Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1281ریع، ریعۃ، کی جمع ہے۔ ٹیلہ، بلند جگہ، پہاڑ، درہ یا گھاٹی یہ ان گزر گاہوں پر کوئی عمارت تعمیر کرتے جو بلندی پر ایک نشانی مشہور ہوتی۔ لیکن اس کا مقصد اس میں رہنا نہیں ہوتا بلکہ صرف کھیل کود ہوتا تھا۔ حضرت ہود (علیہ السلام) نے منع فرمایا کہ یہ تم ایسا کام کرتے ہو، جس میں وقت اور وسائل کا بھی ضیاع ہے اور اس کا مقصد بھی ایسا ہے جس سے دین اور دنیا کا کوئی مفاد وابستہ نہیں بلکہ صرف کھیل کود ہوتا ہے بیکار محض بےفائدہ ہونے میں کوئی شک نہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَتَبْنُوْنَ بِكُلِّ رِيْعٍ اٰيَةً تَعْبَثُوْنَ : ” رِيْعٍ “ اونچی جگہ۔ قاموس میں ہے ” رِیْعٌ“ (کسرہ اور فتحہ کے ساتھ) اونچی زمین یا ہر کشادہ راستہ یا ہر راستہ یا پہاڑ میں کھلا راستہ یا بلند پہاڑ۔ واحد کے لیے تاء کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔ ” اٰيَةً “ نشانی، یادگار۔ ” تَعْبَثُوْنَ “ ” عَبَثٌ“ (ع) بےفائدہ اور لاحاصل کام کرنا، یعنی تم بےفائدہ اور لاحاصل کام کرتے ہو۔ ” کُلُّ رِیْعٍ “ سے مراد بہت سی اونچی جگہیں ہیں، کیونکہ ہر اونچی جگہ تو یاد گار نہ بن سکتی ہے اور نہ انھوں نے بنائی تھی۔ ہود (علیہ السلام) نے پہلے اپنی قوم کو تمام انبیاء کی لائی ہوئی بنیادی تعلیم اللہ پر ایمان، اس کے تقویٰ اور اطاعت کی دعوت دی، اس کے بعد ان کے چند کاموں پر انکار کا اظہار فرمایا۔ پہلا یہ کہ تم ہر اونچی اور نمایاں جگہ، جہاں تمہارے فخر و غرور، تمہاری شان و شوکت اور دولت و قوت کا اظہار ہوسکتا ہے کوئی نہ کوئی یاد گار بنا دیتے ہو، جس کا دنیا یا آخرت میں کوئی فائدہ نہیں۔ ہود (علیہ السلام) کا مقصد نمود و نمائش کے اس رجحان سے ہٹانا ہے، جس کی وجہ سے ایسے عبث کام کیے جاتے ہیں اور سمجھا جاتا ہے کہ ہم کسی کے سامنے جواب دہ نہیں ہیں۔ بےدریغ مال خرچ کرتے ہوئے کوئی اپنی یاد گار کے طور پر شاندار مقبرہ تعمیر کرا دیتا ہے، کوئی بلند و بالا مینار کھڑا کردیتا ہے، کوئی بارہ دری بنوا دیتا ہے۔ عجائب عالم میں شمار ہونے والے اہرام مصر اور تاج محل بھی اپنے بانیوں کی ایسی ہی لاحاصل اور عبث یاد گاریں ہیں، جن کی جواب دہی انھیں کرنا ہوگی۔ ان یادگاروں کی مذمت اس لیے فرمائی کہ یہ فخر و غرور، فضول خرچی اور عمر عزیز کو ضائع کرنے پر دلالت کرتی ہیں، جن کا باعث یہ ہے کہ ان کے بنانے والوں کو جواب دہی کا احساس نہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

معارف و مسائل - چند مشکل الفاظ کی تشریح :- اَتَبْنُوْنَ بِكُلِّ رِيْعٍ اٰيَةً تَعْبَثُوْنَ ، وَتَتَّخِذُوْنَ مَصَانِعَ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُوْنَ ، (الریع) ابن جریر نے حضرت مجاہد سے نقل فرمایا ہے کہ ریع دو پہاڑوں کے درمیانی راستہ کو کہتے ہیں۔ حضرت ابن عباس سے اور جمہور سے منقول ہے کہ ریع بلند جگہ کو کہتے ہیں اور اسی سے ریع النبات نکلا ہے یعنی بڑھنے اور چڑھنے والی نباتات (ایة) اس کے اصل معنی علامت کے ہیں اس جگہ بلند محل مراد ہے (تَعْبَثُوْنَ ) یہ عبث سے ہے اور عبث اس کو کہتے ہیں جس میں نہ حقیقة کوئی فائدہ ہو اور نہ حکماً اس جگہ معنی یہ ہوں گے کہ وہ بےفائدہ بلند بلند محلات بناتے تھے جن کی ان کو کوئی ضرورت نہیں تھی صرف فخریہ بناتے تھے (مَصَانِعَ ) مصنع کی جمع ہے۔ حضرت قتادہ نے فرمایا کہ مصانع سے پانی کے حوض مراد ہیں لیکن حضرت مجاہد نے فرمایا کہ اس سے مضبوط محل مراد ہیں۔ (لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُوْنَ ) امام بخاری (رح) نے صحیح بخاری میں بیان فرمایا کہ اس آیت میں لَعَلَّ تشبیہ کے لئے ہے اور حضرت ابن عباس نے ترجمہ یہ فرمایا کَاَنَّکُم تَخْلُدُوْنَ یعنی گویا تم ہمیشہ رہو گے (کما فی الروح)- بلاضرورت عمارت بنانا مذموم ہے :- اس آیت سے ثابت ہوا کہ بغیر ضرورت کے مکان بنانا اور تعمیرات کرنا شرعاً برا ہے اور یہی معنی ہیں اس حدیث کے جو امام ترمذی نے حضرت انس سے روایت کی ہے کہ النفقة کلھا فی سبیل اللہ الا البناء فلا خیر فیہ، یعنی وہ عمارت جو ضرورت سے زائد بنائی گئی ہو اس میں کوئی بہتری اور بھلائی نہیں اور اس معنی کی تصدیق حضرت انس کی دوسری روایت سے بھی ہوتی ہے کہ ان کل بناء وبال علی صاحبہ الا مالا، الا مالا یعنی الا مالا بدمنہ (ابو داؤد) یعنی ہر تعمیر صاحب تعمیر کے لئے مصیبت ہے مگر وہ عمارت جو ضروری ہو وہ وبال نہیں ہے روح المعانی میں فرمایا کہ بغیر غرض صحیح کے بلند عمارت بنانا شریعت محمدیہ میں بھی مذموم اور برا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَتَبْنُوْنَ بِكُلِّ رِيْــعٍ اٰيَۃً تَعْبَثُوْنَ۝ ١٢٨ۙ- بنی - يقال : بَنَيْتُ أَبْنِي بِنَاءً وبِنْيَةً وبِنًى. قال عزّ وجلّ : وَبَنَيْنا فَوْقَكُمْ سَبْعاً شِداداً [ النبأ 12] . والبِنَاء : اسم لما يبنی بناء، قال تعالی: لَهُمْ غُرَفٌ مِنْ فَوْقِها غُرَفٌ مَبْنِيَّةٌ [ الزمر 20] ، والبَنِيَّة يعبر بها عن بيت اللہ تعالیٰ «2» . قال تعالی: وَالسَّماءَ بَنَيْناها بِأَيْدٍ [ الذاریات 47] ، وَالسَّماءِ وَما بَناها [ الشمس 5] ، والبُنيان واحد لا جمع، لقوله تعالی: لا يَزالُ بُنْيانُهُمُ الَّذِي بَنَوْا رِيبَةً فِي قُلُوبِهِمْ [ التوبة 110] ، وقال : كَأَنَّهُمْ بُنْيانٌ مَرْصُوصٌ [ الصف 4] ، قالُوا : ابْنُوا لَهُ بُنْياناً [ الصافات 97] ، وقال بعضهم : بُنْيَان جمع بُنْيَانَة، فهو مثل : شعیر وشعیرة، وتمر وتمرة، ونخل ونخلة، وهذا النحو من الجمع يصح تذكيره وتأنيثه .- و - ( ب ن ی )- بنیت ابنی بناء وبنیتہ وبنیا کے معنی تعمیر کرنے کے ہیں قرآن میں ہے ۔ وَبَنَيْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعًا شِدَادًا ( سورة النبأ 12) اور تمہارے اوپر سات مضبوط آسمان بنائے وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ ( سورة الذاریات 47) اور آسمانوں کو ہم ہی نے ہاتھوں سے بنایا ۔ وَالسَّمَاءِ وَمَا بَنَاهَا ( سورة الشمس 5) اور آسمان اور اس ذات کی ( قسم ) جس نے اسے بنایا ۔ البنیان یہ واحد ہے جمع نہیں ہے جیسا کہ آیات ۔ لَا يَزَالُ بُنْيَانُهُمُ الَّذِي بَنَوْا رِيبَةً فِي قُلُوبِهِمْ ( سورة التوبة 110) یہ عمارت جو انہوں نے بنائی ہے ہمیشہ ان کے دلوں میں ( موجب ) خلجان رہے گی ۔ كَأَنَّهُمْ بُنْيَانٌ مَرْصُوصٌ ( سورة الصف 4) کہ گویا سیساپلائی ہوئی دیوار ہیں : قَالُوا ابْنُوا لَهُ بُنْيَانًا فَأَلْقُوهُ فِي الْجَحِيمِ ( سورة الصافات 97) وہ کہنے لگے کہ اس کے لئے ایک عمارت بناؤ ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ بعض کے نزدیک یہ بنیانۃ کی جمع ہے اور یہ : شعیر شعیر وتمر وتمر ونخل ونخلتہ کی طرح ہے یعنی جمع اور مفرد میں تا کے ساتھ فرق کرتے ہیں اور جمع کی اس قسم میں تذکر وتانیث دونوں جائز ہوتے ہیں لَهُمْ غُرَفٌ مِنْ فَوْقِها غُرَفٌ مَبْنِيَّةٌ [ الزمر 20] ان کے لئے اونچے اونچے محل ہیں جن کے اوپر بالا خانے بنے ہوئے ہیں ۔ بناء ( مصدر بمعنی مفعول ) عمارت جمع ابنیتہ البنیتہ سے بیت اللہ مراد لیا جاتا ہے - ريع - الرِّيعُ : المکان المرتفع الذي يبدو من بعید، الواحدة رِيعَةٌ. قال : أَتَبْنُونَ بِكُلِّ رِيعٍ آيَةً- [ الشعراء 128] ، أي : بكلّ مکان مرتفع، وللارتفاع قيل : رَيْعُ البئر : للجثوة المرتفعة حواليها، ورَيْعَانُ كلّ شيء : أوائله التي تبدو منه، ومنه استعیر الرَّيْعُ للزیادة والارتفاع الحاصل، ومنه : تَرَيَّعَ السّراب - ( ر ی ع ) الریع بلند جگہ کو کہتے ہیں ۔ جو دور سے ظاہر ہو اس کا واحد ریعۃ ہے قرآن میں ہے ۔ أَتَبْنُونَ بِكُلِّ رِيعٍ آيَةً [ الشعراء 128] کیا تم ہر اونچی جگہ پر بےضرورت یاد گاریں بناتے ہو ۔ اور معنی ارتفاع کے لحاظ سے کنویں کی منڈیر کو ریع کہا جاتا ہے ۔ پھر ہر چیز کے اوائل کو ریعان کہا جاتا ہے اور استعارہ کے طور پر ریع ہر چیز کے زائد حصہ اور بلندی کے لئے آتا ہے اور اسی سے تریع السحاب ہے جس کے معنی بادل کے نمایاں اور طاہر ہونے کے ہیں ۔- عبث - العَبَثُ : أن يَخْلُطَ بعمله لعبا، من قولهم : عَبَثْتُ الأَقِطَ «3» ، والعَبَثُ : طعامٌ مخلوط بشیء، ومنه قيل : العَوْبَثَانِيُّ «4» لتمرٍ وسمن وسویق مختلط . قال تعالی: أَتَبْنُونَ بِكُلِّ رِيعٍ آيَةً تَعْبَثُونَ [ الشعراء 128] ، ويقال لما ليس له غرض صحیح : عَبَثٌ. قال : أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّما خَلَقْناكُمْ عَبَثاً [ المؤمنون 115] .- ( ع ب ث ) العبث دراصل اس کے معنی ہیں کسی کام کے ساتھ کھیل کود کو ملا دینا اور یہ عبثت الاقط کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں میں نے پنیز کے ساتھ اور چیز کو ملادیا اور العبث وہ کھانا جو کسی چیز کے ساتھ خلط ملط کیا گیا ہو اسی اعتبار سے کھجور ۔ گھی اور ستو کے آمیزہ کو عوبثانی کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : أَتَبْنُونَ بِكُلِّ رِيعٍ آيَةً تَعْبَثُونَ [ الشعراء 128] تم ہر بلند مقام پر بےمقصد پڑی عمارتیں تعمیر کرتے ہو نیز العبث مہر اس کام کو کہتے ہیں جس کی کوئی صحیح غرض نہ ہو قرآن میں ہے : أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّما خَلَقْناكُمْ عَبَثاً [ المؤمنون 115] کیا تم یہ خیال کئے بیٹھے ہو کہ ہم نے تم کو یونہی بےغرض وغایت پیدا کردیا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٢٨) کیا تم ہر ایک راستہ پر ایک یادگار کے طور پر عمارت بناتے ہو اور وہاں سے غریبوں میں سے جو بھی گزرتا ہے اس کو مارتے ہو اور اس کے کپڑے اتار لیتے ہو۔- یا یہ مطلب ہے کہ ہر ایک اونچے مقام پر ایک یادگار کے طور پر عمارت بناتے ہو جس کو محض فضول بناتے ہو اور وہاں سے ہر ایک گزرنے والے مذاق اڑاتے ہو۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٢٨ (اَتَبْنُوْنَ بِکُلِّ رِیْعٍ اٰیَۃً تَعْبَثُوْنَ ) ” - تم لوگ بغیر کسی مقصد اور افادیت کے جگہ جگہ بڑی بڑی عمارتیں محض اپنی یادگاروں کے طور پر تعمیر کردیتے ہو۔ یہ فضول ریت ہر تمدن اور ہر قوم میں رہی ہے۔ ہر دور کے امراء اور حکمران زرکثیر خرچ کر کے بڑی بڑی عمارتیں محض اس لیے تعمیر کرتے رہے ہیں کہ وہ دنیا میں ان کی یادگاروں کے طور پر قائم رہیں۔ اہرام مصر اور تاج محل ان یادگاروں کی مثالیں ہیں جن پر اپنے اپنے زمانے میں کروڑ ہا روپیہ خرچ کیا گیا مگر انسانیت کے لیے ان کی افادیت کچھ بھی نہیں ہے۔ قوم عاد کے امراء بھی ایسی یادگاریں بنانے کے شوقین تھے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :90 یعنی محض اپنی عظمت و خوشحالی کا مظاہرہ کرنے کے لیے ایسی عالی شان عمارتیں تعمیر کرتے ہو جن کا کوئی مصرف نہیں ، جن کی کوئی حاجت نہیں ، جن کا کوئی فائدہ اس کے سوا نہیں کہ وہ بس تمہاری دولت و شوکت کی نمود کے لیے ایک نشانی کے طور پر کھڑی رہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

25: فضول حرکتوں کے دو مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ہر بلند جگہ پر کوئی یادگار تعمیر کرنے کو ہی فضول حرکت کہا گیا ہے، کیونکہ اس کا کوئی صحیح مقصد نہیں تھا، بلکہ محض دکھاوے اور بڑائی کے اظہار کے لیے یہ کام کیا جاتا تھا۔ دوسری تشریح بعض مفسرین، مثلا حضرت ضحاک نے یہ کی ہے کہ وہ لوگ ان اونچی تعمیروں پر بیٹھ کر یا کھڑے ہو کر نیچے سے گذرنے والوں کے ساتھ طرح طرح کی ناشائستہ حرکتیں کیا کرتے تھے۔ اس کو فضول حرکت سے تعبیر کیا گیا ہے (روح المعانی)۔