Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1301یہ ان کے ظلم و تشدد اور قوت و طاقت کی طرف اشارہ ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨٣] اس قوم کے تین افعال کا اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا جن میں سے پہلے دو فن تعمیر سے تعلق رکھتے ہیں۔ پہلی یہ کہ یہ لوگ یادگاریں بہت زیادہ تعمیر کرتے جن کا عملی طور پر کوئی فائدہ نہ ہوتا تھا۔ کسی نے اپنی یادگار میں شاندار مقبرہ تعمیر کرالیا۔ کسی نے کوئی اونچا مینار بنایا۔ تو کسی نے کوئی بارہ دری تعمیر کرا دی۔ جیسے اہرام مصر ہیں یا روضہ تاج محل اور اسی طرح کی دوسری یادگاریں آج کل بھی پائی جیتی ہیں اور ان سے مقصود۔۔ ناموری یا نمودو نمائش ہوتا تھا۔ تغبثون سے بعض لوگوں نے مراد کھیل تماشا ہی لیا ہے۔ یعنی وہ ایسی بلند عمارتوں کو اوپر چڑھ کر کبوتر بازی اور پرندوں وغیرہ کا شکار بھی کیا کرتے تھے۔ دوسری قابل ذکر چیز یہ ہے کہ وہ اپنے رہائشی گھر بھی بہت اونچے، شاندار اور مضبوط بناتے تھے فلک بوس عمارتیں کھڑی کرنا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ ان کی ضرورت بھی تھی۔ ان کے قد بھی بہت لمبے ہوتے تھے اور عمریں بھی بہت دراز ہوتی تھیں اور اگر وہ معمولی قسم کا میٹریل عمارتوں میں استعمال کرتے وہ میٹریل ان کی زندگی میں ساتھ نہیں دیتا تھا اس صورت میں ہر شخص کو اپنی زندگی میں کئی بار مکان بنانے کی ضرورت پیش آسکتی تھی۔ قرآن نے ان کی اس عادت پر سخت۔۔ فرمائی۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مکانوں کی تعمیر میں مضبوطی اور بلندی میں بہت مبالغہ سے کام لیتے تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ شاندار تا ابد انھیں ان مکانات میں رہتا ہے۔ جب یہ قوم اللہ کے عذاب سے تباہ ہوئی تو بعد میں ان کی یہ مضبوط عمارتیں بھی کھنڈرات میں تبدیل ہوگئیں اور آج وہ کھنڈرات بھی معدوم ہوچکے ہیں۔- ان لوگوں کی آسودہ حالی، عالیشان عمارات، اور جسمانی مضبوطی اور توانائی نے انتہائی متکبر بنادیا تھا۔ انسان اور نرمی کا برتاؤ ان کی سرشت سے معدوم ہوچکا تھا۔ وہ دوسروں کے حقوق غصب کرنے میں بہت دلیر اور جری تھے۔ اپنے معاشرہ کے بھی کمزور اور ضعیف طبقہ پر بھی ظلم و ستم ڈھاتے تھے اور آس پاس کے علاقوں میں بھی ان کا رویہ جابرانہ اور تاپرانہ ہوتا تھا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِيْنَ : یہ ان کا تیسرا کام ہے جس پر ہود (علیہ السلام) نے انکار فرمایا کہ تم ایسے سنگدل اور انسانیت سے عاری ہو کہ کمزوروں کے لیے تمہارے دل میں کوئی رحم نہیں، وہ گرد و پیش کی کمزور قومیں ہوں یا تمہارے پست طبقہ کے لوگ، جب انھیں پکڑتے ہو تو بہت بےرحم ہو کر پکڑتے ہو، دنیا کے لالچ اور تکبر نے انسانی اخلاق کا لباس تمہارے جسموں سے اتار دیا ہے۔ اس کا باعث بھی یہی تھا کہ ان کا اللہ کی توحید اور یوم آخرت پر ایمان نہ تھا۔ ایمان سنگدلی کی اجازت نہیں دیتا۔ مومن قتل کرتے وقت بھی سنگدلی سے کام نہیں لیتا۔ عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّ أَعَفَّ النَّاسِ قِتْلَۃً أَھْلُ الْإِیْمَانِ ) [ مسند أحمد : ١؍٣٩٣، ح : ٣٧٢٨، قال المحقق حدیث حسن ] ” یقیناً قتل کرنے میں سب لوگوں سے زیادہ اچھا طریقہ اختیار کرنے والے اہل ایمان ہوتے ہیں۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِيْنَ۝ ١ ٣٠ۚ- بطش - البَطْشُ : تناول الشیء بصولة، قال تعالی: وَإِذا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِينَ [ الشعراء 130] ، يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرى[ الدخان 16] ، وَلَقَدْ أَنْذَرَهُمْ بَطْشَتَنا [ القمر 36] ، إِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيدٌ [ البروج 12] . يقال : يد بَاطِشَة .- ( ب ط ش ) البطش کے معنی کوئی چیز زبردستی لے لینا کے ہیں قرآن میں : وَإِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِينَ ( سورة الشعراء 130) اور جب کسی کو پکڑتے تو ظالمانہ پکڑتے ہو ۔ يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرى[ الدخان 16] جس دن ہم بڑی سخت پکڑ پکڑیں گے ۔ وَلَقَدْ أَنْذَرَهُمْ بَطْشَتَنا [ القمر 36] اور لوط نے ان کو ہماری گرفت سے ڈرایا ۔ إِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيدٌ [ البروج 12] بیشک تمہاری پروردگار کی گرفت بڑی سخت ہے ید کا طشۃ سخت گیر ہاتھ ۔- جبر - أصل الجَبْر : إصلاح الشیء بضرب من القهر، - والجبّار في صفة الإنسان يقال لمن يجبر نقیصته بادّعاء منزلة من التعالي لا يستحقها، وهذا لا يقال إلا علی طریق الذم، کقوله عزّ وجل : وَخابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ [إبراهيم 15] - ( ج ب ر ) الجبر - اصل میں جبر کے معنی زبردستی اور دباؤ سے کسی چیز کی اصلاح کرنے کے ہیں ۔ الجبار انسان کی صفت ہو تو اس کے معنی ہوتے ہیں ناجائز تعلی سے اپنے نقص کو چھپانے کی کوشش کرنا ۔ بدیں معنی اس کا استعمال بطور مذمت ہی ہوتا ہے ۔ جیسے قران میں ہے : ۔ وَخابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ [إبراهيم 15] تو ہر سرکش ضدی نامراد ہ گیا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٣٠) اور جب کسی کا مواخذہ کرنے لگتے ہو تو بالکل ہی ظالم و جابر بن کر اس کا مواخذہ کرتے ہو اور اسے غصہ میں آکر قتل کرتے ہو۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٣٠ (وَاِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِیْنَ ) ” - جب تم کسی قوم پر حملہ آور ہوتے ہو تو ظلم و جبر کی انتہا کردیتے ہو۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :92 یعنی اپنا معیار زندگی بلند کرنے میں تو تم اس قدر غلو کر گئے ہو کہ رہنے کے لیے تم کو مکان نہیں محل اور قصر درکار ہیں ، اور ان سے بھی جب تمہاری تسکین نہیں ہوتی تو بلا ضرورت عالی شان عمارتیں بنا ڈالتے ہو جن کا کوئی مصرف اظہار وقت و ثروت کے سوا نہیں ہے ۔ لیکن تمہارا معیار انسانیت اتنا گرا ہوا ہے کہ کمزوروں کے لیے تمہارے دلوں میں کوئی رحم نہیں ، غریبوں کے لیے تمہاری سر زمین کوئی انصاف نہیں ، گرد و پیش کی ضعیف قومیں ہوں یا خود اپنے ملک کے پست طبقات ، سب تمہارے جبر اور ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں اور کوئی تمہاری چیرہ دستیوں سے بچا نہیں رہ گیا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

27: یعنی ایک طرف تو تمہارا حال یہ ہے کہ ان نام و مود کی عمارتوں پر پانی کی طرح پیسہ بہاتے ہو، اور دوسری طرف غریبوں کے ساتھ تمہارا رویہ انتہائی ظالمانہ ہے کہ ذرا سی بات پر کسی کی پکڑ کرلی تو اس کی جان عذاب میں آگئی۔ حضرت ہود (علیہ السلام) کی یہ باتیں نقل کر کے قرآن کریم نے ہم سب کو توجہ دلائی ہے کہ کہیں ہمارا طرز عمل بھی اس زمرے میں تو نہیں آتا کہ بس دنیا کی شان و شوکت ہی کو سب کچھ سمجھ کر آخرت سے غافل ہوں، اور دولت مندی کے نشے میں غریبوں کو اپنے ظلم و ستم کی چکی میں پیس رکھا ہو۔