہ یہ حقائق ہیں جو اس کی شہادت دیتے ہیں ۔ جواب میں شور بلند ہوتا ہے جادوگر ہے ۔ وہ کہتا ہے تم دنیا میں شتر بے مہار بنا کر نہیں چھوڑ دیے گئے ہو ، تمہیں اپنے رب کے پاس پلٹ کر جانا ہے ، دوسری زندگی میں اپنے اعمال کا حساب دینا ہے ، اور اس حقیقت پر یہ اخلاقی اور یہ تاریخی اور یہ علمی و عقلی امور دلالت کر رہے ہیں ۔ جواب میں کہا جاتا ہے شاعر ہے ۔ وہ کہتا ہے میں خدا کی طرف سے تمہارے لیے تعلیم حق لے کر آیا ہوں اور یہ ہے وہ تعلیم ۔ جواب میں اس تعلیم پر کوئی بحث و تنقید نہیں ہوتی ، بس بلا ثبوت ایک الزام چسپاں کر دیا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ کہیں سے نقل کر لیا گیا ہے ۔ وہ اپنی رسالت کے ثبوت میں خدا کے معجزانہ کلام کو پیش کرتا ہے ، خود اپنی زندگی اور اپنی سیرت و کردار کو پیش کرتا ہے ، اور اس اخلاقی انقلاب کو پیش کرتا ہے جو اس کے اثر سے اس کے پیروؤں کی زندگی میں ہو رہا تھا ۔ مگر مخالفت کرنے والے ان میں سے کسی چیز کو بھی نہیں دیکھتے ۔ پوچھتے ہیں تو یہ پوچھتے ہیں کہ تم کھاتے کیوں ہو ؟ بازاروں میں کیوں چلتے پھرتے ہو؟ تمہاری اردل میں کوئی فرشتہ کیوں نہیں ہے ؟ تمہارے پاس کوئی خزانہ یا باغ کیوں نہیں ہے؟ یہ باتیں خود ہی بتا رہی تھیں کہ فریقین میں سے حق پر کون ہے اور کون اس کے مقابلے میں عاجز ہو کر بے تکی ہانک رہا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani