Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

151اللہ تعالیٰ نے تسلی دی کہ تم دونوں جاؤ، میرا پیغام ان کو پہنچاؤ، تمہیں جو اندیشے لاحق ہیں ان سے ہم تمہاری حفاظت کریں گے۔ آیات سے مراد وہ دلائل ہیں جن سے ہر پیغمبر کو آگاہ کیا جاتا ہے یا وہ معجزات ہیں جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو دیئے گئے تھے، جیسے ید بیضا اور عصا۔ 152یعنی تم جو کچھ کہو گے اور اس کے جواب میں وہ جو کچھ کہے گا، ہم سن رہے ہونگے اس لئے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم تمہیں فریضہ رسالت سونپ کر تمہاری حفاظت سے بےپرواہ نہیں ہوجائیں گے بلکہ نصرت ومعاونت ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١١] موسیٰ (علیہ السلام) کی اس التجا اور ان خطرات کے جواب میں فرمایا : کہ (1) تمہاری التجا منظور ہے، میں ہارون کو نبوت عطا کردیتا ہوں اور وہ تمہارے ساتھ رہے گا اور اس کام میں تمہارا مددگار ہوگا، (2) تمہیں جو اس بات کا خطرہ ہے کہ وہ مجھے مار ہی نہ دالیں۔ تو اس بات کو دل سے نکال دو ۔ وہ لوگ تمہارا بال بھی بیکا نہ کرسکیں گے۔ اور اس کی دو وجہ ہیں۔ ایک یہ کہ تمہیں دو ایسے معجزات دے کر بھیجا رہا ہوں جو اس بات کا یقینی ثبوت پیش کرتے ہیں کہ تم فی الواقعہ اللہ کے رسول ہو اور دوسری وجہ یہ ہے کہ تم دونوں کے سات تیسرا میں بھی ہوں۔ میں تمہاری سب باتیں سنتا ہوں اور تمہاری پوری پوری نگہداشت بھی کروں گا۔- اس آیت اور اس جیسی بعض دوسری آیات سے جہمیہ نے استدلال کیا کہ اللہ کی ذات ہر جگہ موجود ہے اور جن آیات میں اللہ کے مستوی علی العرش ہونے کا ذکر تھا ان آیات کی تاویل کر ڈالی۔ حالانکہ جن آیات میں اللہ کی معیت یا اس کے قریب ہونے کا ذکر ہے تو ایسی معیت یا قربت ذات کے لحاظ سے نہیں بلکہ صفات کے لحاظ سے ہے۔ اس کی ایک معمولی سی مثالی یوں سمجھئے کہ سورج اور چاند اللہ کی بےجان اور ادنیٰ سے مخلوق ہے۔ جو مسافر کے ساتھ ہی رہتی ہے۔ چلنے والا جہاں تک چلے پہلے وہ ساتھ ساتھ ہی رہتے ہیں۔ حالانکہ وہ آسمان پر ہیں اور انسان لاکھوں اور کروڑوں میل دور ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ مستوی علی العرش ہونے کے باوجود اپنے علم، اپنی قدرت اور مدد کے لحاظ سے ہر انسان سے بالکل نزدیک ہے اور اس کی صحیح کیفیت تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قَالَ كَلَّا۔۔ : فرمایا، ہرگز ایسا نہیں ہوگا، نہ وہ تمہیں قتل کرسکیں گے، نہ کوئی ایذا پہنچا سکیں گے۔ تمہاری ہارون کو معاون نبی بنانے کی درخواست بھی قبول ہے، اس لیے تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ۔ - فَاذْهَبَا بِاٰيٰتِنَآ اِنَّا مَعَكُمْ مُّسْتَمِعُوْنَ : ہمت بندھانے کے لیے دو چیزیں عطا فرمائیں، پہلی عصا اور ید بیضا کے معجزے، دوسری اپنی معیت کا وعدہ۔ عام معیت تو کائنات کی ہر چیز کو حاصل ہے، یہاں معیت سے مراد معیت خاصہ ہے، جیسا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون اور اس کی فوج کے آ پہنچنے پر فرمایا تھا : (اِنَّ مَعِيَ رَبِّيْ سَيَهْدِيْنِ ) [ الشعراء : ٦٢ ] ” ہرگز نہیں بیشک میرے ساتھ میرا رب ہے، وہ مجھے ضرور راستہ بتائے گا۔ “ اور جیسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ساتھی کے لیے کہا تھا : ( لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا ) [ التوبۃ : ٤٠ ] ” غم نہ کر، بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ “ ” سَمِعَ “ ” اس نے سنا “ اور ” اِسْتَمَعَ “ اس نے کان لگا کر سنا۔ “ ” لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا “ میں ضمیر ” کُمْ “ تثنیہ کے لیے استعمال ہوئی ہے، کیونکہ دوسری جگہ فرمایا : (لَا تَخَافَآ اِنَّنِيْ مَعَكُمَآ اَسْمَعُ وَاَرٰى) [ طٰہٰ : ٤٦ ] ” ڈرو نہیں، بیشک میں تم دونوں کے ساتھ ہوں، میں سن رہا ہوں اور دیکھ رہا ہوں۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالَ كَلَّا۝ ٠ ۚ فَاذْہَبَا بِاٰيٰتِنَآ اِنَّا مَعَكُمْ مُّسْتَمِعُوْنَ۝ ١٥- ذهب - الذَّهَبُ معروف، وربما قيل ذَهَبَةٌ ، ويستعمل ذلک في الأعيان والمعاني، قال اللہ تعالی: وَقالَ إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات 99] ،- ( ذ ھ ب ) الذھب - ذھب ( ف) بالشیء واذھبتہ لے جانا ۔ یہ اعیان ومعانی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات 99] کہ میں اپنے پروردگار کی طرف جانے والا ہوں ۔ - الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- اسْتِمَاعُ :- الإصغاء نحو : نَحْنُ أَعْلَمُ بِما يَسْتَمِعُونَ بِهِ ، إِذْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [ الإسراء 47] ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ [ محمد 16] ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [يونس 42] ، وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ [ ق 41] ، وقوله : أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس 31] ، أي : من الموجد لِأَسْمَاعِهِمْ ، وأبصارهم، والمتولّي لحفظها ؟ والْمِسْمَعُ والْمَسْمَعُ : خرق الأذن، وبه شبّه حلقة مسمع الغرب «1» .- استماع اس کے معنی غور سے سننے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ نَحْنُ أَعْلَمُ بِما يَسْتَمِعُونَ بِهِ ، إِذْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [ الإسراء 47] ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ لوگ جب تمہاری طرف کان لگاتے ہیں تو جس سے یہ سنتے ہیں ۔ ہم اسے خوب جانتے ہیں ۔ وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ [ محمد 16] اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو تمہاری ( باتوں کی) طرف کان رکھتے ہیں ۔ وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [يونس 42] اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو تمہاری طرف کان لگاتے ہیں ۔ وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ [ ق 41] اور سنو ( ن پکارنے والا پکارے گا ۔ اور آیت : ۔ أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس 31] یا ( تماہرے ) کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے ۔ یعنی ان کا پیدا کرنے والا اور ان کی حفاظت کا متولی کون ہے ۔ اور مسمع یا مسمع کے معنی کان کے سوراخ کے ہیں اور اسی کے ساتھ تشبیہ دے کر ڈول کے دستہ کو جس میں رسی باندھی جاتی ہے مسمع الغرب کہا جاتا ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٥) اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا اے موسیٰ (علیہ السلام) میں ہرگز ان لوگوں کو تم پر تسلط کا موقع نہیں دوں گا، سو تم دونوں ہماری نو نشانیاں یعنی یدبیضاء، عصا، طوفان، قمل، جراد، ضفادع، دم، پھلوں کی کمی، قحط سالی لے کر جاؤ میں تمہارا مددگار ہوں اور جو کچھ وہ تم دونوں کو جواب دے گا میں اس کو سنتا ہوں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :12 نشانیوں سے مراد عصا اور ید بیضاء کے معجزے ہیں جن کے عطا کیے جانے کی تفصیل سورہ الاعراف رکوع 13 ۔ 14 ، طٰہٰ رکوع 1 ، سورہ نمل رکوع 1 ، اور سورہ قصص رکوع 4 میں بیان ہوئی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani