Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

181فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت اور مطالبے پر غور کرنے کی بجائے، ان کی جوابدہی کرنی شروع کردی اور کہا کہ کیا تو وہی نہیں ہے جو ہماری گود میں اور ہمارے گھر میں پلا، جب کہ ہم بنی اسرائیل کے بچوں کو قتل کر ڈالتے تھے ؟ 182بعض کہتے ہیں کہ18سال فرعون کے محل میں بسر کئے، بعض کے نزدیک30سال اور بعض کے نزدیک چالیس سال یعنی اتنی عمر ہمارے پاس گزرانے کے بعد، چند سال ادھر ادھر رہ کر اب تو نبوت کا دعویٰ کرنے لگا ؟

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قَالَ اَلَمْ نُرَبِّكَ فِيْنَا وَلِيْدًا۔۔ : یہاں لمبی بات سننے والے کی سمجھ پر چھوڑ کر حذف کردی گئی کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں ایسی ہیبت عطا فرمائی کہ وہ دونوں کسی فوج یا اسلحے کے بغیر فرعون کے دربار میں پہنچے، اس کی فوج اور پہرے داروں میں سے کسی کو انھیں روکنے کی جرأت نہ ہوسکی اور دربار میں پہنچ کر انھوں نے اس کے تمام سرداروں کی موجودگی میں اسے اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچایا۔ فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کی گفتگو سے اندازہ لگا لیا کہ اصل رسول وہی ہیں، ہارون صرف معاون ہیں، اس لیے اس نے موسیٰ (علیہ السلام) ہی کو مخاطب کیا، ہارون (علیہ السلام) سے بات نہیں کی۔ موسیٰ (علیہ السلام) سے بات کرتے ہوئے اس نے ان کی دعوت پر بات کرنے سے گریز کرتے ہوئے حکمرانوں کے عام ہتھکنڈے استعمال کیے، جن میں سے پہلا ہتھکنڈا ان کی پرورش کا احسان جتا کر شرمندہ کرنا تھا۔ چناچہ کہنے لگا کہ کیا ہم نے تجھے اپنے پاس رکھ کر تیری اس وقت پرورش نہیں کی جب تو بچہ تھا اور تو اپنی عمر کے کئی برس ہم میں رہا۔ دوسرا ہتھکنڈا انھیں مجرم ثابت کرکے سزا سے خوف زدہ کرنا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ پرورش کے احسان سے شرمندہ ہو کر یا جان کے خوف سے وہ زبان بند رکھیں گے۔ چناچہ کہنے لگا : ” اور تو نے اپنا وہ کام کیا جو تو نے کیا اور تو ناشکروں میں سے ہے “ یعنی ہمارے اتنے احسانات کے باوجود تم نے ہمارے ایک آدمی کو قتل کردیا جو یقیناً تمہاری احسان فراموشی تھی۔ ” اَلَمْ نُرَبِّكَ فِيْنَا “ (کیا ہم نے تیری اپنے ہاں پرورش نہیں کی) کے الفاظ سے ان مفسرین اور مؤرخین کی بات کی کسی قدر تائید ہوتی ہے جن کا خیال ہے کہ یہ فرعون وہ نہیں تھا جس کے گھر موسیٰ (علیہ السلام) کی پرورش ہوئی تھی، بلکہ اس کا بیٹا تھا، کیونکہ اگر یہ وہی ہوتا تو کہتا، کیا میں نے تیری پرورش نہیں کی اور تو کئی سال میرے پاس رہا ؟ (واللہ اعلم)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالَ اَلَمْ نُرَبِّكَ فِيْنَا وَلِيْدًا وَّلَبِثْتَ فِيْنَا مِنْ عُمُرِكَ سِـنِيْنَ۝ ١٨ۙ- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- ولید - والوَلِيدُ يقال لمن قرب عهده بالوِلَادَةِ وإن کان في الأصل يصحّ لمن قرب عهده أو بعد، كما يقال لمن قرب عهده بالاجتناء : جنيّ ، فإذا کبر الوَلَدُ سقط عنه هذا الاسم، وجمعه :- وِلْدَانٌ ، قال : يَوْماً يَجْعَلُ الْوِلْدانَ شِيباً [ المزمل 17]- والوَلِيدَةُ مختصّة بالإماء في عامّة کلامهم، واللِّدَةُ مختصّةٌ بالتِّرْبِ ، يقال : فلانٌ لِدَةُ فلانٍ ، وتِرْبُهُ ، ونقصانه الواو، لأنّ أصله وِلْدَةٌ وتَوَلُّدُ الشیءِ من الشیء : حصوله عنه بسبب من الأسباب، وجمعُ الوَلَدِ أَوْلادٌ. قال تعالی: أَنَّما أَمْوالُكُمْ وَأَوْلادُكُمْ فِتْنَةٌ [ التغابن 15] إِنَّ مِنْ أَزْواجِكُمْ وَأَوْلادِكُمْ عَدُوًّا لَكُمْ [ التغابن 14] فجعل کلّهم فتنة وبعضهم عدوّا . وقیل : الوُلْدُ جمعُ وَلَدٍ نحو : أُسْدٍ وأَسَدٍ ، ويجوز أن يكون واحدا نحو : بُخْلٍ وبَخَلٍ ، وعُرْبٍ وعَرَبٍ ، وروي : ( وُلْدُكِ مَنْ دَمَّى عَقِبَيْكِ ) وقرئ : مَنْ لَمْ يَزِدْهُ مالُهُ وَوَلَدُهُ [ نوح 21]- الولید ۔ عرف میں نوزائید ہ بچے پر بولاجاتا ہے ۔ اگرچہ لغت کے لحاظ سے ہر چھوٹے بڑے کو ولید کہنا صحیح ہے ۔ جیسا کہ تازہ چنے ہوئے پھل کو جنی کہاجاتا ہے پھر ججب بچہ بڑا ( یعنی بالغ ) ہوجائے تو اسے ولید نہیں کہتے ۔ اسکی جمع ولدان ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے ۔ يَوْماً يَجْعَلُ الْوِلْدانَ شِيباً [ المزمل 17] ( اس دن سے ) ( کیونکر بچو گے ) جو بچوں کو بوڑھا کردے گا ۔ الولید ۃ عرف عام میں کنیز کے ساتھ مختص ہے اور لدۃ خاص کر ترب ( لنگوٹیا ) کو کہتے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ فلان لدۃ فلان وتربہ فلاں اس کا ہم عمر ہی یہ اصل میں ولدۃ ہے تخفیف کے لئے واؤ ساقط ہوگئی ہے ۔ تولد الشئی من الشئی ایک چیز کو دوسری سے پیدا ہونا ۔ اور ولد کی جمع اولاد آتی ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ أَنَّما أَمْوالُكُمْ وَأَوْلادُكُمْ فِتْنَةٌ [ التغابن 15] تمہارا مال اور اولاد بڑی آزمائش ہے ۔ إِنَّ مِنْ أَزْواجِكُمْ وَأَوْلادِكُمْ عَدُوًّا لَكُمْ [ التغابن 14] تمہاری عوتوں اور اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن بھی ہیں ۔ ان ہر دوآیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اولاد انسان کے لئے آزمائش ہے ۔ مگر بعض اور دوشمن ثابت ہوتی ہے، پہلی آیت میں سب کو فتنہ قرار دیا ہے ۔ لیکن دودسری آیت میں بعض کو دشمن قرار دیا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسد کی جمع ولد بھی آتی ہے جیسے اسد کی جمع اسد مگر ہوسکتا ہے کہ ولد کا لفظ مفرد جیسے بخل وبخل اور عرب وعرب کہ یہ دونوں مفرد ہیں مثل مشہور ہے ۔ ولد ک من دمٰی عقیبک یعنی تیر ا لڑکا تو وہی ہے جو تیری ایڑیوں کو خون آلود کرے یعنی جو تہمارے بطن سے پیدا ہوا ہوا اور ایک قراءت میں ہے : ۔ جن کو ان کے مال اور اولاد نے کچھ فائدہ نہیں دیا۔- لبث - لَبِثَ بالمکان : أقام به ملازما له . قال تعالی: فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت 14] ،- ( ل ب ث ) لبث بالمکان - کے معنی کسی مقام پر جم کر ٹھہرنے اور مستقل قیام کرنا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت 14] تو وہ ان میں ۔ ہزار برس رہے ۔- عمر ( زندگی)- والْعَمْرُ والْعُمُرُ : اسم لمدّة عمارة البدن بالحیاة، فهو دون البقاء، فإذا قيل : طال عُمُرُهُ ، فمعناه : عِمَارَةُ بدنِهِ بروحه، وإذا قيل : بقاؤه فلیس يقتضي ذلك، فإنّ البقاء ضدّ الفناء، ولفضل البقاء علی العمر وصف اللہ به، وقلّما وصف بالعمر . والتَّعْمِيرُ : إعطاء العمر بالفعل، أو بالقول علی سبیل الدّعاء . قال : أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ ما يَتَذَكَّرُ فِيهِ [ فاطر 37] ، وَما يُعَمَّرُ مِنْ مُعَمَّرٍ وَلا يُنْقَصُ مِنْ عُمُرِهِ [ فاطر 11] ، وَما هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنَ الْعَذابِ أَنْ يُعَمَّرَ- [ البقرة 96] ، وقوله تعالی: وَمَنْ نُعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ [يس 68] ، قال تعالی: فَتَطاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ [ القصص 45] ، وَلَبِثْتَ فِينا مِنْ عُمُرِكَ سِنِينَ [ الشعراء 18] . والعُمُرُ والْعَمْرُ واحد لکن خُصَّ القَسَمُ بِالْعَمْرِ دون العُمُرِ «3» ، نحو : لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ [ الحجر 72] ، وعمّرک الله، أي : سألت اللہ عمرک، وخصّ هاهنا لفظ عمر لما قصد به قصد القسم،- ( ع م ر ) العمارۃ - اور العمر والعمر اس مدت کو کہتے میں جس میں بدن زندگی کے ساتھ آباد رہتا ہے اور یہ بقا سے فرو تر ہے چنناچہ طال عمر ہ کے معنی تو یہ ہوتے ہیں کہ اس کا بدن روح سے آباد رہے لیکن طال بقاء ہ اس مفہوم کا مقتضی نہیں ہے کیونکہ البقاء تو فناء کی ضد ہے اور چونکہ بقاء کو عمر پر فضیلت ہے اس لئے حق تعالیٰ بقاء کے ساتھ تو موصؤف ہوتا ہے مگر عمر کے ساتھ بہت کم متصف ہوتا ہے ۔ التعمیر کے معنی ہیں بالفعل عمر بڑھانا نا یا زبان کے ساتھ عمر ک اللہ کہنا یعنی خدا تیری عمر دراز کرے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ ما يَتَذَكَّرُ فِيهِ [ فاطر 37] کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی تھی کہ اس میں جو سوچنا چاہتا سوچ لیتا ۔ وَما يُعَمَّرُ مِنْ مُعَمَّرٍ وَلا يُنْقَصُ مِنْ عُمُرِهِ [ فاطر 11] اور نہ کسی بڑی عمر والے کو عمر زیادہ دی جاتی ہے اور نہ اس کی عمر کم کی جاتی ہے ۔ وَما هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنَ الْعَذابِ أَنْ يُعَمَّرَ [ البقرة 96] اگر اتنی لمبی عمر اس کو مل بھی جائے تو اسے عذاب سے تو نہیں چھڑا سکتی ۔ اور آیت : ۔ وَمَنْ نُعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ [يس 68] اور جس کو بڑی عمر دیتے ہیں اسے خلقت میں اوندھا کردیتے ہیں ۔ فَتَطاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ [ القصص 45] یہاں تک کہ ( اسی حالت میں ) ان کی عمر ین بسر ہوگئیں ۔ وَلَبِثْتَ فِينا مِنْ عُمُرِكَ سِنِينَ [ الشعراء 18] اور تم نے برسوں ہمارے عمر بسر کی ۔ العمر والعمر کے ایک ہی معنی ہیں لیکن قسم کے موقعہ پر خاص کر العمر کا لفظ ہی استعمال ہوتا ہے ۔ عمر کا لفظ نہیں بولا جاتا جیسے فرمایا : ۔ لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ [ الحجر 72] تمہاری زندگی کی قسم وہ اپنی مستی میں عمرک اللہ خدا تمہاری عمر دارز کرے یہاں بھی چونکہ قسم کی طرح تاکید مراد ہے اس لئے لفظ عمر کو خاص کیا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٨) یہ پیغام سن کر فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو نظر اٹھا کر دیکھا اور کہنے لگا اے موسیٰ (علیہ السلام) کیا ہم نے تمہیں بچپن میں پرورش نہیں کیا اور تیس سال تک تم ہم میں رہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٨ (قَالَ اَلَمْ نُرَبِّکَ فِیْنَا وَلِیْدًا وَّلَبِثْتَ فِیْنَا مِنْ عُمُرِکَ سِنِیْنَ ) ” - یہ قرآن کا خاص اسلوب ہے کہ کوئی واقعہ بیان کرتے ہوئے اس کی غیر ضروری تفاصیل چھوڑ دی جاتی ہیں۔ چناچہ یہاں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مصر پہنچنے اور اپنے بھائی ہارون (علیہ السلام) کے ساتھ فرعون کے دربار میں جا کر اسے دعوت دینے سے متعلق تمام تفصیلات کو چھوڑ کر فرعون کے جواب کو نقل کیا گیا ہے کہ کیا تم وہی نہیں ہو جس کو ہم نے دریائے نیل میں بہتے ہوئے صندوق سے نکالا تھا اور پھر پال پوس کر بڑا کیا تھا ؟ آیت زیر مطالعہ میں قرآن کے الفاظ کا امکانی حد تک مناسب انداز میں ترجمہ تو وہی ہے جو اوپر کیا گیا ہے ‘ لیکن جس ماحول اور جس انداز میں فرعون نے یہ جملے کہے ہوں گے ان کا تصور کریں تو مفہوم کچھ یوں ہوگا کہ تم ہمارے ٹکڑوں پر پلے ہو اور آج اللہ کے رسول بن کر ہمارے ہی سامنے آ کھڑے ہوئے ہو۔ ہماری بلیّ اور ہمیں کو میاؤں - [ سورة الاعراف کی آیات ١٠٤ ‘ ١٠٥ کے ذیل میں یہ وضاحت آچکی ہے کہ یہ وہ فرعون نہ تھا جس کے گھر میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے پرورش پائی تھی ‘ بلکہ یہ اس کا بیٹا تھا۔ زیر مطالعہ آیت کے اسلوب سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ اگر یہ وہی فرعون ہوتا تو کہتا کہ میں نے تجھے پالا پوسا ‘ لیکن یہ کہہ رہا ہے کہ تو ہمارے ہاں رہا ہے اور ہم نے تیری پرورش کی ہے۔ ]

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :14 اس سے ایک اشارہ اس خیال کی تائید میں نکلتا ہے کہ یہ فرعون وہ فرعون نہ تھا جس کے گھر میں حضرت موسیٰ نے پرورش پائی تھی ، بلکہ یہ اس کا بیٹا تھا ۔ اگر یہ وہی فرعون ہوتا تو کہتا کہ میں نے تجھے پالا تھا ۔ لیکن یہ کہتا ہے کہ ہمارے ہاں تو رہا ہے اور ہم نے تیری پرورش کی ہے ۔ ( اس مسئلے پر تفصیلی بحث کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم الاعراف ، حواشی 85 ۔ 93 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

5: یہ واقعہ سورۂ طٰہٰ :39 میں گذر چکا ہے