الَّذِيْنَ يُفْسِدُوْنَ فِي الْاَرْضِ وَلَا يُصْلِحُوْنَ ١٥٢- فسد - الفَسَادُ : خروج الشیء عن الاعتدال، قلیلا کان الخروج عنه أو كثيرا،. قال تعالی: لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون 71] ، - ( ف س د ) الفساد - یہ فسد ( ن ) الشئی فھو فاسد کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کے حد اعتدال سے تجاوز کر جانا کے ہیں عام اس سے کہ وہ تجاوز کم ہو یا زیادہ قرآن میں ہے : ۔ لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون 71] تو آسمان و زمین ۔۔۔۔۔ سب درہم برہم ہوجائیں ۔- صلح - والصُّلْحُ يختصّ بإزالة النّفار بين الناس، يقال منه : اصْطَلَحُوا وتَصَالَحُوا، قال : أَنْ يُصْلِحا بَيْنَهُما صُلْحاً وَالصُّلْحُ خَيْرٌ [ النساء 128] - ( ص ل ح ) الصلاح - اور الصلح کا لفظ خاص کر لوگوں سے باہمی نفرت کو دورکر کے ( امن و سلامتی پیدا کرنے پر بولا جاتا ہے ) چناچہ اصطلحوا وتصالحوا کے معنی باہم امن و سلامتی سے رہنے کے ہیں قرآن میں ہے : أَنْ يُصْلِحا بَيْنَهُما صُلْحاً وَالصُّلْحُ خَيْرٌ [ النساء 128] کہ آپس میں کسی قرار داد پر صلح کرلیں اور صلح ہی بہتر ہے ۔
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :100 یعنی اپنے ان امراء و رؤساء اور ان رہنماؤں اور حاکموں کی اطاعت چھوڑ دو جن کی قیادت میں تمہارا یہ فاسد نظام زندگی چل رہا ہے ۔ یہ مسرف لوگ ہیں ، اخلاق کی ساری حدیں پھاند کر شتر بے مہار بن چکے ہیں ۔ ان کے ہاتھوں سے کوئی اصلاح نہیں ہو سکتی ۔ یہ جس نظام کو چلائیں گے اس میں بگاڑ ہی پھیلے گا ۔ تمہارے لیے فلاح کی کوئی صورت اگر ہے تو صرف یہ کہ اپنے اندر خدا ترسی پیدا کرو اور مفسدوں کی اطاعت چھوڑ کر میری اطاعت کرو ، کیونکہ میں خدا کا رسول ہوں ، میری امانت و دیانت کو تم پہلے سے جانتے ہو ، اور میں ایک بے غرض آدمی ہوں ، اپنے کسی ذاتی فائدے کے لیے اصلاح کا یہ کام کرنے نہیں اٹھا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تھا وہ مختصر منشور جو حضرت صالح علیہ السلام نے اپنی قوم کے سامنے پیش کیا ۔ اس میں صرف مذہبی تبلیغ ہی نہ تھی ، تمدنی و اخلاقی اصلاح اور سیاسی انقلاب کی دعوت بھی ساتھ ساتھ موجود تھی ۔