11 4 1یہ ان کی اس خواہش کا جواب ہے کہ کمتر حیثیت کے لوگوں کو اپنے سے دور کر دے، پھر ہم تیری جماعت میں شامل ہوجائیں گے۔
[٧٧] اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم نوح کے چودھریوں نے حضرت نوح سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ اگر تم ان رذیل اور کمینہ لوگوں کو اپنے ہاں سے اٹھا دو تو ہم آپ کے پاس بیٹھنے اور آپ کی باتیں غور سے سننے کو تیار ہیں۔ لیکن ان کی موجودگی میں ہمیں آپ کے پاس بیٹھنا گوارا نہیں اس کے جواب میں نوح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ یہ تو بڑی بےانصافی اور کم عقلی کی بات ہے کہ جو لوگ مجھ پر یمان لائے ہیں، انھیں اپنے ہاں سے تمہاری خاطر دھکیل دوں جن کا بعد میں بھی ایمان لانے کا کچھ اعتبار نہیں۔ تم لوگ مجھ پر ایمان لاؤ یا نہ لاؤ تمہیں اختیار ہے۔ اور میں نے تمہیں تمہارے انجام سے پوری طرح آگاہ کردیا ہے۔ بہرحال میں کسی قسیمت پر بھی پہلے سے ایمان والوں کو اپنے ہاں سے اٹھانے کو تیار نہیں۔
وَمَآ اَنَا بِطَارِدِ الْمُؤْمِنِيْنَ : یہ سرداروں کے اس مطالبے کا جواب ہے کہ ان رذیلوں کو اپنے ہاں سے نکال دیں تو ہم آپ کی مجلس میں بیٹھیں، فرمایا میں کسی صورت ایمان والوں کو نکال دینے والا نہیں کہ انھیں دھکے دے کر نکال دوں۔ (نفی کی تاکید باء کے ساتھ ہونے کی وجہ سے ترجمہ میں ” کسی صورت “ کا اضافہ کیا گیا ہے) یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جو لوگ میری بات نہیں مانتے میں ان کے پیچھے پھرتا رہوں اور جو میری بات مانتے ہیں انھیں دھکے دے کر نکال دوں۔ (دیکھیے عبس : ٥ تا ٩) میرا کام تو صاف اور واضح الفاظ میں کفر کے برے انجام سے ڈرانا ہے، پھر جس کا جی چاہے مانے جس کا جی چاہے نہ مانے۔ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بھی بعینہٖ یہی صورت پیش آئی، نوح (علیہ السلام) اور ان کی قوم کی گفتگو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اسی لیے سنائی جا رہی ہے، فرق صرف نوح (علیہ السلام) اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہے، ورنہ دونوں کی دعوت اور دونوں کے لیے مغرور اور متکبر سرداروں کا جواب ایک ہی ہے۔ یقیناً اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے بہت بڑی تسلی ہے کہ یہ سب کچھ آپ ہی پر نہیں گزر رہا، اہل زمین کی طرف سب سے پہلے رسول کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا تھا۔ اہل ایمان کو اپنے پاس سے نکالنے کی ممانعت کے لیے دیکھیے سورة انعام (٥٢، ٥٣) اور کہف (٢٨) ۔
وَمَآ اَنَا بِطَارِدِ الْمُؤْمِنِيْنَ ١١ ٤ۚ- طرد - الطَّرْدُ : هو الإزعاج والإبعاد علی سبیل الاستخفاف، يقال : طَرَدْتُهُ ، قال تعالی: وَيا قَوْمِ مَنْ يَنْصُرُنِي مِنَ اللَّهِ إِنْ طَرَدْتُهُمْ [هود 30] - ( ط ر د) الطرد - ( ن ) کسی کو حقیر اور ذلیل سمجھ کر دور کردینا ہٹا دینا کہاجاتا ہے طردتہ میں نے اسے بھگا دیا قرآن میں ہے : وَيا قَوْمِ مَنْ يَنْصُرُنِي مِنَ اللَّهِ إِنْ طَرَدْتُهُمْ [هود 30] برادران قوم اگر میں ان کو نکال دوں تو عذاب خدا سے کون میری مدد کرسکتا ہے ۔
(١١٤۔ ١١٥) اور میں ایمانداروں کو عبادت خداوندی سے ہٹانے والا نہیں میں تو ایسی زبان میں صاف طور پر ڈرانے والا رسول ہوں جس کو تم سمجھو۔