13 8 1جب انہوں نے اس امر کا اظہار کیا کہ ہم تو اپنا آبائی دین نہیں چھوڑیں گے، تو اس میں عقیدہ آخرت کا انکار بھی تھا۔ اس لئے انہوں نے عذاب میں مبتلا ہونے کا بھی انکار کیا۔ کیونکہ عذاب الٰہی کا اندیشہ تو اسے ہوتا ہے جو اللہ کو مانتا اور روز جزا کو تسلیم کرتا ہے۔
وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِيْنَ ١٣٨ۚ- عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا
آیت ١٣٨ (وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِیْنَ ) ” - یہ آپ ( علیہ السلام) خواہ مخواہ ہم پر دھونس جما رہے ہیں ‘ ہم پر کوئی عذاب وغیرہ آنے والا نہیں ہے۔