15 5 1یہ وہی اونٹنی تھی جو ان کے مطالبے پر پتھر کی ایک چٹان سے بطور معجزہ ظاہر ہوئی تھی ایک دن اونٹنی کے لئے اور ایک دن ان کے لئے پانی مقرر کردیا گیا تھا، اور ان سے کہہ دیا گیا تھا کہ جو دن تمہارا پانی لینے کا ہوگا، اونٹنی گھاٹ پر نہیں آئے گی اور جو دن اونٹنی کے پانی پینے کا ہوگا، تمہیں گھاٹ پر آنے کی اجازت نہیں ہے۔
[٩٤] صالح (علیہ السلام) نے ان سے پوچھا : کونسی نشانی چاہتے ہو ؟ وہ کہنے لگے ہم یہ چاہتے ہیں کہ یہ سامنے والا پہاڑ پھٹے اور اس میں سے ایک حاملہ اونٹنی برآمد ہو۔ پھر وہ حاملہ اونٹنی ہمارے سامنے بچہ جنے تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے۔ صالح (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی۔ جسے اللہ تعالیٰ نے شرف قبولیت بخشا۔ پہاڑ پھٹا جس سے ایک عظیم الجثہ اور دیو ہیکل اونٹنی پیدا ہوئی۔ جس نے ان لوگوں کے سامنے بچہ جنا۔ جب قوم کا مطلوبہ معجزہ ظہور میں آگیا۔ تو یہ ان لوگوں کے لئے ایک مصیبت بن گیا۔ کیونکہ اونٹنی اگر کسی کنوئیں یا چشمے پر پانی پینے جاتی تو قوم کے دوسرے جانور اس اونٹنی کے قد و قامت اور ڈیل ڈول سے ڈر کر بھاگ جاتے تھے۔
قَالَ هٰذِهٖ نَاقَةٌ ۔۔ : اللہ تعالیٰ نے اس اونٹنی کو ” آیَۃٌ بَیِّنَۃٌ“ اور ” آیَۃٌ مُبْصِرَۃٌ“ (واضح نشانی و معجزہ) قرار دیا ہے۔ دیکھیے سورة اعراف (٧٣) ، ہود (٦٤) اور بنی اسرائیل (٥٩) اس سے معلوم ہوا کہ وہ عام قسم کی اونٹنی نہ تھی بلکہ اس کی پیدائش اور ظاہر ہونے میں ضرور کوئی ایسی بات تھی جس کی بنا پر اسے معجزہ قرار دیا گیا۔ ” الصحیح المسبور “ میں ہے کہ ابن حبان نے صحیح سند کے ساتھ ابوطفیل عامر بن واثلہ (رض) سے روایت کی ہے : ” صالح (علیہ السلام) نے انھیں فرمایا، نکلو تو وہ ایک چٹان کی طرف نکلے، وہ چٹان اس طرح لرزی جس طرح حاملہ اونٹنی کو درد زہ ہوتا ہے، پھر وہ پھٹی اور اس کے درمیان سے اونٹنی نکلی تو صالح (علیہ السلام) نے ان سے کہا : (وَيٰقَوْمِ هٰذِهٖ نَاقَــةُ اللّٰهِ لَكُمْ اٰيَةً فَذَرُوْهَا تَاْكُلْ فِيْٓ اَرْضِ اللّٰهِ وَلَا تَمَسُّوْهَا بِسُوْۗءٍ فَيَاْخُذَكُمْ عَذَابٌ قَرِيْبٌ) [ ہود : ٦٤ ] ” یہ اللہ کی اونٹنی ہے، تمہارے لیے عظیم نشانی، پس اسے چھوڑ دو کہ اللہ کی زمین میں کھاتی پھرے اور اسے کوئی تکلیف نہ پہنچاؤ، ورنہ تمہیں ایک قریب عذاب پکڑ لے گا۔ “ اگرچہ اس روایت کی سند صحیح ہے مگر یہ صحابی کا قول ہے۔- ابن کثیر (رض) لکھتے ہیں : ” قوم کے بڑے بڑے سردار جمع ہوئے اور انھوں نے ایک چٹان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے صالح (علیہ السلام) سے مطالبہ کیا کہ اس چٹان سے ہمارے دیکھتے دیکھتے ایک پوری جسامت کی اونٹنی نکالو، جس کی یہ یہ صفات ہوں۔ صالح (علیہ السلام) نے ان سے پختہ عہد لیا کہ اگر ان کی فرمائش پوری کردی جائے تو وہ ایمان لا کر ان کی پیروی اختیار کریں گے۔ جب انھوں نے قول دے دیا تو صالح (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کے لیے کھڑے ہوئے کہ ان کی فرمائش پوری کردی جائے، چناچہ وہ چٹان جس کی طرف انھوں نے اشارہ کیا تھا، یکایک پھٹی اور اس میں سے ان کی مطلوبہ صفات کی اونٹنی ظاہر ہوئی، اسے دیکھ کر کچھ لوگ ایمان لے آئے، لیکن اکثر اپنے کفر پر جمے رہے، اس پر صالح (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا : (قَالَ هٰذِهٖ نَاقَةٌ لَّهَا شِرْبٌ وَّلَكُمْ شِرْبُ يَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ ) [ ھود : ٦٤ ] ” یہ اللہ کی اونٹنی ہے، تمہارے لیے عظیم نشانی، پس اسے چھوڑ دو کہ اللہ کی زمین میں کھاتی پھرے اور اسے کوئی تکلیف نہ پہنچاؤ، ورنہ تمہیں ایک قریب عذاب پکڑ لے گا۔ “ مفسر مراغی لکھتے ہیں : ” اس قسم کی روایات کو سچا ماننا ہم پر اسی وقت لازم ہے جب وہ صحیح خبروں سے ثابت ہوں۔ “ مطلب یہ ہے کہ یہ روایات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت نہیں ہیں، تاہم اس میں شک نہیں کہ وہ عام اونٹنی نہ تھی بلکہ معجزانہ شان رکھنے والی اونٹنی تھی۔ اس اونٹنی کے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ایک صحیح حدیث مسند احمد کے حوالے سے سورة اعراف (٧٣) میں گزر چکی ہے۔ - لَّهَا شِرْبٌ وَّلَكُمْ شِرْبُ يَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ : قرآن کی دوسری آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم کو صرف اتنا حکم نہ تھا کہ ہر دوسرے روز یہ اونٹنی تمہارے سارے علاقے کا پانی پیے گی، بلکہ یہ حکم بھی تھا کہ یہ تمہارے کھیتوں اور باغوں میں جہاں چاہے گی جائے گی اور جو چاہے گی کھائے گی، اسے کوئی نقصان نہ پہنچانا۔ دیکھیے سورة اعراف (٧٣) اور ہود (٦٤) ۔
قَالَ ہٰذِہٖ نَاقَۃٌ لَّہَا شِرْبٌ وَّلَكُمْ شِرْبُ يَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ ١٥٥ۚ- شرب - الشُّرْبُ : تناول کلّ مائع، ماء کان أو غيره . قال تعالیٰ في صفة أهل الجنّة : وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً [ الإنسان 21] ، وقال في صفة أهل النّار : لَهُمْ شَرابٌ مِنْ حَمِيمٍ [يونس 4] ، وجمع الشَّرَابُ أَشْرِبَةٌ ، يقال : شَرِبْتُهُ شَرْباً وشُرْباً. قال عزّ وجلّ : فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي - إلى قوله۔ فَشَرِبُوا مِنْهُ«4» ، وقال : فَشارِبُونَ شُرْبَ الْهِيمِ [ الواقعة 55] ، والشِّرْبُ : النّصيب منه «5» قال تعالی: هذِهِ ناقَةٌ لَها شِرْبٌ وَلَكُمْ شِرْبُ يَوْمٍ مَعْلُومٍ [ الشعراء 155] ، وقال : كُلُّ شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ [ القمر 28] . والْمَشْرَبُ المصدر، واسم زمان الشّرب، ومکانه . قال تعالی: قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُناسٍ مَشْرَبَهُمْ [ البقرة 60] . والشَّرِيبُ : الْمُشَارِبُ والشَّرَابُ ، وسمّي الشّعر الذي علی الشّفة العلیا، والعرق الذي في باطن الحلق شاربا، وجمعه : شَوَارِبُ ، لتصوّرهما بصورة الشّاربین، قال الهذليّ في صفة عير :- صخب الشّوارب لا يزال كأنه«1» وقوله تعالی: وَأُشْرِبُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْعِجْلَ- [ البقرة 93] ، قيل : هو من قولهم : أَشْرَبْتُ البعیر أي : شددت حبلا في عنقه، قال الشاعر : فأشربتها الأقران حتی وقصتها ... بقرح وقد ألقین کلّ جنین - «2» فكأنّما شدّ في قلوبهم العجل لشغفهم، وقال بعضهم «3» : معناه : أُشْرِبَ في قلوبهم حبّ العجل، وذلک أنّ من عادتهم إذا أرادوا العبارة عن مخامرة حبّ ، أو بغض، استعاروا له اسم الشّراب، إذ هو أبلغ إنجاع في البدن «4» ، ولذلک قال الشاعر :- تغلغل حيث لم يبلغ شَرَابٌ ... ولا حزن ولم يبلغ سرور - «5» ولو قيل : حبّ العجل لم يكن له المبالغة، [ فإنّ في ذکر العجل تنبيها أنّ لفرط شغفهم به صارت صورة العجل في قلوبهم لا تنمحي ] «6» وفي مثل : أَشْرَبْتَنِي ما لم أشرب «7»- ، أي : ادّعيت عليّ ما لم أفعل .- ( ش ر ب ) الشراب - کے معنی پانی یا کسی اور مائع چیز کو نوش کرنے کے ہیں ۔ قرآن نے ہی جنت کے متعلق فرمایا : ۔ وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً [ الإنسان 21] اور ان کا پروردگار انہیں نہایت پاکیزہ شراب پلائیگا ۔ اور اہل دوزخ کے متعلق فرمایا : ۔ لَهُمْ شَرابٌ مِنْ حَمِيمٍ [يونس 4] ان کے لئے پینے کو کھولتا ہوا پانی ۔ شراب کی جمع اشربۃ ہے اور شربتہ شربا وشربا کے معنی پینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي۔ إلى قوله۔ فَشَرِبُوا مِنْهُ«4» جو شخص اس میں سے پانی پے لے گا وہ مجھ سے نہیں ہے ۔ چناچہ انہوں نے اس سے پی لیا ۔ نیز فرمایا : ۔ فَشارِبُونَ شُرْبَ الْهِيمِ [ الواقعة 55] اور پیو گے بھی تو ایسے جیسے پیاسے اونٹ پیتے ہیں ۔ الشراب پانی کا حصہ پینے کی باری ۔ قرآن میں ہے هذِهِ ناقَةٌ لَها شِرْبٌ وَلَكُمْ شِرْبُ يَوْمٍ مَعْلُومٍ [ الشعراء 155] یہ اونٹنی ہے ( ایک دن ) اس کی پانی پینے کی باری ہے اور ایک معین تمہاری باری كُلُّ شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ [ القمر 28] ہر باری والے کو اپنی باری پر آنا چاہیئے ۔ المشرب مصدر ) پانی پینا ( ظرف زمان یا مکان ) پانی پینے کی جگہ یا زمانہ قرآن میں ہے : ۔ قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُناسٍ مَشْرَبَهُمْ [ البقرة 60] . تمام لوگوں نے اپنا اپنا گھاٹ معلوم کرکے پانی پی لیا ۔ الشراب تم پیالہ یا شراب کو کہتے ہیں اور مونچھ کے بالوں اور حلق کی اندرونی رگ کو شارب کہا جاتا ہے گویا ان کو پینے والا تصور کیا گیا ہے اس کی جمع شوارب آتی ہے ۔ ھزلی نے گورخر کے متعلق کہا ہے ( الکامل ) ( 257 ) صخب الشوارب لا یزال کانہ اس کی مونچھیں سخت گویا وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأُشْرِبُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْعِجْلَ [ البقرة 93] اور ان ( کے کفر کے سبب ) بچھڑا ( گویا ) ان کے دلوں میں رچ گیا تھا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ اشربت البعیر کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی اونٹ کے گلے میں رسی باندھنے کے ہیں شاعر نے کہا ہے ( 258 ) واشرب تھا الاقران حتیٰ وقص تھا بقرح وقد القین کل جنین میں نے انہیں باہم باندھ لیا حتیٰ کہ قرح ( منڈی ) میں لا ڈالا اس حال میں کہ انہوں نے حمل گرا دیئے تھے ۔ تو آیت کے معنی یہ ہیں کہ گویا بچھڑا ان کے دلوں پر باندھ دیا گیا ہے ۔ اور بعض نے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ بچھڑے کی محبت ان کے دلوں میں پلادی گئی ہے کیونکہ عربی محاورہ میں جب کسی کی محبت یا بغض دل کے اندر سرایت کر جائے تو اس کے لئے لفظ شراب کو بطور استعارہ بیان کرتے ہیں کیونکہ یہ بدن میں نہایت تیزی سے سرایت کرتی ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( الوافر ) ( 259 ) تغلغل حیث لم یبلغ شرابہ ولا حزن ولم یبلغ سرور اس کی محبت وہاں تک پہنچ گئی جہاں کہ نہ شراب اور نہ ہی حزن و سرور پہنچ سکتا ہے ۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ بچھڑے کی محبت ان کے دلوں میں اس قدر زیادہ نہیں تھی تو ہم کہیں گے کیوں نہیں ؟ عجل کا لفظ بول کر ان کی فرط محبت پر تنبیہ کی ہے کہ بچھڑے کی صورت ان کے دلوں میں اس طرح نقش ہوگئی تھی کہ محو نہیں ہوسکتی تھی مثل مشہور ہے ۔ اشربتنی ما لم اشرب یعنی تونے مجھ پر جھوٹا الزام لگایا ۔- يوم - اليَوْمُ يعبّر به عن وقت طلوع الشمس إلى غروبها . وقد يعبّر به عن مدّة من الزمان أيّ مدّة کانت، قال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 155] ، - ( ی و م ) الیوم - ( ن ) ی طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک کی مدت اور وقت پر بولا جاتا ہے اور عربی زبان میں مطلقا وقت اور زمانہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ خواہ وہ زمانہ ( ایک دن کا ہو یا ایک سال اور صدی کا یا ہزار سال کا ہو ) کتنا ہی دراز کیوں نہ ہو ۔ قرآن میں ہے :إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 155] جو لوگ تم سے ( احد کے دن ) جب کہہ دوجماعتیں ایک دوسرے سے گتھ ہوگئیں ( جنگ سے بھاگ گئے ۔
(١٥٥) حضرت صالح (علیہ السلام) نے فرمایا یہ ایک اونٹنی ہے جو میری نبوت کے لیے دلیل ومعجزہ ہے پانی پینے کے لیے مقررہ دن میں ایک دن اس کے پینے کی باری ہے اور ایک دن تمہارے مویشی کی باری کا دن ہے۔
آیت ١٥٥ (قَالَ ہٰذِہٖ نَاقَۃٌ لَّہَا شِرْبٌ وَّلَکُمْ شِرْبُ یَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ ) ” - حضرت صالح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ تمہارے معجزے کے مطالبے کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے یہ اونٹنی بھیجی ہے ‘ لیکن اب تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ایک دن یہ اکیلی پانی پئے گی اور ایک دن تمہارے تمام جانور پئیں گے۔ اس اونٹنی کے بارے میں روایت ہے کہ وہ اپنی باری کے دن چشمے کا پورا پانی پی جاتی تھی اور اس دن ان کے جانوروں کو پانی نہیں ملتا تھا۔ اگلے دن اونٹنی ناغہ کرتی تھی اور باقی سب جانور پانی پیتے تھے۔ مجھے ” مدائنِ صالح “ میں وہ چشمہ دیکھنے کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :103 معجزے کے مطالبے پر اونٹنی پیش کرنے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ محض ایک عام اونٹنی نہ تھی جیسی ہر عرب کے پاس وہاں پائی جاتی تھی ، بلکہ ضرور اس کی پیدائش اور اس کے ظہور میں یا اس کی خلقت میں کوئی ایسی چیز تھی جسے معجزے کی طلب پر پیش کرنا معقول ہوتا ۔ اگر حضرت صالح اس مطالبے کے جواب میں یوں ہی کسی اونٹنی کو پکڑ کے کھڑا کر دیتے تو ظاہر ہے کہ یہ ایک نہایت فضول حرکت ہوتی جس کی کسی پیغمبر تو در کنار ، ایک عام معقول آدمی سے بھی توقع نہیں کی جا سکتی ۔ یہ بات یہاں تو صرف سیاق کلام ہی کے اقتضاء سے سمجھ میں آتی ہے ، لیکن دوسرے مقامات پر قرآن میں صراحت کے ساتھ اس اونٹنی کے وجود کو معجزہ کہا گیا ہے ۔ سورہ اعراف اور سورہ ہود میں فرمایا گیا ھٰذِہ نَاقَۃُ اللہِ لَکُمْ ایٰۃً ، یہ اللہ کی اونٹنی تمہارے لیے نشانی کے طور پر ہے ۔ اور سورہ بنی اسرائیل میں اس سے بھی زیادہ پر زور الفاظ میں ارشاد ہوا ہے : وَمَا مَنَعَنآ اَنْ نُّرْسِلَ بِا لْایٰتِ اِلَّا اَنْ کَذَّبَ بِھَا الْاَوَّلُوْنَ ، وَ اٰتَیْنَا ثَمُوْدَ النَّاقَۃَ مُبْصِرَۃً فَظَلَمُوْا بِھَا وَمَا نُرْسِلُ بِالْایٰتِ اِلَّا تَخْوِیْفاً ہ ( آیت 59 ) ہم کو نشانیاں بھیجنے سے کسی چیز نے نہیں روکا مگر اس بات نے کہ پہلے لوگ ان کو جھٹلا چکے ہیں اور ہم ثمود کے سامنے آنکھوں دیکھتے اونٹنی لے آئے پھر بھی انہوں نے اس کے ساتھ ظلم کیا ۔ نشانیاں تو ہم خوف دلانے ہی کے لیے بھیجتے ہیں ( تماشا دکھانے کے لیے تو نہیں بھیجتے ) ۔ اس پر مزید وہ چیلنج ہے جو اونٹنی کو میدان میں لے آنے کے بعد اس کافر قوم کو دیا گیا ۔ اس کی نوعیت ہی ایسی تھی کہ صرف ایک معجزہ ہی پیش کر کے ایسا چیلنج دیا جا سکتا تھا ۔ سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :104 یعنی ایک دن تنہا یہ اونٹنی تمہارے کنوؤں اور چشموں سے پانی پیے گے اور ایک دن ساری قوم کے آدمی اور جانور پیئیں گے ۔ خبردار ، اس کی باری کے دن کوئی شخص پانی لینے کی جگہ پھٹکنے نہ پائے ۔ یہ چیلنج بجائے خود نہایت سخت تھا ۔ لیکن عرب کے مخصوص حالات میں تو کسی قوم کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی دوسرا چیلنج ہو نہیں سکتا تھا ۔ وہاں تو پانی ہی کے مسئلے پر خون خرابے ہو جاتے تھے ، قبیلہ قبیلے سے لڑ جاتا تھا اور جان جوکھوں کی بازی لگا کر کسی کنوئیں یا چشمے سے پانی لینے کا حق حاصل کیا جاتا تھا ۔ اس سر زمین میں کسی شخص کا اٹھ کر یہ کہہ دینا کہ ایک دن میری اکیلی اونٹنی پانی پیے گی اور باقی ساری قوم کے آدمی اور جانور صرف دوسرے دن ہی پانی لے سکیں گے ، یہ معنی کہتا تھا کہ وہ دراصل پوری قوم کو لڑائی کا چیلنج دے رہا ہے ۔ ایک زبر دست لشکر کے بغیر کوئی آدمی عرب میں یہ بات زبان سے نہ نکال سکتا تھا اور کوئی قوم یہ بات اس وقت تک نہ سن سکتی تھی جب تک وہ اپنی آنکھوں سے یہ نہ دیکھ رہی ہو کہ چیلنج دینے والے کی پشت پر اتنے شمشیر زن اور تیر انداز موجود ہیں جو مقابلے پر اٹھنے والوں کو کچل کر رکھ دیں گے ۔ لیکن حضرت صالح نے بغیر کسی لاؤ لشکر کے تنہا اٹھ کر یہ چیلنج اپنی قوم کو دیا اور قوم نے نہ صرف یہ کہ اس کو کان لٹکا کر سنا بلکہ بہت دنوں تک ڈر کے مارے وہ اس کی تعمیل بھی کرتی رہی ۔ سورہ اعراف اور سورہ ہود میں اس پر اتنا اضافہ اور ہے کہ : ھٰذِہ نَاقَۃُ اللہِ لَکُمْ ایٰۃً فَذَرُوْھَا تَاْکُلُ فِیْ اَرْضِ اللہِ وَ لَا تَمَسُّوَھَا بِسُوْٓءٍ ، یہ اللہ کی اونٹنی تمہارے لیے نشانی کے طور پر ہے ، چھوڑ دو اسے کہ خدا کی زمین میں چرتی پھرے ، ہرگز اسے برے ارادے سے نہ چھونا ۔ یعنی چیلنج صرف اتنا ہی نہ تھا کہ ہر دوسرے روز اکیلی یہ اونٹنی دن بھر سارے علاقے کے پانی کی اجارہ دار رہے گی ، بلکہ اس پر مزید یہ چیلنج بھی تھا کہ یہ تمہارے کھیتوں اور باغوں اور نخلستانوں اور چراگاہوں میں دندناتی پھرے گی ، جہاں چاہے گی جائے گی ، جو کچھ چاہے گی کھائے گی ، خبردار جو کسی نے اسے چھیڑا ۔
32: چونکہ اونٹنی کا معجزہ انہوں نے خود مانگا تھا، اس لیے ان سے کہا گیا کہ اس اونٹنی کے کچھ حقوق ہوں گے، اور ان میں سے ایک حق یہ ہے کہ ایک دن تمہارے کنویں سے صرف یہ اونٹنی پانی پیے گی، اور ایک دن تم کنویں سے جتنا پانی بھر سکو، بھر کر رکھ لو۔