Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

171یعنی ایک بات یہ کہو کہ ہم تیرے پاس اپنی مرضی سے نہیں آئے ہیں بلکہ رب العالمین کے نمائندے اور اس کے رسول کی حیثیت سے آئے ہیں اور دوسری بات یہ کہ تو نے (چار سو سال سے) بنی اسرائیل غلام بنا رکھا ہے، ان کو آزاد کر دے تاکہ میں انھیں شام کی سرزمین پر لے جاویں، جس کا اللہ نے وعدہ کیا ہوا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٢] اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کا مطالبہ منظور کرلینے کے بعد اور فرعون کی دست درازیوں سے حفاظت کی یقین دہانی کے بعد ان دونوں کو حکمدیا کہ فرعون کے پاس جائیں اور اسے بتلائیں کہ ہم رب العالمین کے رسول یا فرستادہ ہیں اگر وہ جھٹلائے تو پھر دو معجزات نشانی کے طور پر اسے دکھلائیں اور ساتھ ہی اس سے یہ مطالبہ کردیں کہ ہماری قوم بنی اسرائیل کو اپنی غلامی سے آزاد کرکے ہمارے ہمراہ روانہ کردے۔ چناچہ ان دونوں پیغمبروں نے اللہ کے اس حکم کے سامنے سرتسلیم خم کیا۔ فرعون کے دربار تک پہنچے اور اسے جون کا تون اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچا دیا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَنْ اَرْسِلْ مَعَنَا بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ : موسیٰ اور ہارون (علیہ السلام) کو فرعون کی طرف توحید و رسالت کے ساتھ یہ پیغام بھی دے کر بھیجا گیا کہ وہ بنی اسرائیل کو غلامی سے آزاد کر دے اور انھیں ان کے ساتھ ان کے آبا و اجداد کی سرزمین میں جانے دے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اَنْ اَرْسِلْ مَعَنَا بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ ، بنی اسرائیل ملک شام کے باشندے تھے، وہاں جانا چاہتے تو فرعون ان کو جانے نہ دیتا تھا اس طرح چار سو سال سے وہ اس کی قید میں غلامی کی زندگی بسر کر رہے تھے ان کی تعداد اس وقت چھ لاکھ تیس ہزار تھی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کو پیغام حق پہنچانے کے ساتھ ہی بنی اسرائیل پر جو ظلم اس نے کر رکھا تھا اس سے باز آنے اور ان کو آزاد چھوڑ دینے کی ہدایت فرمائی۔ (قرطبی)- پیغمبرانہ مناظرہ کا ایک نمونہ مناظرے کے موثر آداب :- دو مختلف الخیال شخصوں اور جماعتوں میں نظریاتی بحث و مباحثہ جس کو اصطلاح میں مناظرہ کہا جاتا ہے، زمانہ قدیم سے رائج ہے مگر عام طور پر مناظرہ ایک ہار جیت کا کھیل ہو کر رہ گیا ہے۔ لوگوں کی نظر میں مناظرہ کا حاصل اتنا ہی ہے کہ اپنی بات اونچی ہو، چاہے اس کی غلطی خود بھی معلوم ہوچکی ہو، اس کو صحیح اور قوی ثابت کرنے کے لئے دلائل اور ذہانت کا سارا زور خرچ کیا جائے۔ اسی طرح مخالف کی کوئی بات سچی اور صحیح بھی ہو تو بہرحال رد ہی کرنا اور اس کی تردید میں پوری توانائی صرف کرنا ہے۔ اسلام ہی نے اس کام میں خاص اعتدال پیدا کیا ہے اس کے اصول و قواعد اور حدود متعین کر کے اس کو ایک مفید و موثر آلہ تبلیغ و اصلاح بنایا ہے۔- آیات مذکورہ میں اس کا ایک مختصر سا نمونہ ملاحظہ فرمایئے۔ حضرت موسیٰ و ہارون (علیہما السلام) نے جب فرعون جیسے جبار خدائی کے مدعی کو اس کے دربار میں دعوت حق پہنچائی تو اس نے مخالفانہ بحث کا آغاز اول دو ایسی باتوں سے کیا جن کا تعلق حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ذات سے تھا۔ جیسا ہوشیار مخالف عموماً جب اصل بات کے جواب پر قادر نہیں ہوتا تو مخاطب کی ذاتی کمزوریاں ڈھونڈا اور بیان کیا کرتا ہے تاکہ وہ کچھ شرمندہ ہوجائے اور لوگوں میں اس کی ہوا اکھڑ جائے، یہاں بھی فرعون نے دو باتیں کہیں۔ اول تو یہ کہ تم ہمارے پروردہ ہمارے گھر میں پل کر جوان ہوئے ہو۔ ہم نے تم پر احسانات کئے ہیں۔ تمہاری کیا مجال ہے کہ ہمارے سامنے بولو۔ دوسری بات یہ ہے کہ تم نے ایک قبطی شخص کو بلا وجہ قتل کر ڈالا ہے جو علاوہ ظلم کے حق ناشناسی اور ناشکری بھی ہے کہ جس قوم میں پلے اور جوان ہوئے اسی کے آدمی کو مار ڈالا۔ اس کے بالمقابل حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا پیغمبرانہ جواب دیکھئے کہ اول تو جواب میں سوال کی ترتیب کو بدلا یعنی قبطی کے قتل کا قصہ جو فرعون نے بعد میں بیان کیا تھا اس کا جواب پہلے آیا اور خانہ پروردہ ہونے کے احسان کا ذکر جو پہلے کیا تھا اس کا جواب بعد میں۔ اس ترتیب بدلنے میں حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ واقعہ قبطی میں ایک اپنی کمزوری ضرور واقع ہوئی تھی آج کل کے مناظروں کے طرز پر تو ایسی چیز کے ذکر ہی کو رلا ملا دیا جاتا ہے اور دوسری باتوں کی طرف توجہ پھیرنے کی کوشش کی جاتی ہے مگر اللہ تعالیٰ کے رسول نے اسی کے جواب کو اولیت دی۔ اور جواب بھی فی الجملہ اعتراف کمزوری کے ساتھ دیا۔ اس کی قطعاً پروا نہ کی کہ مخالف لوگ کہیں گے کہ انہوں نے اپنی غلطی کا اعتراف کر کے ہار مان لی۔- حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کے جواب میں اس کا تو اعتراف کرلیا کہ اس قتل میں مجھ سے غلطی اور خطا ہوگئی مگر ساتھ ہی اس حقیقت کو بھی واضح کردیا کہ یہ غلطی قصداً نہیں تھی ایک صحیح اقدام تھا جو اتفاقاً غلط انجام پر پہنچ گیا کہ مقصد تو قبطی کو اسرائیلی شخص پر ظلم سے روکنا تھا اسی قصد سے اس کو ایک ضرب لگائی تھی اتفاقاً وہ اسی سے مرگیا اس لئے یہ فعل خطا ہونے کے باوجود ہمارے اصل معاملہ یعنی نبوت کے دعوے اور اس کی حقانیت پر کوئی اثر نہیں ڈالتا۔ مجھے اس غلطی پر تنبہ ہوا اور قانونی گرفت کے خوف سے شہر سے نکل گیا۔ اللہ تعالیٰ نے پھر کرم فرمایا اور نبوت و رسالت سے سرفراز فرما دیا۔- غور کیجئے کہ اس وقت دشمن کے مقابلہ میں موسیٰ (علیہ السلام) کا سیدھا صاف جواب یہ تھا کہ مقتول قبطی کو واجب القتل ثابت کرتے، اس پر ایسے الزامات لگاتے جس سے اس کا واجب القتل ہونا ثابت ہوتا۔ کوئی دوسرا آدمی تکذیب کرنے والا بھی وہاں موجود نہ تھا جس سے تردید کا اندیشہ ہوتا اور اس جگہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے سوا کوئی دوسرا آدمی ہوتا تو اس کا جواب اس کے سوا کچھ نہ ہوتا مگر وہاں تو اللہ تعالیٰ کا ایک اولوالعزم رسول صدق مجسم تھا جو حق و صدق اور حقیت کے اظہار ہی کو اپنی فتح سمجھتا تھا۔ دشمن کے بھرے دربار میں اپنی خطا کا اعتراف بھی کرلیا اور اس سے جو نبوت و رسالت پر شبہ ہوسکتا تھا اس کا جواب بھی دیدیا۔ اس کے بعد پہلی بات یعنی خانہ پروردہ ہونے کے احسان جتلانے کے جواب کی طرف توجہ فرمائی تو اس کے اس ظاہری احسان کی اصل حقیقت کی طرف توجہ دلا دی کہ ذرا سوچو، میں کہاں اور دربار فرعون کہاں ؟ میری پرورش تمہارے گھر میں ہونے کے سبب پر غور کرو تو یہ حقیقت کھل جائے گی کہ تم جو پوری قوم بنی اسرائیل پر یہ خلاف انسانیت ظلم توڑ رہے تھے کہ ان کے بےگناہ معصوم لڑکوں کو قتل کردیتے تھے، بظاہر تو تمہارے اس ظلم و ستم سے بچنے کے لئے میری والدہ نے مجھے دریا میں ڈالا اور تم نے اتفاقی طور پر میرا تابوت دریا سے نکال کر گھر میں رکھ لیا اور حقیقۃً یہ اللہ تعالیٰ کا حکمیانہ انتظام اور تمہارے ظلم کی غیبی سزا تھی کہ جس بچے کے خطرہ سے بچنے کے لئے تم نے ہزاروں بچے قتل کر ڈالے تھے قدرت نے اس بچے کو تمہارے ہی ہاتھوں پلوایا۔ اب سوچو کہ یہ میری پرورش تمہارا کیا احسان تھا۔ اسی پیغمبرانہ طرز جواب کا یہ اثر تو طبعی اور عقلی طور پر حاضرین پر ہونا ہی تھا کہ یہ بزرگ کوئی بات بنانے والے نہیں، سچ کے سوا کچھ نہیں کہتے، اس کے بعد جب معجزات دیکھے تو اور زیادہ اس کی تصدیق ہوگئی اور گو اقرار نہیں کیا مگر مرعوب اتنا ہوگیا کہ یہ صرف دو آدمی جن کے آگے پیچھے کوئی تیسرا مددگار نہیں، دربار سارا اس کا، شہر اور ملک اس کا، مگر یہ خوف اس پر طاری ہے کہ یہ دو آدمی ہمیں اپنے اس ملک و مملکت سے نکال دیں گے۔- یہ ہوتا ہے خدا داد رعب اور صدق و حق اور سچائی کی ہیبت حضرات انبیاء (علیہم السلام) کے مجادلات و مناظرات بھی صدق و سچائی اور مخاطب کی دینی خیر خواہی کے جذبات سے پر ہوتے ہیں۔ وہی دلوں میں گھر کرتے ہیں اور بڑے بڑے سرکشوں کو رام کرلیتے ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَنْ اَرْسِلْ مَعَنَا بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ۝ ١٧ۭ- رسل ( ارسال)- والْإِرْسَالُ يقال في الإنسان، وفي الأشياء المحبوبة، والمکروهة، وقد يكون ذلک بالتّسخیر، كإرسال الریح، والمطر، نحو : وَأَرْسَلْنَا السَّماءَ عَلَيْهِمْ مِدْراراً [ الأنعام 6] ، وقد يكون ببعث من له اختیار، نحو إِرْسَالِ الرّسل، قال تعالی: وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً [ الأنعام 61] ، فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء 53] ، وقد يكون ذلک بالتّخلية، وترک المنع، نحو قوله : أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّياطِينَ عَلَى الْكافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا [ مریم 83] ، والْإِرْسَالُ يقابل الإمساک . قال تعالی: ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ [ فاطر 2] - ( ر س ل ) الرسل - الارسال ( افعال ) کے معنی بھیجنے کے ہیں اور اس کا اطلاق انسان پر بھی ہوتا ہے اور دوسری محبوب یا مکروہ چیزوں کے لئے بھی آتا ہے ۔ کبھی ( 1) یہ تسخیر کے طور پر استعمال ہوتا ہے جیسے ہوا بارش وغیرہ کا بھیجنا ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَرْسَلْنَا السَّماءَ عَلَيْهِمْ مِدْراراً [ الأنعام 6] اور ( اوپر سے ) ان پر موسلادھار مینہ برسایا ۔ اور کبھی ( 2) کسی بااختیار وار وہ شخص کے بھیجنے پر بولا جاتا ہے جیسے پیغمبر بھیجنا چناچہ قرآن میں ہے : وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً [ الأنعام 61] اور تم لوگوں پر نگہبان ( فرشتے ) تعنیات رکھتا ہے ۔ فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء 53] اس پر فرعون نے ( لوگوں کی بھیڑ ) جمع کرنے کے لئے شہروں میں ہر کارے دوڑائے ۔ اور کبھی ( 3) یہ لفظ کسی کو اس کی اپنی حالت پر چھوڑے دینے اور اس سے کسی قسم کا تعرض نہ کرنے پر بولاجاتا ہے ہے جیسے فرمایا : أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّياطِينَ عَلَى الْكافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا [ مریم 83]( اے پیغمبر ) کیا تم نے ( اس باٹ پر ) غور نہیں کیا کہ ہم نے شیطانوں کو کافروں پر چھوڑ رکھا ہے کہ وہ انہیں انگینت کر کے اکساتے رہتے ہیں ۔ اور کبھی ( 4) یہ لفظ امساک ( روکنا ) کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ [ فاطر 2] تو اللہ جو اپنی رحمت دے لنگر لوگوں کے لئے ) کھول دے تو کوئی اس کا بند کرنے والا نہیں اور بندے کرے تو اس کے ( بند کئے ) پیچھے کوئی اس کا جاری کرنے والا نہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٧ (اَنْ اَرْسِلْ مَعَنَا بَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ ) ” - کہ اب تم بنی اسرائیل کو مزید تنگ نہ کرو اور انہیں آزاد کر کے ہمارے ساتھ جانے کی اجازت دے دو ۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :13 حضرت موسیٰ و ہارون کی دعوت کے دو جز تھے : ایک ، فرعون کو اللہ کی بندگی کی طرف بلانا ، جو تمام انبیاء علیہم السلام کی دعوت کا اصل مقصود رہا ہے ۔ دوسرے ، بنی اسرائیل کو فرعون کے بند غلامی سے نکالنا ، جو مخصوص طور پر انہیں دونوں حضرات کا مشن تھا ۔ قرآن مجید میں کسی جگہ صرف پہلے جزء کا ذکر کیا گیا ہے ۔ ( مثلاً سورہ نازعات میں ) اور کسی جگہ صرف دوسرے جز کا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

4: بنو اسرائیل اصل میں حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد کا نام ہے۔ یہ فلسطین کے علاقے کنعان کے باشندے تھے، لیکن حضرت یوسف (علیہ السلام) جب مصر کے حکمران بنے تو انہوں نے اپنے سارے خاندان کو مصر بلا کر آباد کرلیا تھا، جس کا واقعہ سورۂ یوسف میں گذر چکا ہے۔ کچھ عرصے یہ لوگ وہاں اطمینان سے رہے، لیکن حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بعد مصر کے بادشاہوں نے جنہیں فرعون کہا جاتا تھا، ان کو غلام بنا کر ان پر طرح طرح کے ظلم ڈھانے شروع کردئیے۔