موسیٰ علیہ السلام اور اللہ جل شانہ کے مکالمات اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے اور اپنے رسول اور اپنے کلیم حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کو جو حکم دیا تھا اسے بیان فرما رہے ہیں کہ طور کے دائیں طرف سے آپ کو آواز دی آپ سے سرگوشیاں کیں آپ کو اپنا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور برگزیدہ بنایا اور آپ کو فرعون اور اس کی قوم کی طرف بھیجا جو ظلم پر کمر بستہ تھے ۔ اور اللہ کا ڈر اور پرہیزگاری نام کو بھی ان میں نہیں رہی تھی ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی چند کمزوریاں جناب باری تعالیٰ کے سامنے بیان کی جو عنایت الٰہی سے دور کردی گئیں جیسے سورۃ طہ میں آپ کے سوالات پور کردئیے گئے ۔ یہاں آپ کے عذر یہ بیان ہوئے کہ مجھے ڈر ہے کہ وہ مجھے جھٹلادیں گے ۔ میرا سینہ تنگ ہے میری زبان لکنت والی ہے ، ہارون کو بھی میرے ساتھ نبی بنا دیا جائے ۔ اور میں نے ان ہی میں سے ایک قبطی کو بلا قصور مار ڈالا تھا جس وجہ سے میں نے مصر چھوڑا اب جاتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہ کہیں وہ مجھ سے بدلہ نہ لے لیں ۔ جناب باری تعالیٰ نے جواب دیا کہ کسی بات کا کھٹکا نہ رکھو ۔ ہم تیرے بھائی کو تیرا ساتھی بنادیتے ہیں ۔ اور تمہیں روشن دلیل دیتے ہیں وہ لوگ تمہیں کوئی ایذاء نہ پہنچا سکیں گے میرا وعدہ ہے کہ تم کو غالب کرونگا ۔ تم میری آیتیں لے کر جاؤ تو سہی میری مدد تمہارے ساتھ رہے گی ۔ میں تمہاری ان کی سب باتیں سنتا رہونگا ۔ جیسے فرمان ہے میں تم دونوں کے ساتھ ہوں سنتا ہوں دیکھتا رہونگا ۔ میری حفاظت میری مدد میری نصرت وتائید تمہارے ساتھ ہے ۔ تم فرعون کے پاس جاؤ اور اس پر اپنی رسالت کا اظہار کرو ۔ جسیے دوسری آیت میں ہے کہ اس سے کہو کہ ہم دونوں میں سے ہر ایک اللہ کا فرستادہ ہے ۔ فرعون سے کہا کہ تو ہمارے ساتھ بنو اسرائیل کو بھیج دے وہ اللہ کے مومن بندے ہیں تو نے انہیں اپنا غلام بنارکھا ہے اور ان کی حالت زبوں کر رکھی ہے ۔ ذلت کے ساتھ ان سے اپنا کام لیتا ہے اور انہیں عذابوں میں جکڑ رکھاہے اب انہیں آزاد کردے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس پیغام کو فرعون نے نہایت حقارت سے سنا ۔ اور آپ کو ڈانٹ کر کہنے لگا کہ کیا تو وہی نہیں کہ ہم نے تجھے اپنے ہاں پالا ؟ مدتوں تک تیری خبر گیری کرتے رہے اس احسان کا بدلہ تو نے یہ دیا کہ ہم میں سے ایک شخص کو مار ڈالا اور ہماری ناشکری کی ۔ جس کے جواب میں حضرت کلیم اللہ علیہ السلام نے فرمایا یہ سب باتیں نبوت سے پہلے کی ہیں جب کہ میں خود بےخبر تھا ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قرائت میں بجائے من الضالین کے من الجاھلین ہے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ساتھ ہی فرمایا کہ پھر وہ پہلا حال جاتا رہا دوسرا دور آیا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنا رسول بناکر تیری طرف بھیجا اب اگر تو میرا کہا مانے گا تو سلامتی پائے گا اور میری نافرمانی کرے گا تو ہلاک ہوگا ۔ اس خطا کے بعد جب کہ میں تم میں سے بھاگ گیا اس کے بعد اللہ کا یہ فضل مجھ پر ہوا اب پرانے قصہ یاد نہ کر ۔ میری آواز پر لبیک کہہ ۔ سن اگر ایک مجھ پر تو نے احسان کیا ہے تو میری قوم کی قوم پر تو نے ظلم وتعدی کی ہے ۔ ان کو بری طرح غلام بنارکھا ہے کیا میرے ساتھ کا سلوک اور انکے ساتھ کی یہ سنگدلی اور بد سلوکی برابر برابر ہوجائیگی؟
1 0 1یہ رب کی اس وقت کی ندا ہے جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مدین سے اپنی اہلیہ کے ہمراہ واپس آرہے تھے، راستے میں انھیں حرارت حاصل کرنے کے لئے آگ کی ضرورت محسوس ہوئی تو آگ کی تلاش میں کوہ طور پہنچ گئے، جہاں نداء غیبی نے ان کا استقبال کیا اور انھیں نبوت سے سرفراز کردیا گیا اور ظالموں کو اللہ کا پیغام پہنچانے کا فریضہ انکو سونپ دیا گیا۔
[٨] آیات تکوینیہ کی طرف توجہ دلانے کے بعد آگے آیات تنزیلیہ کا آغاز ہو رہا ہے۔ اور اس سلسلہ میں اس سورت میں سات اقوام کا ذکر کیا گیا ہے۔ جنہوں نے اپنے رسول کی دعوت قبول کرنے کے بجائے سرکشی کی راہ اختیار کی تو ان پر عذاب الٰہی نازل ہوا اور صفحہ ہستی سے ان اقوام کا نام و نشان مٹا دیا گیا۔ اور ان آیات کا آغاز حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ذکر سے کیا۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو آغاز رسالت میں جن حالات سے سابقہ پیش آیا تھا۔ وہ ان حالات سے سنگین تر تھے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پیش آئے تھے۔ مثلاً رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس خاندان کے فرد تھے جو کعبہ کی تولیت کی وجہ سے عرب بھر میں مقرر و محترم شمار ہوتا تھا جبکہ موسیٰ (علیہ السلام) اس قوم کے فرد تھے جو فرعون کی غلام تھی۔ دوسرے یہ کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعون کی طرف مبعوث کیا گیا۔ جس کے ہاں آپ نے پرورش پائی تھی۔ پھر آپ نے نادانستہ طور پر آل فرعون کے ایک آدمی کو بھی مار ڈالا تھا اور فرعونی حکومت کی طرف سے اس قتل کی سزا کے ڈر سے آپ وہاں سے مفرور ہوئے تھے گویا آپ فرعون کے ممنون احسان بھی تھے پھر اس کے مفرور مجرم بھی تھے۔ تیسرے یہ کہ فرعون ایک عظیم الشان سلطنت کا فرمانروا، ظالم و جابر اور اپنی خدائی کا دعویٰ رکھنے والا حکمران تھا۔ جبکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جن لوگوں کی طرف مبعوث ہوئے وہ یا آپ کے ہجسر تھے یا معاشرتی لحاظ سے کم تر درجہ رکھتے تھے۔ گویا موسیٰ (علیہ السلام) کے حالات سے آغاز میں دراصل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ تشلی دی جارہی ہے کہ بعض سابقہ انبیاء کو آپ سے بھی زیادہ سنگین حالات میں دعوت دین کا فریضہ سرانجام دینا پڑا تھا۔ لہذا آپ کو ان کفار مکہ کی معاندانہ روش سے اتنا زیادہ افسردہ اور غمگین نہیں رہنا چاہئے۔
وَاِذْ نَادٰي رَبُّكَ مُوْسٰٓي : یہاں سے عبرت کے لیے پہلی قوموں کے چند واقعات بیان فرمائے ہیں، جن سے مقصود یہ ہے کہ آیات الٰہی کو جھٹلانے اور ان کا مذاق اڑانے کا انجام ہلاکت ہے۔ گویا ان واقعات سے پچھلی آیت : (فَسَيَاْتِيْهِمْ اَنْۢبٰۗـؤُا مَا كَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ ) کی تائید اور وضاحت مقصود ہے۔ (شوکانی) اس کے علاوہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اہل ایمان کو تسلی دلانا بھی مقصود ہے۔ اس کے لیے ابتدا موسیٰ (علیہ السلام) اور پھر ابراہیم (علیہ السلام) کے واقعات سے فرمائی ہے، کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ان کی بہت سی چیزوں میں مشارکت ہے، مثلاً ہجرت، جہاد اور ارض مقدس کو حاصل کرنے کی آرزو وغیرہ۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو وہ کتاب ملی جو قرآن کے بعد انتہائی جامع کتاب ہے اور انھیں بہت سے معجزے ملے۔ قرآن میں ان کا اور ان کی قوم کا ذکر سب سے زیادہ کیا گیا ہے۔ - 3 یہ واقعہ اس سے پہلے سورة بقرہ، اعراف اور طٰہٰ میں تفصیل کے ساتھ گزر چکا ہے اور آگے سورة قصص میں بھی آ رہا ہے۔ - اَنِ ائْتِ الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ : اس قوم کا نام قبط تھا، انھیں ظالم اس لیے فرمایا کہ وہ کفر و شرک کر کے اپنی جان پر ظلم کر رہے تھے، فرعون کو رب اعلیٰ مان رہے تھے اور بنی اسرائیل کو غلام بنا کر، ان کے بیٹوں کو قتل کر کے اور عورتوں کو باقی رکھ کر ان پر بھی ظلم کر رہے تھے۔ - اَلَا يَتَّقُوْنَ : فرمایا، یہ لوگ بےتحاشا ظلم و ستم کرتے ہی چلے جا رہے ہیں، کیا انھیں خوف نہیں کہ کوئی ان سے باز پرس کرنے والا بھی ہے
خلاصہ تفسیر - اور (ان لوگوں سے اس وقت کا قصہ ذکر کیجئے) جب آپ کے رب نے موسیٰ (علیہ السلام) کو پکارا (اور حکم دیا) کہ تم ان ظالم لوگوں کے یعنی قوم فرعون کے پاس جاؤ (اور اے موسیٰ دیکھو) کیا یہ لوگ (ہمارے غضب سے) نہیں ڈرتے (یعنی ان کی حالت عجیب اور شنیع ہے اس لئے ان کی طرف تم کو بھیجا جاتا ہے) انہوں نے عرض کیا کہ اے میرے پروردگار، (میں اس خدمت کے لئے حاضر ہوں لیکن اس خدمت کی تکمیل کے لئے ایک مددگار چاہتا ہوں کیونکہ) مجھ کو یہ اندیشہ ہے کہ وہ مجھ کو (اپنی پوری بات کہنے سے پہلے ہی) جھٹلانے لگیں اور (طبعی طور پر ایسے وقت میں) میرا دل تنگ ہونے لگتا ہے اور میری زبان (اچھی طرح) نہیں چلتی اس لئے ہارون کے پاس (بھی وحی) بھیج دیجئے (اور ان کو نبوت عطا فرما دیجئے کہ اگر میری تکذیب کی جاوے تو وہ تصدیق کرنے لگیں تاکہ دل شگفتہ اور زبان رواں رہے اور اگر میری زبان کسی وقت بند ہوجاوے تو وہ تقریر کرنے لگیں اور ہرچند کہ یہ غرض ویسے بھی ہارون (علیہ السلام) کو بلانبوت عطا ہوئے ساتھ رکھنے سے حاصل ہو سکتی تھی مگر عطائے نبوت میں اور زیادہ باکمل وجوہ پوری ہوئی) اور (ایک امر یہ قابل عرض ہے کہ) میرے ذمہ ان لوگوں کا ایک جرم بھی ہے (کہ میرے ہاتھ سے ایک قبطی قتل ہوگیا تھا جس کا قصہ سورة قصص میں آوے گا) سو (اس لئے) مجھ کو (ایک) یہ اندیشہ ہے کہ وہ لوگ مجھ کو (قبل تبلیغ رسالت) قتل کر ڈالیں (تب بھی تبلیغ نہ کرسکوں گا تو اس کی بھی کوئی تدبیر فرما دیجئے) ارشاد ہوا کہ کیا مجال ہے (جو ایسا کرسکیں اور ہم نے ہارون کو بھی پیغمبری دی، اب تبلیغ کے دونوں مانع مرتفع ہوگئے) سو (اب) تم دونوں میرے احکام لے کر جاؤ (کہ ہارون بھی نبی ہوگئے اور) ہم (نصرت و امداد سے) تمہارے ساتھ ہیں (ور جو گفتگو تمہاری اور ان لوگوں کی ہوگی اس کو) سنتے ہیں سو تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ اور (اس) سے کہو کہ ہم رب العالمین کے فرستادہ ہیں (اور دعوت الی التوحید کے ساتھ یہ حکم بھی لائے ہیں) کہ تو بنی اسرائیل کو (اپنے بیگار اور ظلم سے رہائی دے کر ان کے اصلی وطن ملک شام کی طرف) ہمارے ساتھ جانے دے (خلاصہ اس دعوت کا حقوق اللہ اور حقوق العباد میں ظلم وتعدی کا ترک کرنا ہے، چناچہ یہ دونوں حضرات گئے اور فرعون سے سب مضامین کہہ دیئے) فرعون (یہ سب باتیں سن کر اول موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف ان کو پہچان کر متوجہ ہوا اور) کہنے لگا کہ (اہا تم ہو) کیا ہم نے تم کو بچپن میں پرورش نہیں کیا اور تم اپنی (اس) عمر میں برسوں ہم میں رہا سہا کئے اور تم نے اپنی وہ حرکت بھی کی تھی جو کی تھی (یعنی قبطی کو قتل کیا تھا) اور تم بڑے ناسپاس ہو (کہ میرا ہی کھایا، میرا ہی آدمی قتل کیا اور پھر مجھ کو اپنا تابع بنانے آئے ہو، چاہئے تو یہ تھا کہ تم میرے سامنے دب کر رہتے) موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ (واقعی) اس وقت وہ حرکت میں کر بیٹھا تھا اور مجھ سے غلطی ہوگئی تھی (یعنی عمداً میں نے قتل نہیں کیا، اس کی ظالمانہ روش سے اس کو روکنا مقصود تھا اتفاق سے وہ مر گیا) پھر جب مجھ کو ڈر لگا تو میں تمہارے ہاں سے مفرور ہوگیا، پھر مجھ کو میرے رب نے دانشمندی عطا فرمائی اور مجھ کو پیغمبروں میں شامل کردیا (اور وہ دانشمندی اسی نبوت کے لوازم سے ہے۔ خلاصہ جواب یہ ہے کہ میں پیغمبری کی حیثیت سے آیا ہوں جس میں دبنے کی کوئی وجہ نہیں اور پیغمبری اس واقعہ قتل خطاء کے منافی نہیں کیونکہ یہ قتل خطاء صادر ہوا تھا جو نبوت کی اہلیت و صلاحیت کے منافی نہیں۔ یہ تو جواب ہے اعتراض قتل کا) اور (رہا احسان جتلانا پرورش کا سو) وہ یہ نعمت ہے جس کا تو مجھ پر احسان رکھتا ہے کہ تو نے بنی اسرائیل کو سخت ذلت (اور ظلم) میں ڈال رکھا تھا (کہ ان کے لڑکوں کو قتل کرتا تھا جس کے خوف سے میں صندوق میں رکھ کر دریا میں ڈالا گیا اور تیرے ہاتھ لگ گیا اور تیری پرورش میں رہا تو اس پرورش کی اصلی وجہ تو تیرا ظلم ہی ہے تو ایسی پرورش کا کیا احسان جتلاتا ہے بلکہ اس سے تو تجھے اپنی ناشائستہ حرکات کو یاد کر کے شرمانا چاہئے) فرعون (اس بات پر لاجواب ہوا اور گفتگو کا پہلو بدل کر اس) نے کہا کہ (جس کو تم) رب العالمین (کہتے ہو لقلولہ تعالیٰ اِنَّا رَسُوْلُ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ اس) کی ماہیئت (اور حقیقت) کیا ہے موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ وہ پروردگار ہے آسمانوں اور زمین کا اور جو کچھ (مخلوقات) ان کے درمیان میں ہے اس (سب) کا اگر تم کو یقین (حاصل) کرنا ہو (تو یہ پتہ بہت ہے، مطلب یہ کہ اس کی حقیقت کا ادراک انسان نہیں کرسکتا اس لئے جب ان کا سوال ہوگا صفات سے ہی جواب ملے گا) فرعون نے اپنے اردگرد (بیٹھنے) والوں سے کہا کہ تم لوگ (کچھ) سنتے ہو (کہ سوال کچھ جواب کچھ) موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ وہ پروردگار ہے تمہارا اور تمہارے پہلے بزرگوں کا (اس جواب میں مکرر تنبیہ ہے اس مطلب مذکور پر مگر) فرعون (نہ سمجھا اور) کہنے لگا کہ یہ تمہارا رسول جو (بزعم خود) تمہاری طرف رسول ہو کر آیا ہے مجنون (معلوم ہوتا) ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ وہ پروردگار ہے مشرق اور مغرب کا اور جو کچھ ان کے درمیان میں ہے اس کا بھی اگر تم کو عقل ہو (تو اسی سے مان لو) فرعون (آخر مجبور ہو کر) کہنے لگا کہ اگر تم میرے سوا کوئی اور معبود تجویز کرو گے تو تم کو جیل خانہ بھیج دوں گا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کیا اگر کوئی میں صریح دلیل پیش کروں تب بھی (نہ مانے گا) فرعون نے کہا اچھا تو وہ دلیل پیش کرو اگر تم سچے ہو، تو موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی لاٹھی ڈال دی تو دفعۃً ایک نمایاں اژدھا بن گیا ( اور دوسرا معجزہ دکھلانے کے لئے) اپنا ہاتھ (گریبان میں دے کر) باہر نکالا تو وہ دفعۃً سب دیکھنے والوں کے روبرو بہت ہی چمکتا ہوا ہوگیا (کہ اس کو بھی سب نے نظر حسی سے دیکھا۔ )
وَاِذْ نَادٰي رَبُّكَ مُوْسٰٓي اَنِ ائْتِ الْقَوْمَ الظّٰلِــمِيْنَ ١٠ۙ- ندا - النِّدَاءُ : رفْعُ الصَّوت وظُهُورُهُ ، وقد يقال ذلک للصَّوْت المجرَّد، وإيّاه قَصَدَ بقوله : وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] أي : لا يعرف إلّا الصَّوْت المجرَّد دون المعنی الذي يقتضيه تركيبُ الکلام . ويقال للمرکَّب الذي يُفْهَم منه المعنی ذلك، قال تعالی: وَإِذْ نادی رَبُّكَ مُوسی[ الشعراء 10] وقوله : وَإِذا نادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة 58] ، أي : دَعَوْتُمْ ، وکذلك : إِذا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ- [ الجمعة 9] ونِدَاءُ الصلاة مخصوصٌ في الشَّرع بالألفاظ المعروفة، وقوله : أُولئِكَ يُنادَوْنَمِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت 44] فاستعمال النّداء فيهم تنبيها علی بُعْدهم عن الحقّ في قوله : وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ مِنْ مَكانٍ قَرِيبٍ [ ق 41] ، وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم 52] ، وقال : فَلَمَّا جاءَها نُودِيَ [ النمل 8] ، وقوله : إِذْ نادی رَبَّهُ نِداءً خَفِيًّا [ مریم 3] فإنه أشار بِالنِّدَاء إلى اللہ تعالی، لأنّه تَصَوَّرَ نفسَهُ بعیدا منه بذنوبه، وأحواله السَّيِّئة كما يكون حال من يَخاف عذابَه، وقوله : رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ- [ آل عمران 193] فالإشارة بالمنادي إلى العقل، والکتاب المنزَّل، والرّسول المُرْسَل، وسائر الآیات الدَّالَّة علی وجوب الإيمان بالله تعالی. وجعله منادیا إلى الإيمان لظهوره ظهورَ النّداء، وحثّه علی ذلك كحثّ المنادي . وأصل النِّداء من النَّدَى. أي : الرُّطُوبة، يقال : صوت نَدِيٌّ رفیع، واستعارة النِّداء للصَّوْت من حيث إنّ من يَكْثُرُ رطوبةُ فَمِهِ حَسُنَ کلامُه، ولهذا يُوصَفُ الفصیح بکثرة الرِّيق، ويقال : نَدًى وأَنْدَاءٌ وأَنْدِيَةٌ ، ويسمّى الشَّجَر نَدًى لکونه منه، وذلک لتسمية المسبَّب باسم سببِهِ وقول الشاعر :- 435-- كَالْكَرْمِ إذ نَادَى مِنَ الكَافُورِ- «1» أي : ظهر ظهورَ صوتِ المُنادي، وعُبِّرَ عن المجالسة بالنِّدَاء حتی قيل للمجلس : النَّادِي، والْمُنْتَدَى، والنَّدِيُّ ، وقیل ذلک للجلیس، قال تعالی: فَلْيَدْعُ نادِيَهُ- [ العلق 17] ومنه سمّيت دار النَّدْوَة بمكَّةَ ، وهو المکان الذي کانوا يجتمعون فيه . ويُعَبَّر عن السَّخاء بالنَّدَى، فيقال :- فلان أَنْدَى كفّاً من فلان، وهو يَتَنَدَّى علی أصحابه . أي : يَتَسَخَّى، وما نَدِيتُ بشیءٍ من فلان أي : ما نِلْتُ منه نَدًى، ومُنْدِيَاتُ الكَلِم : المُخْزِيَات التي تُعْرَف .- ( ن د ی ) الندآ ء - کے معنی آواز بلند کرنے کے ہیں اور کبھی نفس آواز پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] جو لوگ کافر ہیں ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ میں اندر سے مراد آواز و پکار ہے یعنی وہ چو پائے صرف آواز کو سنتے ہیں اور اس کلام سے جو مفہوم مستناد ہوتا ہے اسے ہر گز نہیں سمجھتے ۔ اور کبھی اس کلام کو جس سے کوئی معنی مفہوم ہوتا ہو اسے ندآء کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے ۔ وَإِذْ نادی رَبُّكَ مُوسی[ الشعراء 10] اور جب تمہارے پروردگار نے موسیٰ کو پکارا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذا نادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة 58] اور جب تم لوگ نماز کے لئے اذان دیتے ہو ۔ میں نماز کے لئے اذان دینا مراد ہے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ۔ إِذا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ [ الجمعة 9] جب جمعے کے دن نماز کے لئے اذان دی جائے ۔ میں بھی نداء کے معنی نماز کی اذان دینے کے ہیں اور شریعت میں ند اء الصلوۃ ( اذان ) کے لئے مخصوص اور مشہور کلمات ہیں اور آیت کریمہ : ۔ أُولئِكَ يُنادَوْنَ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت 44] ان کو گویا دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے : ۔ میں ان کے متعلق نداء کا لفظ استعمال کر کے متنبہ کیا ہے کہ وہ حق سے بہت دور جا چکے ہیں ۔ نیز فرمایا ۔ وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ مِنْ مَكانٍ قَرِيبٍ [ ق 41] اور سنو جس دن پکارنے والا نزدیک کی جگہ سے پکارے گا ۔ وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم 52] اور ہم نے ان کو طور کے ذہنی جانب سے پکارا فَلَمَّا جاءَها نُودِيَ [ النمل 8] جب موسیٰ ان ان کے پاس آئے تو ندار آئی ۔ ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِذْ نادی رَبَّهُ نِداءً خَفِيًّا [ مریم 3] جب انہوں نے اپنے پروردگار کو دبی آواز سے پکارا میں اللہ تعالیٰ کے متعلق نادی کا لفظ استعمال کرنے سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ زکریا (علیہ السلام) نے اپنے گناہ اور احوال سینہ کے باعث اس وقت اپنے آپ کو حق اللہ تعالیٰ سے تصور کیا تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرنے والے کی حالت ہوتی ہے اور آیت کریمہ ؛ ۔ رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ [ آل عمران 193] اے پروردگار ہم نے ایک ندا کرنے والے کو سنا ۔ جو ایمان کے لئے پکاررہا تھا ۔ میں منادیٰ کا لفظ عقل کتاب منزل رسول مرسل اور ان آیات الہیہ کو شامل ہے جو ایمان باللہ کے وجوب پر دلالت کرتی ہیں اور ان چیزوں کو منادی للا یمان اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ ندا کی طرح ظاہر ہوتی ہیں اور وہ پکارنے والے کی طرح ایمان لانے کی طرف دعوت دے رہی ہیں ۔ اصل میں نداء ندی سے ہے جس کے معنی رطوبت نمی کے ہیں اور صوت ندی کے معنی بلند آواز کے ہیں ۔ اور آواز کے لئے نداء کا استعارہ اس بنا پر ہے کہ جس کے منہ میں رطوبت زیادہ ہوگی اس کی آواز بھی بلند اور حسین ہوگی اسی سے فصیح شخص کو کثرت ریق کے ساتھ متصف کرتے ہیں اور ندی کے معنی مجلس کے بھی آتے ہیں اس کی جمع انداء واندید آتی ہے ۔ اور در خت کو بھی ندی کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ وہ نمی سے پیدا ہوتا ہے اور یہ تسمیۃ المسبب با سم السبب کے قبیل سے ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 420 ) کالکرم اذا نادٰی من الکافور جیسا کہ انگور کا خوشہ غلاف ( پردہ ) سے ظاہر ہوتا ہے ۔ جیسا کہ منادی کرنے والے کی آواز ہوتی ہے ۔ کبھی نداء سے مراد مجالست بھی ہوتی ہے ۔ اس لئے مجلس کو النادی والمسدیوالندی کہا جاتا ہے اور نادیٰ کے معنی ہم مجلس کے بھی آتے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ فَلْيَدْعُ نادِيَهُ [ العلق 17] تو وہ اپنے یاران مجلس کو بلالے ۔ اور اسی سے شہر میں ایک مقام کا نام درا لندوۃ ہے ۔ کیونکہ اس میں مکہ کے لوگ جمع ہو کر باہم مشورہ کیا کرتے تھے ۔ اور کبھی ندی سے مراد مخاوت بھی ہوتی ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ فلان اندیٰ کفا من فلان وپ فلاں سے زیادہ سخی ہے ۔ ھو یتندٰی علیٰ اصحابہ ۔ وہ اپنے ساتھیوں پر بڑا فیاض ہے ۔ ما ندیت بشئی من فلان میں نے فلاں سے کچھ سخاوت حاصل نہ کی ۔ مندیات الکلم رسوا کن باتیں مشہور ہوجائیں ۔- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه - ( ا ت ی ) الاتیان - ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے - قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں
(١٠۔ ١١) اور ان لوگوں سے وہ واقعہ بیان کیجیے جب کہ آپ کے رب نے موسیٰ (علیہ السلام) کو پکارا یا یہ کہ ان کو حکم دیا کہ ان کافر لوگوں کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ غیر اللہ کی عبادت سے کیوں نہیں ڈرتے۔
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :7 اوپر کی مختصر تمہیدی تقریر کے بعد اب تاریخی بیان کا آغاز ہو رہا ہے جس کی ابتدا حضرت موسیٰ اور فرعون کے قصے سے کی گئی ہے ۔ اس سے خاص طور پر جو سبق دینا مقصود ہے وہ یہ کہ : اولاً ، حضرت موسیٰ کو جن حالات سے سابقہ پیش آیا تھا وہ ان حالات کی بہ نسبت بدرجہا زیادہ سخت تھے جن سے نبی صلی اللہ یہ وسلم کو سابقہ درپیش تھا ۔ حضرت موسیٰ ایک غلام قوم کے فرد تھے جو فرعون اور اس کی قوم سے بری طرح دبی ہوئی تھی ، بخلاف اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم قریش کے ایک فرد تھے اور آپ کا خاندان قریش کے دوسرے خاندانوں کے ساتھ بالکل برابر کی پوزیشن رکھتا تھا ۔ حضرت موسیٰ نے خود اس فرعون کے گھر میں پرورش پائی تھی اور ایک قتل کے الزام میں دس برس روپوش رہنے کے بعد انہیں حکم دیا گیا تھا کہ اسی بادشاہ کے دربار میں جا کھڑے ہو جس کے ہاں سے وہ جان بچا کر فرار ہوئے تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی کسی نازک صورت حال سے سابقہ نہ تھا ۔ پھر فرعون کی سلطنت اس وقت دنیا کی سب سے بڑی طاقتور سلطنت تھی ۔ قریش کی طاقت کو اس کی طاقت سے کوئی نسبت نہ تھی ۔ اس کے باوجود فرعون حضرت موسیٰ کا کچھ نہ بگاڑ سکا اور آخر کار ان سے ٹکرا کر تباہ ہو گیا ۔ اس سے اللہ تعالیٰ کفار قریش کو یہ سبق دینا چاہتا ہے کہ جس کی پشت پر اللہ کا ہاتھ ہو اس کا مقابلہ کر کے کوئی جیت نہیں سکتا ۔ جب فرعون کی موسیٰ علیہ السلام کے سامنے کچھ پیش نہ گئی تو تم بیچارے کیا ہستی ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں بازی جیت لے جاؤ گے ۔ ثانیاً جو نشانیاں حضرت موسیٰ کے ذریعہ سے فرعون کو دکھائی گئیں اس سے زیادہ کھلی نشانیاں اور کیا ہو سکتی ہیں ۔ پھر ہزارہا آدمیوں کے مجمع میں فرعون ہی کے چیلنج پر علی الاعلان جادوگروں سے مقابلہ کرا کے یہ ثابت بھی کر دیا گیا کہ جو کچھ حضرت موسیٰ دکھا رہے ہیں وہ جادو نہیں ہے ۔ فن سحر کے جو ماہرین فرعون کی اپنی قوم سے تعلق رکھتے تھے اور اس کے اپنے بلائے ہوئے تھے ۔ انہوں نے خود یہ تصدیق کر دی کہ حضرت موسیٰ کی لاٹھی کا اژدھا بن جانا ایک حقیقی تغیر ہے اور یہ صرف خدائی معجزے سے ہو سکتا ہے ، جادوگری کے ذریعہ سے ایسا ہونا کسی طرح ممکن نہیں ۔ ساحروں نے ایمان لاکر اور اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر اس امر میں کسی شک کی گنجائش بھی باقی نہ چھوڑی کہ حضرت موسیٰ کی پیش کردہ نشانی واقعی معجزہ ہے ، جادو گری نہیں ہے ۔ لیکن اس پر بھی جو لوگ ہٹ دھرمی میں مبتلا تھے انہوں نے نبی کی صداقت تسلیم کر کے نہ دی ۔ اب تم یہ کیسے کہہ سکتے ہو کہ تمہارا ایمان لانا درحقیقت کوئی حسی معجزہ اور مادی نشان دیکھنے پر موقوف ہے ۔ تعصب ، حمیت جاہلیہ ، اور مفاد پرستی سے آدمی پاک ہو اور کھلے دل سے حق اور باطل کا فرق سمجھ کر غلط بات کو چھوڑنے اور صحیح بات قبول کرنے کے لیے کوئی شخص تیار ہو تو اس کے لیے وہی نشانیاں کافی ہیں جو اس کتاب میں اور اس کے لانے والے کی زندگی میں اور خدا کی وسیع کائنات میں ہر آنکھوں والا ہر وقت دیکھ سکتا ہے ۔ ورنہ ایک ہٹ دھرم آدمی جسے حق کی جستجو ہی نہ ہو اور اغراض نفسانی کی بندگی میں مبتلا ہو کر جس نے فیصلہ کر لیا ہو کہ کسی ایسی صداقت کو قبول نہ کرے گا جس سے اس کی اغراض پر ضرب لگتی ہو ، وہ کوئی نشانی دیکھ کر بھی ایمان نہ لائے گا خواہ زمین اور آسمان ہی اس کے سامنے کیوں نہ الٹ دیے جائیں ۔ ثانیاً ، اس ہٹ دھرمی کا جو انجام فرعون نے دیکھا وہ کوئی ایسا انجام تو نہیں ہے جسے دیکھنے کے لیے دوسرے لوگ بے تاب ہوں ۔ اپنی آنکھوں سے خدائی طاقت کے نشانات دیکھ لینے کے بعد جو نہیں مانتے وہ پھر ایسے ہی انجام سے دو چار ہوتے ہیں ۔ اب کیا تم لوگ اس سے عبرت حاصل کرنے کے بجائے اس کا مزا چکھنا ہی پسند کرتے ہو؟ تقابل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم ، الاعراف ، آیات 103 تا 137 ۔ یونس ، 75 تا 92 ۔ بنی اسرائیل ، 101 تا 104 ۔ جلد سوم طٰہٰ ، 0 تا 79 ۔