ہم جنسی پرستی کاشکار لوط نبی علیہ السلام نے اپنی قوم کو انکی خاص بدکاری سے روکا کہ تم مردوں کے پاس شہوت سے نہ آؤ ۔ ہاں اپنی حلال بیویوں سے اپنی خواہش پوری کر جنہیں اللہ نے تمہارے لئے جوڑا بنادیا ہے ۔ رب کی مقرر حدوں کا ادب واحترام کرو ۔ اس کا جواب ان کے پاس یہی تھا کہ اے لوط علیہ السلام اگر تو باز نہ آیا تو ہم تجھے جلا وطن کردیں گے انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ ان پاکبازوں لوگوں کو تو الگ کردو ۔ یہ دیکھ کر آپ نے ان سے بیزاری اور دست برداری کا اعلان کردیا ۔ اور فرمایا کہ میں تمہارے اس برے کام سے ناراض ہوں میں اسے پسند نہیں کرتا میں اللہ کے سامنے اپنی برات کا اظہار کرتا ہوں ۔ پھر اللہ سے ان کی لئے بددعاکی اور اپنی اور اپنے گھرانے کی نجات طلب کی ۔ اللہ تعالیٰ نے سب کو نجات دی مگر آپ کی بیوی نے اپنی قوم کا ساتھ دیا اور انہی کے ساتھ تباہ ہوئی جیسے کہ سورۃ اعراف ، سورۃ ہود اور سورۃ حجر میں بالتفصیل بیان گزر چکا ہے ۔ آپ اپنے والوں کو لے کر اللہ کے فرمان کے مطابق اس بستی سے چل کھڑے ہوئے حکم تھا کہ آپ کے نکلتے ہی ان پر عذاب آئے گا اس وقت پلٹ کر ان کی طرف دیکھنا بھی نہیں ۔ پھر ان سب پر عذاب برسا اور سب برباد کردئیے گئے ۔ ان پر آسمان سے سنگ باری ہوئی ۔ اور انکا انجام بد ہوا ۔ یہ بھی عبرتناک واقعہ ہے ان میں سے بھی اکثر بے ایمان تھے ۔ رب کے غلبے میں اس کے رحم میں کوئی شک نہیں ۔
اَتَاْتُوْنَ الذُّكْرَانَ مِنَ الْعٰلَمِيْنَ : اس کے دو مطلب ہوسکتے ہیں، ایک یہ کہ سارے جہانوں میں سے تم نے مردوں کو اس کام کے لیے چن لیا ہے کہ ان سے خواہش نفس پوری کرو، حالانکہ دنیا میں عورتیں بہت ہیں۔ دوسرا یہ کہ دنیا بھر میں تم ہی ایسے لوگ ہو جو شہوت پوری کرنے کے لیے مردوں کے پاس جاتے ہو، تم سے پہلے کسی نے یہ خسیس حرکت نہیں کی۔ اس مفہوم کی صراحت سورة عنکبوت میں اس طرح آئی ہیں : ( اِنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ ۡ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِيْنَ ) [ العنکبوت : ٢٨ ] ” بیشک تم یقیناً اس بےحیائی کا ارتکاب کرتے ہو جو تم سے پہلے جہانوں میں سے کسی نے نہیں کی۔ “
اَتَاْتُوْنَ الذُّكْرَانَ مِنَ الْعٰلَمِيْنَ ١٦٥ۙ- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه - ( ا ت ی ) الاتیان - ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے - ذَّكَرُ ( مذکر)- والذَّكَرُ : ضدّ الأنثی، قال تعالی: وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنْثى [ آل عمران 36] ، وقال : آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام 144] ، وجمعه : ذُكُور وذُكْرَان، قال تعالی: ذُكْراناً وَإِناثاً [ الشوری 50] ، وجعل الذَّكَر كناية عن العضو المخصوص . والمُذْكِرُ : المرأة التي ولدت ذکرا، والمِذْكَار : التي عادتها أن تذكر، وناقة مُذَكَّرَة : تشبه الذّكر في عظم خلقها، وسیف ذو ذُكْرٍ ، ومُذَكَّر : صارم، تشبيها بالذّكر، وذُكُورُ البقل : ما غلظ منه - الذکر ۔ تو یہ انثی ( مادہ ) کی ضد ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنْثى [ آل عمران 36] اور ( نذر کے لئے ) لڑکا ( موزون تھا کہ وہ ) لڑکی کی طرح ( ناتواں ) نہیں ہوتا آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام 144] کہ ( خدا نے ) دونوں ( کے ) نروں کو حرام کیا ہے یا دونوں ( کی ) مادینوں کو ۔ ذکر کی جمع ذکور و ذکران آتی ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ ذُكْراناً وَإِناثاً [ الشوری 50] بیٹے اور بیٹیاں ۔ اور ذکر کا لفظ بطور کنایہ عضو تناسل پر بھی بولاجاتا ہے ۔ اور عورت نرینہ بچہ دے اسے مذکر کہاجاتا ہے مگر المذکار وہ ہے ۔ جس کی عادت نرینہ اولاد کی جنم دینا ہو ۔ ناقۃ مذکرۃ ۔ وہ اونٹنی جو عظمت جثہ میں اونٹ کے مشابہ ہو ۔ سیف ذوذکر ومذکر ۔ آبدار اور تیر تلوار ، صارم ذکور البقل ۔ وہ ترکاریاں جو لمبی اور سخت دلدار ہوں ۔
(١٦٥۔ ١٦٦) کیا تمام دنیا جہاں والوں میں تم یہ حرکت کرتے ہو کہ مردوں کے ساتھ بدفعلی کرتے ہو اور تمہارے لیے جو تمہارے پروردگار نے تمہاری بیویوں کی شرم گا ہیں حلال کر رکھی ہیں ان کو نظر انداز کیے رکھتے ہو بلکہ اصل بات یہ ہے کہ تم حلال کو چھوڑ کر حرام کاموں کی طرف بڑھنے والے لوگ ہو۔
آیت ١٦٥ (اَتَاْتُوْنَ الذُّکْرَانَ مِنَ الْعٰلَمِیْنَ ) ” - دنیا جہان میں ایک تم ہی ایسے لوگ ہو جو شہوت رانی کی غرض سے َ مردوں کے پاس جاتے ہو۔ ورنہ انسانوں میں کوئی دوسری قوم یہ حرکت نہیں کرتی ‘ بلکہ یہ کام تو جانور بھی نہیں کرتے۔
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :108 اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں : ایک یہ کہ ساری مخلوق میں سے صرف مردوں کو تم نے اس غرض کے لیے چھانٹ لیا ہے کہ ان سے خواہش نفس پوری کرو حالانکہ دنیا میں بکثرت عورتیں موجود ہیں ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ دنیا بھر میں ایک تم ہی ایسے لوگ ہو جو شہوت رانی کے لیے مردوں کے پاس جاتے ہو ، ورنہ انسانوں میں کوئی دوسری قوم ایسی نہیں ہے ، بلکہ حیوانات میں سے بھی کوئی جانور یہ کام نہیں کرتا ۔ اس دوسرے مفہوم کی صراحت سورہ اعراف اور سورہ عنکبوت میں یوں کی گئی ہے : اَتَاْتَوْنَ الْفَاحِشَۃَ مَا سَبَقَکُمْ بِھَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ کیا تم وہ بے حیائی کا کام کرتے ہو جو دنیا کی مخلوق میں سے کسی نے تم سے پہلے نہیں کیا ؟