16 6 1یہ قوم لوط کی سب سے بری عادت تھی، جس کی ابتداء اسی قوم سے ہوئی تھی، اسی لئے اس فعل بد کو لواطت سے تعبیر کیا جاتا ہے یعنی بدفعلی جس کا آغاز قوم لوط سے ہوا لیکن اب یہ بدفعلی پوری دنیا میں عام ہے بلکہ یورپ میں تو اسے قانوناً جائز تسلیم کرلیا گیا ہے یعنی ان کے ہاں اب سرے سے گناہ ہی نہیں ہے۔ جس قوم کا مذاج اتنا بگڑ گیا ہو کہ مرد عورت کا ناجائز جنسی ملاپ (بشرطیکہ باہمی رضامندی سے ہو) ان کے نزدیک جرم نہ ہو، تو وہاں دو مردوں کا آپس میں بدفعلی کرنا کیونکر گناہ اور ناجائز ہوسکتا ہے۔ ؟ اعاذنا اللہ منہ 1 6 6۔ 2عادون۔ عاد کی جمع ہے عربی میں عاد کے معنی ہیں حد سے تجاوز کرنے والا یعنی حق کو چھوڑ کر باطل کو اور حلال کو چھوڑ کر حرام کو اختیار کرنے والا اللہ تعالیٰ نے نکاح شرعی کے ذریعے سے عورت کو فرج سے اپنی جنسی خواہش کی تسکین کو حلال قرار دیا ہے اور اس کام کے لیے مرد کی دبر کو حرام قوم لوط نے عورتوں کی شرم گاہوں کو چھوڑ کر مردوں کی دبر اس کام کے لیے استعمال کی اور یوں اس نے حد سے تجاوز کیا۔
وَتَذَرُوْنَ مَا خَلَقَ لَكُمْ رَبُّكُمْ ۔۔ : اس آیت کے بھی دو مطلب ہوسکتے ہیں، ایک یہ کہ اس خواہش کو پورا کرنے کے لیے جو بیویاں اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے پیدا کی ہیں انھیں چھوڑ کر مردوں کے پاس جاتے ہو۔ اس صورت میں ” مَا “ بیانیہ ہے، ترجمہ اسی کے مطابق کیا گیا ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ تمہاری بیویوں میں سے جو کچھ تمہارے رب نے تمہارے لیے پیدا کیا ہے اسے چھوڑ دیتے ہو ؟ یعنی قبل کے بجائے غیر فطری وضع سے شہوت پوری کرتے ہو۔ اس صورت میں ” مَا “ تبعیض کے لیے ہے۔ بعید نہیں کہ وہ لوگ یہ حرکت اولاد سے بچنے کے لیے کرتے ہوں۔ - بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ عٰدُوْنَ : یعنی صرف اسی کام میں نہیں بلکہ ہر کام میں حد سے گزرنا تمہاری عادت بن چکی ہے، جیسا کہ فرمایا : (اَىِٕنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ وَتَقْطَعُوْنَ السَّبِيْلَ ڏوَتَاْتُوْنَ فِيْ نَادِيْكُمُ الْمُنْكَرَ ) [ العنکبوت : ٢٩ ] ” کیا بیشک تم واقعی مردوں کے پاس آتے ہو اور راستہ کاٹتے ہو اور اپنی مجلس میں برا کام کرتے ہو ؟ “ ہمارے عہد میں یورپی لوگ فطرت کی مخالفت میں اس قدر حد سے گزر گئے ہیں کہ انھوں نے قانوناً قوم لوط کے عمل کو جائز قرار دے دیا ہے اور مردوں کا مردوں کے ساتھ نکاح کرنے لگے ہیں۔ اگرچہ نئی سے نئی بیماریوں کی صورت میں اللہ کے عذاب کا کوڑا ان پر برس رہا ہے، تاہم بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان پر ایسا عذاب بھیجے جو دنیا کے لیے باعث عبرت ہو۔
معارف و مسائل - غیر فطری فعل اپنی بیوی سے بھی حرام ہے :- وَتَذَرُوْنَ مَا خَلَقَ لَكُمْ رَبُّكُمْ مِّنْ اَزْوَاجِكُمْ ، لفظ مِّنْ اَزْوَاجِكُمْ میں صرف من اصطلاحی الفاظ میں بیانیہ بھی ہوسکتا ہے جس کا حاصل یہ ہوگا کہ تمہاری خواہش نفسانی کے لئے جو اللہ نے بیویاں پیدا فرمائی ہیں تم ان کو چھوڑ کر اپنے ہم جنس مردوں کو اپنی شہوت نفس کا نشانہ بناتے ہو جو خباثت نفس کی دلیل ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حرف من کو تبعیض کے لئے قرار دیں تو اشارہ اس طرف ہوگا کہ تمہاری بیبیوں کا جو مقام تمہارے لئے بنایا گیا اور جو امر فطری ہے اس کو چھوڑ کر بیویوں سے خلاف فطرت عمل کرتے ہو جو کہ قطعاً حرام ہے۔ غرض اس دوسرے معنے کے لحاظ سے یہ مسئلہ بھی ثابت ہوگیا کہ اپنی زوجہ سے خلاف فطرت عمل حرام ہے۔ حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسے شخص پر لعنت فرمائی ہے۔ نعوذ اللہ منہ (کذا فی الروح)
وَتَذَرُوْنَ مَا خَلَقَ لَكُمْ رَبُّكُمْ مِّنْ اَزْوَاجِكُمْ ٠ۭ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ عٰدُوْنَ ١٦٦- وذر - [يقال : فلان يَذَرُ الشیءَ. أي : يقذفه لقلّة اعتداده به ] ، ولم يستعمل ماضيه . قال تعالی:- قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف 70] ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] ، فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام 112] ، وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا - [ البقرة 278] إلى أمثاله وتخصیصه في قوله : وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة 234] ، ولم يقل :- يترکون ويخلّفون، فإنه يذكر فيما بعد هذا الکتاب إن شاء اللہ . [ والوَذَرَةُ : قطعة من اللّحم، وتسمیتها بذلک لقلة الاعتداد بها نحو قولهم فيما لا يعتدّ به : هو لحم علی وضم ] «1» .- ( و ذ ر )- یذر الشئی کے معنی کسی چیز کو قلت اعتداد کی وجہ سے پھینک دینے کے ہیں ( پھر صرف چھوڑ دینا کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ اس کا فعل ماضی استعمال نہیں ہوتا چناچہ فرمایا : ۔ قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف 70] وہ کہنے لگے کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم اکیلے خدا ہی کی عبادت کریں اور جن اور جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے چلے آئے ہیں ان کو چھوڑ دیں ۔ ؟ ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام 112] تو ان کو چھوڑ دو کہ وہ جانیں اور انکا جھوٹ ۔ وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة 278] تو جتنا سو د باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو ۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات ہیں جن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور آیت : ۔ وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة 234] اور عورتیں چھوڑ جائیں ۔ میں یترکون یا یخلفون کی بجائے یذرون کا صیغہ اختیار میں جو خوبی ہے وہ اس کے بعد دوسری کتاب میں بیان کریں گے ۔ الو ذرۃ : گوشت کی چھوٹی سی بوٹی کو کہتے ہیں اور قلت اعتناء کے سبب اسے اس نام سے پکارتے ہیں جیسا کہ حقیر شخص کے متعلق ھو لحم علیٰ وضمی ( یعنی وہ ذلیل ہے ) کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - زوج - يقال لكلّ واحد من القرینین من الذّكر والأنثی في الحیوانات الْمُتَزَاوِجَةُ زَوْجٌ ، ولكلّ قرینین فيها وفي غيرها زوج، کالخفّ والنّعل، ولكلّ ما يقترن بآخر مماثلا له أو مضادّ زوج . قال تعالی:- فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة 39] - ( ز و ج ) الزوج - جن حیوانات میں نرا اور پایا جاتا ہے ان میں سے ہر ایک دوسرے کا زوج کہلاتا ہے یعنی نرا اور مادہ دونوں میں سے ہر ایک پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ حیوانات کے علا وہ دوسری اشیائیں سے جفت کو زوج کہا جاتا ہے جیسے موزے اور جوتے وغیرہ پھر اس چیز کو جو دوسری کی مما ثل یا مقابل ہونے کی حثیت سے اس سے مقترن ہو وہ اس کا زوج کہلاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة 39] اور خر کار اس کی دو قسمیں کیں یعنی مرد اور عورت ۔- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - عدا - والاعْتِدَاءُ :- مجاوزة الحقّ. قال تعالی: وَلا تُمْسِكُوهُنَّ ضِراراً لِتَعْتَدُوا[ البقرة 231] ، وقال : وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ [ النساء 14] ،- ( ع د و ) العدو - الاعتداء کے معنی حق سے تجاوز کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَلا تُمْسِكُوهُنَّ ضِراراً لِتَعْتَدُوا[ البقرة 231] اور اس نیت سے ان کو نکاح میں نہ رہنے دینا چاہیئے کہ انہیں تکلیف دو اور ان پر زیادتی کرو ۔
آیت ١٦٦ (وَتَذَرُوْنَ مَا خَلَقَ لَکُمْ رَبُّکُمْ مِّنْ اَزْوَاجِکُمْ ط) ” - اللہ تعالیٰ نے تمہارے جوڑوں کے لیے عورتیں پیدا کی ہیں۔ انہیں چھوڑ کر تم اپنی شہوت کا تقاضا مردوں سے پورا کرتے ہو۔
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :109 اس کے بھی دو مطلب ہو سکتے ہیں : ایک یہ کہ اس خواہش کو پورا کرنے کے لیے جو بیویاں خدا نے پیدا کی تھیں انہیں چھوڑ کر تم غیر فطری ذریعے یعنی مردوں کا اس غرض کے لیے استعمال کرتے ہو ۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ خود ان بیویوں کے اندر خدا نے اس خواہش کی تکمیل کا جو فطری راستہ رکھا تھا اسے چھوڑ کر تم غیر فطری راستہ اختیار کرتے ہو ۔ اس دوسرے مطلب میں یہ اشارہ نکلتا ہے کہ وہ ظالم لوگ اپنی عورتوں سے بھی خلاف وضع فطری فعل کا ارتکاب کرتے تھے ۔ بعید نہیں کہ وہ یہ حرکت خاندانی منصوبہ بندی کی خاطر کرتے ہوں ۔ سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :110 یعنی تمہارا صرف یہی ایک جرم نہیں ہے ۔ تمہاری زندگی کا تو سارا ہنجار ہی حد سے زیادہ بگڑ چکا ہے ۔ قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر ان کے اس عام بگاڑ کی کیفیت اس طرح بیان کی گئی ہے : اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَۃَ وَاَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ ( النمل آیت 54 ) ۔ کیا تمہارا یہ حال ہو گیا ہے کہ کھلم کھلا دیکھنے والوں کی نگاہوں کے سامنے فحش کام کرتے ہو؟ اَئِنَّکُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ وَتَقْطَعُوْنَ السَّبِیْلَ وَتَاْتُوْنَ فِیْ نَادِیْکُمُ الْمُنْکَرَ ( العنکبوت آیت 29 ) کیا تم ایسے بگڑے گئے ہو کہ مردوں سے مباشرت کرتے ہو ، راستوں پر ڈاکے مارتے ہو ، اور اپنی مجلسوں میں علانیہ برے کام کرتے ہو؟ ( مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، الحجر ، حاشیہ 39 ) ۔
34: حضرت لوط (علیہ السلام) جس قوم کی طرف بھیجے گئے تھے، ان کے مرد فطرت کے خلاف مردوں ہی سے اپنی جنسی ہوس پوری کرتے تھے۔ ان کا واقعہ تفصیل کے ساتھ سورۃ ہود : 77 تا 83 اور سورۃ حجر : 58 تا 76 میں گذر چکا ہے، اور ہم نے ان کا مختصر تعارف سورۃ اعراف : 80 میں کرایا ہے۔