Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1881یعنی تم جو کفر و شرک کر رہے ہو، سب اللہ کے علم میں ہے اور وہی اس کی جزا تمہیں دے گا، اگر چاہے گا تو دنیا میں بھی دے دے گا، یہ عذاب اور سزا اس کے اختیار میں ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٠٩] یعنی عذاب نازل کرنا یا آسمان کا کوئی ٹکڑا گرا دینا میرا کام نہیں۔ میرا پروردگار تمہاری کرتوتوں کو دیکھ رہا ہے۔ جب تمہارے گناہوں کا ڈول بھر جائے گا یا جب وہ مناصب موقع سمجھے گا تم پر عذاب نازل کردے گا تو تمہیں صرف یہ بتلا سکتا ہوں کہ جو لوگ اللہ کی نافرمانی میں حد سے تجاوز کر جاتے ہیں۔ اللہ کا طریقہ یہی ہے کہ ان پر عذاب بھیج کر انھیں تباہ کر دے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قَالَ رَبِّيْٓ اَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ : شعیب (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ عذاب لانا یا آسمان سے ٹکڑے گرانا میرا کام نہیں، میرے رب کا کام ہے، کیونکہ وہی خوب جانتا ہے کہ تم کیا کرتے ہو، تم پر عذاب آنا ہے یا نہیں اور آنا ہے تو تمہارے اعمال کے مطابق کب آنا ہے اور کس قدر آنا ہے ؟ میرا کام متنبہ کرنا تھا وہ میں نے کردیا۔ شعیب (علیہ السلام) کے اس واقعہ میں قریش کے لیے بھی تنبیہ ہے، کیونکہ وہ بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ مطالبے کرتے تھے : (اَوْ تُسْقِطَ السَّمَاۗءَ كَمَا زَعَمْتَ عَلَيْنَا كِسَفًا اَوْ تَاْتِيَ باللّٰهِ وَالْمَلٰۗىِٕكَةِ قَبِيْلًا) [ بني إسرائیل : ٩٢ ] ” یا آسمان کو ٹکڑے کر کے ہم پر گرا دے، جیسا کہ تونے دعویٰ کیا ہے، یا تو اللہ اور فرشتوں کو سامنے لے آئے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالَ رَبِّيْٓ اَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ۝ ١٨٨- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، وذلک ضربان :- أحدهما : إدراک ذات الشیء .- والثاني : الحکم علی الشیء بوجود شيء هو موجود له،- أو نفي شيء هو منفيّ عنه .- فالأوّل : هو المتعدّي إلى مفعول واحد نحو :- لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال 60] .- والثاني : المتعدّي إلى مفعولین، نحو قوله :- فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة 10] ، وقوله : يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ إلى قوله :- لا عِلْمَ لَنا «3» فإشارة إلى أنّ عقولهم طاشت .- والعِلْمُ من وجه ضربان : نظريّ وعمليّ.- فالنّظريّ : ما إذا علم فقد کمل، نحو : العلم بموجودات العالَم .- والعمليّ : ما لا يتمّ إلا بأن يعمل کالعلم بالعبادات .- ومن وجه آخر ضربان : عقليّ وسمعيّ ،- وأَعْلَمْتُهُ وعَلَّمْتُهُ في الأصل واحد، إلّا أنّ الإعلام اختصّ بما کان بإخبار سریع، والتَّعْلِيمُ اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] ،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیش کی حقیقت کا اور راک کرنا اور یہ قسم پر ہے اول یہ کہ کسی چیز کی ذات کا ادراک کرلینا دوم ایک چیز پر کسی صفت کے ساتھ حکم لگانا جو ( فی الواقع ) اس کے لئے ثابت ہو یا ایک چیز کی دوسری چیز سے نفی کرنا جو ( فی الواقع ) اس سے منفی ہو ۔ پہلی صورت میں یہ لفظ متعدی بیک مفعول ہوتا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے : ۔ لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال 60] جن کو تم نہیں جانتے اور خدا جانتا ہے ۔ اور دوسری صورت میں دو مفعول کی طرف متعدی ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة 10] اگر تم کا معلوم ہو کہ مومن ہیں ۔ اور آیت يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَاسے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کے ہوش و حواس قائم نہیں رہیں گے ۔- ایک دوسری حیثیت سے علم کی دوقسمیں ہیں - ( 1) نظری اور ( 2 ) عملی ۔ نظری وہ ہے جو حاصل ہونے کے ساتھ ہی مکمل ہوجائے جیسے وہ عالم جس کا تعلق موجودات عالم سے ہے اور علم عمل وہ ہے جو عمل کے بغیر تکمیل نہ پائے جسیے عبادات کا علم ایک اور حیثیت سے بھی علم کی دو قسمیں ہیں ۔ ( 1) عقلی یعنی وہ علم جو صرف عقل سے حاصل ہو سکے ( 2 ) سمعی یعنی وہ علم جو محض عقل سے حاصل نہ ہو بلکہ بذریعہ نقل وسماعت کے حاصل کیا جائے دراصل اعلمتہ وعلمتہ کے ایک معنی ہیں مگر اعلام جلدی سے بتادینے کے ساتھ مختص ہے اور تعلیم کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو ۔ اور حسب ذیل آیات میں تعلیم کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسے فرمایا ۔ الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن 1- 2] خدا جو نہایت مہربان اس نے قرآن کی تعلیم فرمائی ۔ قلم کے ذریعہ ( لکھنا ) سکھایا ؛

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٨٨) حضرت شعیب (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میرا پروردگار تمہاری ان کفریہ باتوں کو اچھی طرح جانتا ہے اور میں بھی تمہاری حالت سے اور اس عذاب سے جو تم پر نازل ہوگا بخوبی واقف ہوں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٨٨ (قَالَ رَبِّیْٓ اَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ ) ” - میری دعوت پر تمہارے ایک ایک ردِّ عمل سمیت تمہارے طرز عمل اور تمہارے تمام کرتوتوں سے میرا پروردگار خوب واقف ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :116 یعنی عذاب نازل کرنا میرا کام نہیں ہے ۔ یہ تو اللہ رب العالمین کے اختیار میں ہے اور وہ تمہارے کرتوت دیکھ ہی رہا ہے ۔ اگر وہ تمہیں اس عذاب کا مستحق سمجھے گا تو خود نازل فرما دے گا ۔ اصحاب الایکہ کے اس مطالبے اور حضرت شعیب کے اس جواب میں کفار قریش کے لیے بھی ایک تنبیہ تھی ۔ وہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی مطالبے کرتے تھے ، اَوْ تُسْقِطَ السَّمَآءَ کَمَا زَعَمْتَ عَلَیْنَا کِسَفاً ، یا پھر گرا دے ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا جیسا کہ تیرا دعویٰ ہے ۔ ( بنی اسرائیل ۔ آیت 92 ) ۔ اس لیے ان کو سنایا جا رہا کہ ایسا ہی مطالبہ اصحاب الایکہ نے اپنے پیغمبر سے کیا تھا ، اس کا جو جواب انہیں ملا وہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے تمہاری طلب کا جواب بھی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

41: یعنی کس وقت کونسا عذاب نازل کیا جائے، یہ فیصلہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، وہ جب چاہے گا، جس قسم کا عذاب مناسب ہوگا، نازل فرما دے گا، کیونکہ وہ تمہارے سب کاموں سے پوری طرح باخبر ہے۔