[٨١] یعنی حضرت نوح کی قوم کے انجام سے بھی عبرت حاصل کرنے والے عبرت حاصل کرسکتے ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ حق کو ٹھکرانے والوں کو نیست و نانود کردیتا ہے اور اپنے انبیاء اور مومنوں کو ظالموں کے پنجہ سے نجات دلا کر انھیں باقی رکھتا ہے۔
اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً ۔۔ : ان آیات کی تفسیر سورت کے شروع میں آیت (٨، ٩) کے تحت گزر چکی ہے۔
اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَۃً ٠ ۭ وَمَا كَانَ اَكْثَرُہُمْ مُّؤْمِنِيْنَ ١٢١- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- كثر - الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] - ( ک ث ر )- کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔
(١٢١۔ ١٢٢) اس واقعہ میں بھی بعد میں آنے والوں کے لیے بڑی عبرت ہے اور ان میں اکثر مومن نہیں تھے بلکہ سب ہی کافر تھے اور آپ کا رب سزا دینے میں بڑا زبردست ہے کہ ان لوگوں کو طوفان کے ذریعے سے غرق کردیا اور مومنین پر مہربان ہے کہ ان کو غرق ہونے سے بچا لیا۔