Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1291اسی طرح وہ بڑی مضبوط اور عالی شان رہائشی عمارتیں تعمیر کرتے تھے، جیسے وہ ہمیشہ انہی محلات میں رہیں گے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَتَتَّخِذُوْنَ مَصَانِعَ ۔۔ :” مَصَانِعَ “ ” مَصْنَعٌ“ یا ” مَصْنَعَۃٌ“ کی جمع ہے۔ مختار الصحاح اور قاموس میں اس کا معنی بڑے بڑے قلعے، مضبوط محلات اور زمین دوز نہریں لکھا ہے۔ راغب لکھتے ہیں کہ ” صَنْعٌ“ کا معنی کوئی کام عمدہ طریقے سے کرنا ہے۔ عالی شان جگہوں کو ” مَصَانِعَ “ کہا گیا ہے۔ ” لَعَلَّكُمْ “ ” لَعَلَّ “ کا معنی ہے ” امید ہے، شاید “ یہاں یہ ” کَأَنَّ “ کا مفہوم ادا کر رہا ہے ” گویا، جیسے۔ “ یہ ان کا دوسرا کام ہے جس پر ہود (علیہ السلام) نے انکار کا اظہار فرمایا، اس سے ان کی ہمیشہ زندہ رہنے کی حرص اور لمبی امید کا اظہار ہوتا تھا۔ یعنی تمہاری دوسری قسم کی تعمیرات ایسی ہیں جو اگرچہ استعمال کے لیے ہیں مگر انھیں شاندار، مزین اور مستحکم بنانے کے لیے تم اپنی دولت، محنت اور قابلیت اس طرح صرف کرتے ہو جیسے تمہیں ہمیشہ یہیں رہنا ہے، اس کے سوا تمہیں کسی اور زندگی کی فکر ہی نہیں۔- ابن کثیر نے ابن ابی حاتم سے نقل فرمایا ہے کہ ابوالدرداء (رض) نے ” غوطہ “ میں مسلمانوں کی بنائی ہوئی عمارتیں اور شجر کاری دیکھی تو ان کی مسجد میں جا کر آواز دی : ” اے دمشق والو “ وہ ان کے پاس جمع ہوگئے، تو انھوں نے اللہ کی حمد و ثنا کی، پھر فرمایا : ” کیا تم حیا نہیں کرتے ؟ کیا تم حیا نہیں کرتے ؟ تم وہ کچھ جمع کر رہے ہو جو کھاتے نہیں اور وہ عمارتیں بنا رہے ہو جن میں رہتے نہیں اور اس کی امید کرتے ہو جو کبھی حاصل نہیں کرسکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ تم سے پہلے کئی صدیاں گزریں، وہ لوگ جمع کرتے تھے، پھر اس کی حفاظت کرتے تھے، عمارتیں بناتے تھے اور بہت مضبوط بناتے تھے، امیدیں باندھتے تھے اور بہت لمبی باندھتے تھے، پھر ان کی امید دھوکا نکلی اور ان کی جماعت ہلاک ہوگئی اور ان کی رہائش گاہیں قبریں بن گئیں۔ یاد رکھو قوم عاد عدن سے عمان تک گھوڑوں اور اونٹوں کے مالک تھے، اب کون ہے جو مجھ سے ان کی میراث دو درہم میں خرید لے ؟ “ دکتور حکمت بن بشیر نے فرمایا، اس کی سند حسن ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَتَتَّخِذُوْنَ مَصَانِعَ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُوْنَ۝ ١٢٩ ۚ- أخذ ( افتعال، مفاعله)- والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر - ( اخ ذ) الاخذ - الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔- صنع - الصُّنْعُ : إجادةُ الفعل، فكلّ صُنْعٍ فِعْلٌ ، ولیس کلّ فعل صُنْعاً ، ولا ينسب إلى الحیوانات والجمادات کما ينسب إليها الفعل . قال تعالی: صُنْعَ اللَّهِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ [ سورة النمل 88] ، وَيَصْنَعُ الْفُلْكَ [هود 38] ، - ( ص ن ع ) الصنع - ( ف) کے معنی کسی کام کو ( کمال مہارت سے ) اچھی طرح کرنے کے ہیں اس لئے ہر صنع کو فعل کہہ سکتے ہیں مگر ہر فعل کو صنع نہیں کہہ سکتے اور نہ ہی لفظ فعل کی طرح حیوانات اور جمادات کے لئے بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ صُنْعَ اللَّهِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ [ سورة النمل 88] یہ خدا کی صنعت کاری ہے جس نے ہر چیز کو نہایت مہارت سے محکم طور پر بنایا ۔ وَيَصْنَعُ الْفُلْكَ [هود 38] تو نوح (علیہ السلام) نے کشتی بنائی شروع کردی ۔- لعل - لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] - ( لعل ) لعل - ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔- خلد - الخُلُود : هو تبرّي الشیء من اعتراض الفساد، وبقاؤه علی الحالة التي هو عليها، والخُلُودُ في الجنّة : بقاء الأشياء علی الحالة التي عليها من غير اعتراض الفساد عليها، قال تعالی: أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة 82] ،- ( خ ل د ) الخلودُ ( ن )- کے معنی کسی چیز کے فساد کے عارضہ سے پاک ہونے اور اپنی اصلی حالت پر قائم - رہنے کے ہیں ۔ اور جب کسی چیز میں دراز تک تغیر و فساد پیدا نہ ہو۔ قرآن میں ہے : ۔ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ [ الشعراء 129] شاید تم ہمیشہ رہو گے ۔ جنت میں خلود کے معنی یہ ہیں کہ اس میں تمام چیزیں اپنی اپنی اصلی حالت پر قائم رہیں گی اور ان میں تغیر پیدا نہیں ہوگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة 82] یہی صاحب جنت میں ہمشہ اسمیں رہیں گے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٢٩) اور بڑی بڑی منزلیں محلات اور حوض بناتے ہو جیسا کہ دنیا میں تمہیں ہمیشہ رہنا ہے اور یہاں کوئی بھی ہمیشہ نہیں رہے گا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٢٩ (وَتَتَّخِذُوْنَ مَصَانِعَ لَعَلَّکُمْ تَخْلُدُوْنَ ) ” - ایسی یادگاریں اور ایسے محلات تو بعد میں بھی قائم رہتے ہیں مگر انہیں بنانے والے باقی نہیں رہتے۔ جیسے غرناطہ اور قرطبہ کے محلاتّ تو اب بھی موجود ہیں مگر ان کے مکینوں کا آج کہیں نام و نشان نہیں۔ بہر حال ان محلات کو تعمیر کروانے والوں نے تو انہیں ایسے ہی بنایا تھا جیسے انہیں ہمیشہ ان میں رہنا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :91 یعنی تمہاری دوسری قسم کی تعمیرات ایسی ہیں جو اگرچہ استعمال کے لیے ہیں ، مگر انکو شاندار ، مزیَّن اور مستحکم بنانے میں تم اس طرح اپنی دولت ، محنت اور قابلیتیں صرف کرتے ہو جیسے دنیا میں ہمیشہ رہنے کا سامان کر رہے ہو ، جیسے تمہاری زندگی کا مقصد بس یہیں کے عیش کا اہتمام کرنا ہے اور اس کے ماوراء کوئی چیز نہیں ہے ۔ جس کی تمہیں فکر ہو ۔ اس سلسلے میں یہ بات ملحوظ خاطر رہنی چاہیے کہ بلا ضرورت یا ضرورت سے زیادہ شاندار عمارتیں بنانا کوئی منفرد فعل نہیں ہے جس کا ظہور کسی قوم میں اس طرح ہو سکتا ہو کہ اس کی اور سب چیزیں تو ٹھیک ہوں اور بس یہی ایک کام وہ غلط کرتی ہو ۔ یہ صورت حال تو ایک قوم میں رونما ہی اس وقت ہوتی ہے جب ایک طرف اس میں دولت کی ریل پیل ہوتی اور دوسری طرف اس کے اندر نفس پرستی و مادہ پرستی کی شدت بڑھتے بڑھتے جنون کی حد کو پہنچ جاتی ہے ۔ اور یہ حالت جب کسی قوم میں پیدا ہوتی ہے تو اس کا سارا ہی نظام تمدن فاسد ہو جاتا ہے ۔ حضرت ہود علیہ السلام نے اپنی قوم کی تعمیرات پر جو گرفت کی اس سے مقصود یہ نہیں تھا کہ ان کے نزدیک صرف یہ عمارتیں ہی بجائے خود قابل اعتراض تھیں ، بلکہ دراصل وہ بحیثیت مجموعی ان کے فساد تمدن و تہذیب پر گرفت کر رہے تھے اور ان عمارتوں کا ذکر انہوں نے اس حیثیت سے کیا تھا کہ سارے ملک میں ہر طرف یہ بڑے بڑے پھوڑے اس فساد کی نمایاں ترین علامت کے طور پر ابھرے نظر آتے تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

26: قرآن کریم میں یہاں مصانع کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے اصل معنی ہیں وہ چیزیں جو کاریگری کا مظاہرہ کر کے بنائی گئی ہوں، اس میں ہر طرح کی وہ تعمیرات داخل ہیں جو نام و نمود کی خاطر بڑی شان و شوکت سے بنائی گئی ہو چاہے وہ زرق برق محل ہوں، یا پر شکوہ قلعے یا نہریں اور راستے۔ یہاں حضرت ہود (علیہ السلام) نے اس طرز عمل پر جو اعتراض فرمایا ہے، در اصل اس کا منشا یہ ہے کہ تم نے اپنی ساری دوڑ دھوپ کا مرکز اس نام و نمود اور شان و شوکت کو بنایا ہوا ہے، اور اسی کو اپنی زندگی کا مقصد سمجھ بیٹھے ہو، جیسے تمہیں ہمیشہ اسی دنیا میں رہنا ہے، اور کبھی اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش نہیں ہونا۔