11 3 1یعنی ان کے ضمیروں اور اعمال کی تفتیش یہ اللہ کا کام ہے۔
[٧٦] ان دو آیات کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ مجھے اس بات سے کچھ غرض نہیں کہ جو لوگ تمہاری نظروں میں مکتبہ ہیں وہ کیا پیشہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ موچی ہیں یا جولا ہے ہیں یا لوہار ہیں یا کمہار ہیں مجھے یہ معلوم کرنے سے کوئی مطلب نہیں۔ مجھے مطلب ہے تو صرف اس بات سے کہ وہ ایمان لے آئے ہیں اور میرے ساتھی ہیں۔ باقی ان کا پیشہ کیا ہے یہ اللہ بہتر جانتا ہے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ میرے پاس یہ جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں کہ جو شخص میرے پاس آکر ایمان لاتا ہے اور میرے کہنے کے مطابق اس پر عمل کرنے لگتا ہے تو اس کی تہ میں کیا محرکات کام کر رہے ہیں۔ یہ اندازہ لگانا نہ میرا کام ہے نہ تمہارا بلکہ یہ اللہ کا کام ہے۔
اِنْ حِسَابُہُمْ اِلَّا عَلٰي رَبِّيْ لَوْ تَشْعُرُوْنَ ١ ١٣ۚ- حسب - الحساب : استعمال العدد، يقال : حَسَبْتُ «5» أَحْسُبُ حِسَاباً وحُسْبَاناً ، قال تعالی: لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس 5] ، وقال تعالی: وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً [ الأنعام 96] - ( ح س ب ) الحساب - کے معنی گنتے اور شمار کرنے کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ حسبت ( ض ) قرآن میں ہے : ۔ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس 5] اور برسوں کا شمار اور حساب جان لو ۔ وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً [ الأنعام 96] اور اسی نے رات کو ( موجب ) آرام ( ٹھہرایا ) اور سورج اور چانا ۔ کو ( ذرائع ) شمار بنایا ہے ۔ - شعور - الحواسّ ، وقوله : وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات 2] ، ونحو ذلك، معناه : لا تدرکونه بالحواسّ ، ولو في كثير ممّا جاء فيه لا يَشْعُرُونَ : لا يعقلون، لم يكن يجوز، إذ کان کثير ممّا لا يكون محسوسا قد يكون معقولا .- شعور - حواس کو کہتے ہیں لہذا آیت کریمہ ؛ وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات 2] اور تم کو خبر بھی نہ ہو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم حواس سے اس کا ادرک نہیں کرسکتے ۔ اور اکثر مقامات میں جہاں لایشعرون کا صیغہ آیا ہے اس کی بجائے ۔ لایعقلون کہنا صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو محسوس تو نہیں ہوسکتی لیکن عقل سے ان کا ادراک ہوسکتا ہے ۔
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :82 یہ ان کے اعتراض کا پہلا جواب ہے ۔ جیسا کہ اوپر بیان ہوا ، ان کے اعتراض کی بنیاد اس مفروضے پر تھی کہ جو لوگ غریب ، محنت پیشہ اور ادنیٰ درجے کی خدمات انجام دینے والے ہیں یا معاشرے کے پست طبقات سے تعلق رکھتے ہیں ، ان میں کوئی ذہنی صلاحیت نہیں ہوتی ، اور وہ علم و عقل اور سمجھ بوجھ سے عاری ہوتے ہیں ، اس لیے نہ ان کا ایمان کسی فکر و بصیرت پر مبنی ، نہ انکا اعتقاد لائق اعتبار ، اور نہ ان کے اعمال کا کوئی وزن ۔ حضرت نوح علیہ السلام اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ میرے پاس یہ جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں کہ جو شخص میرے پاس آ کر ایمان لاتا ہے اور ایک عقیدہ قبول کر کے اس کے مطابق عمل کرنے لگتا ہے ، اس کے اس فعل کی تہ میں کیا محرکات کام کر رہے ہیں اور وہ کتنی کچھ قدر و قیمت رکھتے ہیں ۔ ان چیزوں کا دیکھنا اور ان کا حساب لگانا تو خدا کا کام ہے ، میرا اور تمہارا کام نہیں ہے ۔
23: کافروں کے مذکورہ اعتراض میں اس طرف بھی اشارہ تھا کہ یہ نچلے درجے کے لوگ سوچ سمجھ کر دل سے ایمان نہیں لائے ہیں، بلکہ کسی ذاتی مفاد کی خاطر آپ کے ساتھ ہو لیے ہیں۔ اس جملے میں اس کا جواب ہے کہ اگر بالفرض ان کے دل میں کوئی اور بات ہے بھی، تو میں اس کی تحقیق کا مکلف نہیں ان کا حساب اللہ تعالیٰ خود لے لیں گے۔