13 7 1یعنی وہی باتیں ہیں جو پہلے بھی لوگ کرتے آئے ہیں یا یہ مطلب ہے کہ ہم جس دین اور عادات و روایات پر قائم ہیں، وہ وہی ہیں جن پر ہمارے آباء و اجداد کار بند رہے، مطلب دونوں سورتوں میں یہ ہے کہ ہم آبائی مذہب کو نہیں چھوڑ سکتے۔
[٨٦] اس نصیحت کے جواب میں یہ سرکش قوم کہنے لگی کہ ایسی باتیں تو ہم بھی سنتے چلے آئے ہیں۔ کچھ لوگ نبی بن کر ایسی باتیں کیا کرتے ہیں کہ تم پر اللہ کا عذاب آئے گا اور مرتے جینے کا سلسلہ ان سے پہلے بھی چلتا تھا۔ بعد میں بھی چلتا رہا ہے اور آئندہ بھی چلتا رہے گا۔ لہذا تمہاری ایسی نصیحتیں ہمارے لئے بےکار ہیں۔ نہ ہم ان باتوں پر یقین رکھتے ہیں۔- امام بخاری نے خلق الاولین میں خلق سے دین مراد لیا ہے (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ زیر تفسیر روم ( اس لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ تو پرانے لوگوں کا مذہب ہے۔ پرانے لوگ ایسی باتیں کیا کرتے تھے۔ مگر اب ایسے اولڈ فیشن لوگوں کا زمانہ لد چکا۔ موجودہ دور میں ایسے لوگوں کے لئے بنیاد پرست ( ) کی اصطلاحی وضع کی گئی ہے۔ یعنی وہ لوگ جو اپنے عقیدہ و عمل میں اپنے نبی کی تعلیم پر سختی سے عمل پیرا ہوں اور نئی روشنی یا نئی تہذیب کو پرانی جہالت سمجھتے ہوں۔
اِنْ ھٰذَآ اِلَّا خُلُقُ الْاَوَّلِيْنَ ۔۔ : یعنی یہ بت پرستی، یادگاریں اور عالی شان عمارتیں بنانا اور اپنے مخالفین کے ساتھ ایسا سلوک کرنا کوئی ہمارا شیوہ ہی نہیں، یہی کچھ ہمارے پہلے باپ دادا کرتے آئے ہیں۔ ان کا دین بھی یہی تھا اور تمدن بھی یہی، نہ ان پر کوئی عذاب آیا نہ ہم پر آئے گا۔ آیت کا ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نصیحت کی یہ باتیں جو تم ہم سے کر رہے ہو کوئی نئی نہیں ہیں، پہلے بھی ایسے خبطی گزرے ہیں جو اس طرح کی باتیں کرتے رہے ہیں۔ ہم پر ان کا کچھ اثر نہیں، نہ ہمیں کوئی عذاب ہوگا۔
اِنْ ھٰذَآ اِلَّا خُلُقُ الْاَوَّلِيْنَ ١٣ ٧ۙ- خُلُقُ ( جھوٹ)- وكلّ موضع استعمل الخلق في وصف الکلام فالمراد به الکذب، ومن هذا الوجه امتنع کثير من النّاس من إطلاق لفظ الخلق علی القرآن وعلی هذا قوله تعالی:- إِنْ هذا إِلَّا خُلُقُ الْأَوَّلِينَ [ الشعراء 137] ، وقوله : ما سَمِعْنا بِهذا فِي الْمِلَّةِ الْآخِرَةِ إِنْ هذا إِلَّا اخْتِلاقٌ [ ص 7] ،- اور وہ ہر مقام جہاں خلق کا لفظ کلام کے متعلق استعمال ہوا ہے ۔ اس سے جھوٹ ہی مرا د ہے ۔ اس بنا پر الگ اکثر لوگ قرآن کے متعلق خلق کا لفظ استعمال نہیں کیا کرتے تھے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا :۔إِنْ هذا إِلَّا خُلُقُ الْأَوَّلِينَ [ الشعراء 137] یہ تو اگلوں کے ہی طریق ہیں اور ایک قراءت میں إِنْ هذا إِلَّا خُلُقُ الْأَوَّلِينَ [ الشعراء 137] بھی ہے یعنی یہ پہلے لوگوں کی ایجاد واختراع ہو ما سَمِعْنا بِهذا فِي الْمِلَّةِ الْآخِرَةِ إِنْ هذا إِلَّا اخْتِلاقٌ [ ص 7] یہ پچھلے مذہب میں ہم نے کبھی سنی ہی نہیں ۔ یہ بالکل بنائی ہوئی بات ہے ۔ خلق ۔ کا لفظ مخلوق کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔
آیت ١٣٧ (اِنْ ہٰذَآ اِلَّا خُلُقُ الْاَوَّلِیْنَ ) ” - آپ ( علیہ السلام) ہمارے سامنے پرانے زمانے کی باتوں اور فرسودہ روایات کو دہرا رہے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ باتیں تو بس یوں ہی چلی آئی ہیں۔
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :93 اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ جو کچھ ہم کر رہے ہیں یہ آج کوئی نئی چیز نہیں ہے ، صدیوں سے ہمارے باپ دادا یہی کچھ کرتے چلے آ رہے ہیں ۔ یہی ان کا دین تھا ، یہی ان کا تمدن تھا اور ایسے ہی ان کے اخلاق اور معاملات تھے ۔ کون سی آفت ان پر ٹوٹ پڑی تھی کہ اب ہم اس کے ٹوٹ پڑنے کا اندیشہ کریں ۔ اس طرز زندگی میں کوئی خرابی ہوتی تو پہلے ہی وہ عذاب آ چکا ہوتا جس سے تم ڈراتے ہو ۔ دوسرے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ جو باتیں تم کر رہے ہو ایسی ہی باتیں پہلے بھی بہت سے مذہبی خبطی اور اخلاق کی باتیں بگھارنے والے کرتے رہے ہیں ، مگر دنیا کی گاڑی جس طرح چل رہی تھی اسی طرح چلے جا رہی ہے ۔ تم جیسے لوگوں کی باتیں نہ ماننے کا یہ نتیجہ کبھی بر آمد نہ ہوا کہ یہ گاڑی کسی صدمہ سے دو چار ہو کر الٹ گئی ہوتی ۔
28: اس کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ تم جو ہمیں دنیا کی شان و شوکت سے بیزار کر کے آخرت کی باتیں کر رہے ہو، پچھلے زمانے میں بھی لوگ اس طرح کے جھوٹے دعوے کرتے آئے ہیں، اس لیے تمہاری بات توجہ کے لائق نہیں ہے۔ اور یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، بلکہ پرانے زمانے سے لوگ یہی کرتے آرہے ہیں۔ اس لیے اس پر اعتراض درست نہیں۔