مَآ اَنْتَ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا ۔۔ : اس کے دو مطلب ہوسکتے ہیں، ایک یہ کہ تو ہمارے جیسا بشر ہے اور بشر رسول نہیں ہوسکتا، جیسا کہ تمام پیغمبروں کے امتیوں نے بشر ہونے کی وجہ سے ان کی رسالت کا انکار کیا۔ ( دیکھیے بنی اسرائیل : ٩٤) دوسرا یہ کہ تو ہمارے جیسا ایک بشر ہے، پھر تجھ میں کیا خصوصیت ہے کہ ہمیں چھوڑ کر تجھے رسالت عطا ہوئی ہے۔ (دیکھیے قمر : ٢٥) ” فَاْتِ بِاٰيَةٍ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِيْنَ “ اس لیے اپنی اس خصوصیت کی دلیل کے طور پر تجھے کوئی معجزہ پیش کرنا ہوگا، جس سے ثابت ہوجائے کہ واقعی تجھے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے۔
مَآ اَنْتَ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا ٠ۚ ۖ فَاْتِ بِاٰيَۃٍ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِيْنَ ١٥٤- بشر - وخصّ في القرآن کلّ موضع اعتبر من الإنسان جثته وظاهره بلفظ البشر، نحو : وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْماءِ بَشَراً [ الفرقان 54] ،- ( ب ش ر ) البشر - اور قرآن میں جہاں کہیں انسان کی جسمانی بناوٹ اور ظاہری جسم کا لحاظ کیا ہے تو ایسے موقع پر خاص کر اسے بشر کہا گیا ہے جیسے فرمایا : وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْماءِ بَشَراً [ الفرقان 54] اور وہی تو ہے جس نے پانی سے آدمی پیدا کیا ۔ إِنِّي خالِقٌ بَشَراً مِنْ طِينٍ [ ص 71] کہ میں مٹی سے انسان بنانے والا ہوں ۔ - مثل - والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] .- ( م ث ل ) مثل ( ک )- المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه - ( ا ت ی ) الاتیان - ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے - صدق - الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ص دق) الصدق ۔- یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال - ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔
(١٥٤) ورنہ تم نہ فرشتے ہو اور نہ نبی تم تو ہماری طرح کے ایک معمولی سے آدمی ہو جیسا کہ ہم کھاتے پیتے ہیں تم بھی اسی طرح کھاتے پیتے ہو سو اگر تم اپنے دعوی نبوت میں اور اس چیز میں کہ ہم پر عذاب نازل ہوگا سچے ہو تو کوئی معجزہ پیش کرو۔
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :102 یعنی بظاہر تو ہم میں اور تجھ میں کوئی فرق نظر نہیں آتا کہ ہم تجھے خدا کا فرستادہ مان لیں ۔ لیکن اگر تو اپنے مامور من اللہ اور مرسل من جانب اللہ ہونے کے دعوے میں سچا ہے تو کوئی ایسا محسوس معجزہ پیش کر جس سے ہمیں یقین آ جائے کہ واقعی کائنات کے خالق اور زمین و آسمان کے مالک نے تجھ کو ہمارے پاس بھیجا ہے ۔
31: نشانی سے مراد معجزہ ہے اور انہوں نے خود فرمائش کی تھی کہ پہاڑ کے اندر سے ایک اونٹنی نکال کر دکھاؤ۔