نبی کا اپنے آپ سے تقابل ثمودیوں نے اپنے نبی کو جواب دیا کہ تجھ پر تو کسی نے جادو کردیا ہے گو ایک معنی یہ بھی کئے گئے کہ تو مخلوق میں سے ہے اور اسکی دلیل میں عربی کا ایک شعر بھی پیش کیا جاتا ہے لیکن ظاہر معنی پہلے ہی ہیں ۔ اسی کے ساتھ انہوں نے کہا کہ تو تو ہم جیسا ایک انسان ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم میں سے تو کسی پر وحی نہ آئے اور تجھ پر آجائے کچھ نہیں یہ صرف بناوٹ ہے ایک خود ساختہ ڈرامہ ہے محض جھوٹ اور صاف طوفان ہے اچھا ہم کہتے ہیں اگر تو واقعی سچا نبی ہے تو کوئی معجزہ دکھا اس وقت ان کے چھوٹے بڑے سب جمع تھے اور یک زبان ہو کر سب نے معجزہ طلب کیا تھا ۔ آپ نے پوچھا تم کیا معجزہ دیکھانا چاہتے ہو؟ انہوں نے کہا یہ سامنے جو پتھر کی بڑی ساری چٹان ہے یہ ہمارے دیکھتے ہوئے پھٹے اور اس میں سے ایک گابھن اونٹنی اس اس رنگ کی اور ایسی ایسی نکلے ۔ آپ نے فرمایا اچھا اگر میں رب سے دعا کروں اور وہ یہی معجزہ میرے ہاتھوں تمہیں دکھا دے پھر تو تمہیں میری نبوت کے ماننے میں کوئی عذر نہ ہوگا ؟ سب نے پختہ وعدہ کیا قول قرار کیا کہ ہم سب ایمان لائیں گے اور آپ کی نبوت مان لیں گے ۔ آپ بہت جلد یہ معجزہ دکھائیں ۔ آپ نے اسی وقت نماز شروع کردی پھر اللہ عزوجل سے دعا کی اسی وقت وہ پتھر پھٹا اور اسی طرح کی ایک اونٹنی ان کے دیکھتے ہوئے اس میں سے نکلی ۔ کچھ لوگ تو حسب اقرار مومن ہوگئے لیکن اکثر لوگ پھر بھی کافر کے کافر رہے ۔ آپ نے کہا سنو ایک دن یہ پانی پئے گی اور ایک دن پانی کی باری تمہاری مقرر رہے گی ۔ اب تم میں سے کوئی اسے برائی نہ پہنچائے ورنہ بدترین عذاب تم پر اتر پڑے گا ۔ ایک عرصے تک تو وہ رکے رہے ۔ اونٹنی ان میں رہی چارہ چگتی اور اپنی باری والے دن پانی پیتی ۔ اس دن یہ لوگ اس کے دودھ سے سیر ہوجاتے ۔ لیکن ایک مدت کے بعد ان کی بدبختی نے انہیں آگھیرا ۔ ان میں سے ایک ملعون نے اونٹنی کے مار ڈالنے کا ارادہ کیا اور کل اہل شہر اس کے موافق ہوگئے چنانچہ اس کی کوچیں کاٹ کر اسے مار ڈالا ۔ جس کے نتیجے میں انہیں سخت ندامت اور پیشمانی اٹھانی پڑی اللہ کے عذاب نے انہیں اچانک آدبوچا ۔ ان کی زمین ہلا دی گئیں اور ایک چیخ سے سب کے سب ہلاک کردئیے گئے ۔ دل اڑ گئے کلیجے پاش پاش ہوگئے اور وہم گمان بھی جس چیز کا نہ تھا وہ آن پڑا ۔ اور تاآخر سب غارت ہوگئے اور دنیا جہاں کے لئے یہ خوفناک واقعہ عبرت افزا ہوگیا ۔ اتنی بڑی نشانی اپنی آنکھوں دیکھ کر بھی ان میں سے اکثر لوگوں کو ایمان لانا نصیب نہ ہوا اسمیں کچھ شک نہیں کہ اللہ غالب ہے اور رحیم بھی ہے ۔
[٩٣] حضرت صالح (علیہ السلام) کی دعوت پر جب چند کمزور قسم کے لوگ ایمان لے آئے۔ تو چودھری لوگ حضرت صالح (علیہ السلام) کا مذاق اڑانے لگے کہ ان لوگوں کے سہارے تم انقلاب لانا چاہتے ہو ؟ کیا تمہاری عقل تو جواب نہیں دے گئی۔ معلوم ہوتا ہے کہ تم پر کسی نے جادو کردیا ہے جو ایسی بہکی بہکی باتیں کرنے لگے ہو۔ پھر جب صالح (علیہ السلام) کے پیروکاروں میں کچھ مزید اضافہ ہوگیا۔ تو چودھریوں کو کچھ فکر لاحق ہونے لگی اور ان کا انداز کلام بھی بدل گیا۔ کہنے لگے : تم بھی ہمارے ہی جیسے آدمی ہو آخر تم میں وہ کون سی زائد خوبی ہے کہ ہم تجھے اللہ کا رسول تسلیم کرلیں۔ ہاں اگر تم واقعی اپنے دعویٰ میں سچے ہو تو کوئی نشانی پیش کرو۔
قَالُوْٓا اِنَّمَآ اَنْتَ مِنَ الْمُسَحَّرِيْنَ : ” مَسْحُوْرِیْنَ “ جن پر جادو کیا گیا ہو۔ ” لْمُسَحَّرِيْنَ “ باب تفعیل سے ہے، اس میں مبالغہ ہے، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے ” تو تو انھی لوگوں سے ہے جن پر زبردست جادو کیا گیا ہے۔ “ جب وہ لوگ صالح (علیہ السلام) کی دعوت پر کوئی اعتراض نہ کرسکے تو عامۃ الناس کو بیوقوف بنانے کے لیے کہنے لگے، زبردست جادو کی وجہ سے تیری عقل ماری گئی ہے۔
قَالُوْٓا اِنَّمَآ اَنْتَ مِنَ الْمُسَحَّرِيْنَ ١٥ ٣ۚ- سحر - والسِّحْرُ يقال علی معان :- الأوّل : الخداع وتخييلات لا حقیقة لها، نحو ما يفعله المشعبذ بصرف الأبصار عمّا يفعله لخفّة يد، وما يفعله النمّام بقول مزخرف عائق للأسماع، وعلی ذلک قوله تعالی:- سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف 116] - والثاني :- استجلاب معاونة الشّيطان بضرب من التّقرّب إليه، کقوله تعالی:- هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء 221- 222] ، - والثالث :- ما يذهب إليه الأغتام «1» ، وهو اسم لفعل يزعمون أنه من قوّته يغيّر الصّور والطّبائع، فيجعل الإنسان حمارا، ولا حقیقة لذلک عند المحصّلين . وقد تصوّر من السّحر تارة حسنه، فقیل : «إنّ من البیان لسحرا» «2» ، وتارة دقّة فعله حتی قالت الأطباء : الطّبيعية ساحرة، وسمّوا الغذاء سِحْراً من حيث إنه يدقّ ويلطف تأثيره، قال تعالی: بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر 15] ، - ( س ح ر) السحر - اور سحر کا لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے اول دھوکا اور بےحقیقت تخیلات پر بولاجاتا ہے - جیسا کہ شعبدہ باز اپنے ہاتھ کی صفائی سے نظرون کو حقیقت سے پھیر دیتا ہے یانمام ملمع سازی کی باتین کرکے کانو کو صحیح بات سننے سے روک دیتا ہے چناچہ آیات :۔ سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف 116] تو انہوں نے جادو کے زور سے لوگوں کی نظر بندی کردی اور ان سب کو دہشت میں ڈال دیا ۔ - دوم شیطان سے کسی طرح کا تقرب حاصل کرکے اس سے مدد چاہنا - جیسا کہ قرآن میں ہے : هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء 221- 222] ( کہ ) کیا تمہیں بتاؤں گس پر شیطان اترا کرتے ہیں ( ہاں تو وہ اترا کرتے ہیں ہر جھوٹے بدکردار پر ۔- اور اس کے تیسرے معنی وہ ہیں جو عوام مراد لیتے ہیں - یعنی سحر وہ علم ہے جس کی قوت سے صور اور طبائع کو بدلا جاسکتا ہے ( مثلا ) انسان کو گدھا بنا دیا جاتا ہے ۔ لیکن حقیقت شناس علماء کے نزدیک ایسے علم کی کچھ حقیقت نہیں ہے ۔ پھر کسی چیز کو سحر کہنے سے کبھی اس شے کی تعریف مقصود ہوتی ہے جیسے کہا گیا ہے (174)- ان من البیان لسحرا ( کہ بعض بیان جادو اثر ہوتا ہے ) اور کبھی اس کے عمل کی لطافت مراد ہوتی ہے چناچہ اطباء طبیعت کو ، ، ساحرۃ کہتے ہیں اور غذا کو سحر سے موسوم کرتے ہیں کیونکہ اس کی تاثیر نہایت ہی لطیف ادرباریک ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر 15]( یا ) یہ تو نہیں کہ ہم پر کسی نے جادو کردیا ہے ۔ یعنی سحر کے ذریعہ ہمیں اس کی معرفت سے پھیر دیا گیا ہے ۔
(١٥٣) ان لوگوں نے کہا کہ تم پر تو کسی نے بڑا بھاری جادو کردیا ہے کہ تم ایسی باتیں کرتے ہو۔
آیت ١٥٣ ( قَالُوْٓا اِنَّمَآ اَنْتَ مِنَ الْمُسَحَّرِیْنَ ) ” - یعنی آپ ( علیہ السلام) پر یقیناً جادو یا آسیب کے اثرات ہیں جو اس طرح کی باتیں کر رہے ہیں۔
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :101 سحر زدہ یعنی دیوانہ و مجنون ، جس کی عقل ماری گئی ہو ۔ قدیم تصورات کے مطابق پاگل پن یا تو کسی جن کے اثر سے لاحق ہوتا تھا یا جادو کے اثر سے ۔ اس لیے وہ جسے پاگل کہنا چاہتے تھے اس کو یا تو مجنون کہتے تھے یا مسحور اور مسحر ۔