13 1 1جب ان کے اوصاف قبیحہ بیان کیئے جو ان کے دنیا میں انہماک اور ظلم و سرکشی پر دلالت کرتے ہیں تو پھر انھیں دوبارہ تقویٰ اور اپنی اطاعت کی دعوت دی۔
[٨٤] ہود (علیہ السلام) نے شرک کے انجام سے ڈرایا اور ان تینوں قسم کے کاموں کی قباحت بیان کرتے ہوئے کہا کہ اللہ سے ڈرتے ہوئے زندگی گزارنے کا طرز عمل سیکھو اور خوب سمجھ لو کہ تمہیں یہاں ہمیشہ رہنا کبھی میسر نہ آئے گا۔ مرنے کے بعد تمہیں دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور تمہارے ان تمام افعال و اعمال کی تم سے باز پرس بھی ہوگی۔ لہذا تمہارے لئے بہترین راستہ یہ ہے کہ میری بات مان لو اور جس طرح میں کہہ رہا ہوں اسی طرح کرتے جاؤ۔
فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوْنِ : یہ دعوت کا خلاصہ ہے جو تقریر کے شروع میں بیان فرمایا، تاکید کے لیے اسے پھر بیان فرمایا ہے کہ اللہ سے ڈر کر اس اکیلے کی عبادت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔
فَاتَّقُوا اللہَ وَاَطِيْعُوْنِ ١٣١ۚ- طوع - الطَّوْعُ : الانقیادُ ، ويضادّه الكره قال عزّ وجلّ : ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت 11] ، وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران 83] ، والطَّاعَةُ مثله لکن أكثر ما تقال في الائتمار لما أمر، والارتسام فيما رسم . قال تعالی: وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء 81] ، طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد 21] ، أي : أَطِيعُوا، وقد طَاعَ له يَطُوعُ ، وأَطَاعَهُ يُطِيعُهُ «5» .- قال تعالی: وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن 12] ، مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء 80] ، وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب 48] ، وقوله في صفة جبریل عليه السلام : مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير 21] ، والتَّطَوُّعُ في الأصل : تكلُّفُ الطَّاعَةِ ، وهو في التّعارف التّبرّع بما لا يلزم کالتّنفّل، قال : فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة 184] ، وقرئ :( ومن يَطَّوَّعْ خيراً )- ( ط و ع ) الطوع - کے معنی ( بطیب خاطر ) تابعدار ہوجانا کے ہیں اس کے بالمقابل کرھ ہے جس کے منعی ہیں کسی کام کو ناگواری اور دل کی کراہت سے سر انجام دینا ۔ قرآن میں ہے : ۔ ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت 11] آسمان و زمین سے فرمایا دونوں آؤ دل کی خوشی سے یا ناگواري سے - وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران 83] حالانکہ سب اہل آسمان و زمین بطبیب خاطر یا دل کے جبر سے خدا کے فرمانبردار ہیں ۔ یہی معنی الطاعۃ کے ہیں لیکن عام طور طاعۃ - کا لفظ کسی حکم کے بجا لانے پر آجاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء 81] اور یہ لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم دل سے آپ کے فرمانبردار ہیں ۔ طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد 21]( خوب بات ) فرمانبردار ی اور پسندیدہ بات کہنا ہے ۔ کسی کی فرمانبرداری کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن 12] اور اس کے رسول کی فر مانبردار ی کرو ۔ مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء 80] جو شخص رسول کی فرمانبردار ی کرے گا بیشک اس نے خدا کی فرمانبرداری کی ۔ وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب 48] اور کافروں کا کہا نہ مانو ۔ اور حضرت جبریل (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير 21] سردار اور امانتدار ہے ۔ التوطوع ( تفعل اس کے اصل معنی تو تکلیف اٹھاکر حکم بجالا نا کے ہیں ۔ مگر عرف میں نوافل کے بجا لانے کو تطوع کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة 184] اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے ۔ ایک قرات میں ومن یطوع خیرا ہے
(١٣١ تا ١٣٤) اللہ تعالیٰ نے جو تمہیں کفر سے توبہ کرنے اور ایمان لانے کا حکم دیا ہے اس چیز میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو اور اس اللہ تعالیٰ سے ڈرو جس نے تمہیں وہ چیزیں دیں جن کو تم جانتے ہومویشی اور بیٹے اور باغات اور پاک پانی کے چشمے تمہیں عطا کیے۔