15 1 1مُسْرِفِیْنَ سے مراد وہ رؤسا اور سردار ہیں جو کفر و شرک کے داعی اور مخالفت میں پیش پیش تھے۔
[٩٢] حضرت صالح (علیہ السلام) کا یہ خطاب نچلے طبقہ کے لوگوں سے تھا جو تعداد میں زیادہ مگر چودھری ٹائپ لوگوں کے زیر نگیں ہوتے ہیں اور عموماً یہی لوگ انبیاء کی دعوت پر توجہ دیتے ہیں۔ کیونکہ یہ چودھریاں کے مظالم سے تنگ آئے ہوتے ہیں۔ آپ نے انھیں سمجھایا کہ اپنے ان چودھریوں اور رئیسوں کی اطاعت چھوڑ دو ۔ کیونکہ یہ مشرف لوگ ہیں جو اخلاق کی ساری حدیں پھلانگ کر شتر بےمہار بن چکے ہین۔ ان کے ہاتھوں خیر اور بھلائی یا معاشرتی بگاڑ کی اصلاح کبھی نہیں ہوسکتی۔ تمہارے لئے ان لوگوں سے نجات حاصل کرنے کا صرف یہی طریقہ ہے کہ اپنے اندر اللہ کا خوف اور تقویٰ پیدا کرو اور ان کی اطاعت کے بجائے میری اطاعت کرو۔ کیونکہ میں اللہ کا رسول ہوں اور اللہ کے بتلائے ہوئے طریقے سے ہی تمہاری اخلاقی، تمدنی اور سیاسی اصلاح ممکن ہے۔
وَلَا تُطِيْعُوْٓا اَمْرَ الْمُسْرِفِيْنَ ۔۔ : یعنی ان لوگوں کا کہنا مت مانو جو اخلاق و تہذیب کی ساری حدیں پھلانگ کر شتر بےمہار بن گئے ہیں۔ مراد ان کے وہ سردار اور امراء ہیں جو شرک و کفر کے داعی اور حق کی مخالفت میں پیش پیش تھے اور جن کی زیر قیادت ان کا بگڑا ہوا نظام زندگی چل رہا تھا، ایسے لوگ ہمیشہ زمین میں فساد ہی پھیلاتے ہیں، ان کے ہاتھوں اصلاح کبھی نہیں ہوسکتی۔ قرآن مجید کے دوسرے مقام سے معلوم ہوتا ہے کہ ان ” الْمُسْرِفِيْنَ “ میں سب سے پیش پیش وہ نو (٩) بدمعاش تھے جنھوں نے ملک میں فساد مچا رکھا تھا اور آخر کار قوم کی تباہی کا سبب بنے، فرمایا : (وَكَانَ فِي الْمَدِيْنَةِ تِسْعَةُ رَهْطٍ يُّفْسِدُوْنَ فِي الْاَرْضِ وَلَا يُصْلِحُوْنَ ) [ النمل : ٤٨ ] ” اور اس شہر میں نو (٩) شخص تھے، جو اس سرزمین میں فساد پھیلاتے تھے اور اصلاح نہیں کرتے تھے۔ “
(١٥١۔ ١٥٢) اور ان مشرکین کا کہنا مت مانو جو زمین میں کفر وشرک اور غیر اللہ کی پرستش کی ترغیب کرتے پھرتے ہیں اور نجات کی بات نہیں کرتے۔