16 7 1یعنی حضرت لوط (علیہ السلام) کے وعظ نصیحت کے جواب میں انہوں نے کہا تو بڑا پاک باز بنا پھرتا ہے۔ یاد رکھنا اگر تو باز نہ آیا تو ہم اپنی بستی میں تجھے رہنے ہی نہیں دیں گے۔
[١٠٠] لوط (علیہ السلام) نے انھیں اللہ تعالیٰ کا پیغام سنایا اور ان کی بدفعلیوں کے برے انجام سے ڈرایا تو انہوں نے حضرت لوط کی بات ماننے کے بجائے الٹا ان پر کئی طرح کی پابندیاں لگا دیں۔ مثلاً اگر تم اس بستی میں رہنا چاہتے ہو تو ہمارے معاملات میں دخل دینا چھوڑ دو ۔ دوسرے یہ کہ اپنے ہاں مہمانوں کو یا مسافروں کو پناہ نہ دیا کرو۔ ورنہ ہم تمہارا کچھ لحاظ نہیں کریں گے اور تمہارے مہمانوں یا مسافروں سے وہی سلوک کریں گے جو ہم کرنا چاہتے ہیں) یہ بدبخت قوم مسافروں یا مہمانوں تک کو بھی نہیں چھوڑتی تھی، پہلے ان سے لواطت کرتی۔ پھر ان سے مال اسباب اور نقدی وغیرہ چھین کر انھیں دھکے دے کر اپنی بستی سے باہر نکال دیتی تھی ( اور اگر تمہیں ہماری یہ شرائط منظور نہ ہوں تو ہم تمہیں اپنے علاقہ سے نکال دیں گے۔ تمہارے جیسے پاکبازوں کی ہماری بستی میں رہنے کی کوئی گنجائش نہیں۔
قَالُوْا لَىِٕنْ لَّمْ تَنْتَهِ يٰلُوْطُ ۔۔ : اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کا شیوہ تھا کہ جو ان کی مرضی کے خلاف بات کرے اسے عبرت ناک طریقے سے ذلیل و خوار کرکے نکال دیتے تھے۔ اس لیے انھوں نے پہلے نکالے جانے والوں کے انجام کا حوالہ دے کر کہا کہ ہم تمہیں بھی ان میں شامل کردیں گے۔ - 3 بقاعی نے فرمایا، وہ لوگ لوط (علیہ السلام) کو اپنی بستی سے ذلیل کر کے نکالنا چاہتے تھے، جبکہ اللہ تعالیٰ انھیں اس بستی سے باعزت طریقے سے نکالنے والا تھا، پھر وہی ہوا جو اللہ چاہتا تھا کیونکہ : (وَاللّٰهُ غَالِبٌ عَلٰٓي اَمْرِهٖ ) [ یوسف : ٢١ ]” اور اللہ اپنے کام پر غالب ہے۔ “
قَالُوْا لَىِٕنْ لَّمْ تَنْتَہِ يٰلُوْطُ لَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُخْرَجِيْنَ ١٦٧- نهى- النهي : الزّجر عن الشیء . قال تعالی: أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق 9- 10]- ( ن ھ ی ) النهي - کسی چیز سے منع کردینا ۔ قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق 9- 10] بھلاتم نے اس شخص کو دیکھا جو منع کرتا ہے ( یعنی ) ایک بندے کو جب وہ نماز پڑھنے لگتا ہے ۔- خرج - خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] ،- ( خ رج ) خرج ۔ ( ن)- خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔
(١٦٧) وہ کہنے لگے اے لوط (علیہ السلام) اگر تم ہمارے کہنے سننے سے باز نہیں آؤ گے تو ضرور اس سدوم سے نکال دیے جاؤ گے۔
آیت ١٦٧ (قَالُوْا لَءِنْ لَّمْ تَنْتَہِ یٰلُوْطُ لَتَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُخْرَجِیْنَ ) ” - اگر آپ ( علیہ السلام) اپنی اس وعظ و نصیحت سے اور ہم پر تنقید کرنے سے باز نہ آئے تو ہم آپ ( علیہ السلام) کو اپنی بستی سے نکال باہر کریں گے۔
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :111 یعنی تجھے معلوم ہے کہ اس سے پہلے جس نے بھی ہمارے خلاف زبان کھولی ہے یا ہماری حرکتوں پر احتجاج کیا ہے ، یا ہماری مرضی کے خلاف کام کیا ہے ، وہ ہماری بستیوں سے نکالا گیا ہے ۔ اب اگر تو یہ باتیں کرے گا تو تیرا حشر بھی ایسا ہی ہو گا ۔ سورہ اعراف اور سورہ نمل میں بیان ہوا ہے کہ حضرت لوط علیہ السلام کو یہ نوٹس دینے سے پہلے اس شریر قوم کے لوگ آپس میں یہ طے کر چکے تھے کہ اَخْرِجُوْٓا اٰلَ لُوْطٍ مِّنْ قَرْیَتِکُمْ اِنَّھُمْ اُنَاسٌ یَّتَطَھَّرُوْنَ لوط علیہ السلام اور اس کے خاندان والوں اور ساتھیوں کو اپنی بستی سے نکال باہر کرو ۔ یہ لوگ بڑے پاک باز بنتے ہیں ۔ ان صالحین کو باہر کا راستہ دکھاؤ ۔