1 4 1یہ اشارہ ہے اس قتل کی طرف، جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے غیر ارادی طور پر ہوگیا تھا اور مقتول قبطی یعنی فرعون کی قوم سے تھا، اس لئیے فرعوں اس کے بدلے میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنا چاہتا تھا، جس کی اطلاع پا کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مصر سے مدین چلے گئے تھے۔ اس واقعہ پر اگرچہ کئی سال گزر چکے تھے، مگر فرعون کے پاس جانے میں واقعی یہ امکان موجود تھا کہ فرعون ان کو اس جرم میں پکڑ کر قتل کی سزا دینے کی کوشش کرے۔ اس لئے یہ خوف بھی بلا جواز نہیں تھا۔
[١٠] اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو مدین سے واپسی پر نبوت عطا فرمائی تو ساتھ ہی حکم دیا کہ تمہیں فرعون اور قوم فرعون کے پاس جو اپنے ظلم کی وجہ سے مشہور ہوچکی ہے۔ جاکر دعوت کا فریضہ سرانجام دینا ہے۔ تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی سابقہ زندگی کے کئی واقعات آپ کی آنکھوں کے سامنے پھرگئے۔ اور کئی قسم کے خطرات سامنے آنے لگے۔ جن میں سرفہرست یہ تھا کہ وہ میری دعوت الی الحق کو کیا اہمیت دے گا۔ جبکہ میں اس قوم کا ایک فرد ہوں۔ جسے اس نے اپنا غلام بنا رکھا ہے۔ اور خوب دبا کر رکھتا ہے۔ پھر میں اس کا پروردہ بھی ہوں۔ علاوہ ازیں میں ان کا مجرم بھی ہوں۔ ان سب باتوں کو ذہن میں رکھ کر جب اسے اللہ کا پیغام سنانے کا تصور کیا تو سینہ میں گھٹن سی محسوس ہوئی۔ چناچہ اللہ کے حضور یہ خطرات بیان بھی کردیئے۔ مگر انکار کی مجال نہ تھی۔ اور یہی اولوالعزم انبیاء کی شان ہوتی ہے کہ وہ اللہ کے ایسے فرمانبردار بندے ہوتے ہیں کہ اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر بھی اللہ کا پیغام پہنچانے سے دریغ نہیں کرتے۔ التبہ اتنی گزارش ضرور کی کہ میرے بھائی ہارون کو بھی نبوت عطا فرما کر میرے ہمراہ کردیجئے۔ جو اس کام میں میرا معاون و مددگار ہو اور ہم کم از کم ایک کے بجائے دو تو ہوجائیں گے جو ایک دوسرے کے غمگسار اور ہمدرد ہوں۔ علاوہ ازیں میری زبان بھی روانی سے نہیں چلتی۔ جبکہ میرا بھائی ہارون فصیح اللسان ہے۔
وَلَهُمْ عَلَيَّ ذَنْۢبٌ۔۔ : یعنی مجھ سے ان کا ایک آدمی قتل ہوگیا ہے، جو ان کے کہنے کے مطابق میرا جرم ہے، اس لیے میں ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے قتل کردیں گے۔ اس واقعہ کی تفصیل سورة قصص (١٥) میں آرہی ہے، مختصر یہ کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے ایک قبطی کو ایک اسرائیلی سے لڑتے دیکھ کر گھونسا مار دیا، جس سے اس قبطی کی موت واقع ہوگئی، پھر جب موسیٰ (علیہ السلام) کو معلوم ہوا کہ اس واقعہ کی اطلاع فرعون اور اس کے لوگوں کو ہوگئی ہے اور وہ بدلا لینے کے لیے مشورے کر رہے ہیں تو وہ مصر سے مدین چلے گئے۔ معلوم ہوا کہ خوف طبعی طور پر انبیاء ( علیہ السلام) کو بھی لاحق ہوجاتا ہے۔ (قرطبی)
وَلَہُمْ عَلَيَّ ذَنْۢبٌ فَاَخَافُ اَنْ يَّقْتُلُوْنِ ١٤ۚ- ذنب - والذَّنْبُ في الأصل : الأخذ بذنب الشیء، يقال : ذَنَبْتُهُ : أصبت ذنبه، ويستعمل في كلّ فعل يستوخم عقباه اعتبارا بذنب الشیء، ولهذا يسمّى الذَّنْبُ تبعة، اعتبارا لما يحصل من عاقبته، وجمع الذّنب ذُنُوب، قال تعالی: فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ [ آل عمران 11] ،- الذنب ( ض )- کے اصل معنی کسی چیز کی دم پکڑنا کے ہیں کہا جاتا ہے ذنبتہ میں نے اس کی دم پر مارا دم کے اعتبار ست ہر اس فعل کو جس کا انجام برا ہوا سے ذنب کہہ دیتے ہیں اسی بناء پر انجام کے اعتباڑ سے گناہ کو تبعتہ بھی کہا جاتا ہے ۔ ذنب کی جمع ذنوب ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ [ آل عمران 11] تو خدا نے ان کو ان کے گناہوں کے سبب ( عذاب میں ) پکڑلیا تھا۔- قتل - أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] - ( ق ت ل ) القتل - ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144]
(١٤) اور میں نے قبطی کو قتل کردیا تھا اس کا بدلہ بھی میرے ذمہ ہے مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ لوگ مجھے قتل نہ کر ڈالیں۔
آیت ١٤ (وَلَہُمْ عَلَیَّ ذَنْبٌ فَاَخَافُ اَنْ یَّقْتُلُوْنِ ) ” - مصر میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھوں ایک قبطی قتل ہوگیا تھا۔ اس واقعہ کی تفصیل سورة القصص میں آئے گی۔ اگرچہ یہ قتل عمد نہیں بلکہ قتل خطا تھا ‘ لیکن تھا تو بہر حال قتل۔ اس لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا اندیشہ درست تھا کہ وہ انہیں دیکھتے ہی گرفتار کرلیں گے اور مقدمہ چلا کر سزائے موت کا مستحق ٹھہرا دیں گے۔
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :11 یہ اشارہ ہے اس واقعہ کی طرف جو سورہ قصص رکوع 2 میں بیان ہوا ہے ۔ حضرت موسیٰ نے قوم فرعون کے ایک شخص کو ایک اسرائیل سے لڑتے دیکھ کر ایک گھونسا مار دیا تھا جس سے وہ مر گیا ۔ پھر جب حضرت موسیٰ کو معلوم ہوا کہ اس واقعہ کی اطلاع قوم فرعون کے لوگوں کو ہو گئی ہے اور وہ بدلہ لینے کی تیاری کر رہے ہیں ۔ ملک چھوڑ کر مَدْیَن کی طرف فرار ہو گئے تھے ۔ اب جو آٹھ دس سال کی روپوشی کے بعد یکایک انہیں یہ حکم دیا گیا کہ تم پیغام رسالت لے کر اسی فرعون کے دربار میں جا کھڑے ہو جس کے ہاں تمہارے خلاف قتل کا مقدمہ پہلے سے موجود ہے تو حضرت موسیٰ کو بجا طور پر یہ خطرہ ہوا کہ پیغام سنانے کی نوبت آنے سے پہلے ہی وہ تو مجھے اس قتل کے الزام میں پھانس لے گا ۔
3: حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ایک مظلوم کو بچاتے ہوئے ظالم کو ایک مکا مارا تھا جس سے وہ مر ہی گیا۔ اس وجہ سے ان پر قتل کا الزام لگ گیا تھا۔ تفصیلی واقعہ سورۂ قصص میں آنے والا ہے۔