Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1891انہوں نے بھی کفار مکہ کی طرح آسمانی عذاب مانگا تھا، اللہ نے اس کے مطابق ان پر عذاب نازل فرما دیا اور وہ اس طرح کے بعض روایات کے مطابق سات دن تک ان پر سخت گرمی اور دھوپ مسلط کردی، اس کے بعد بادلوں کا ایک سایہ آیا اور یہ سب گرمی اور دھوپ کی شدت سے بچنے کے لئے اس سائے تلے جمع ہوگئے اور کچھ سکھ کا سانس لیا لیکن چند لمحے بعد ہی آسمان سے آگ کے شعلے برسنے شروع ہوگئے، زمین زلزلے سے لرز اٹھی اور ایک سخت چنگھاڑ نے انھیں ہمیشہ کے لئے موت کی نیند سلا دیا یوں تین قسم کا عذاب ان پر آیا اور یہ اس دن آیا جس دن ان پر بادل سایہ فگن ہوا، اس لئے فرمایا کہ سائے والے دن کے عذاب نے انھیں پکڑ لیا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١١٠] اس آیت سے چند باتوں کا پتہ چلتا ہے ایک یہ کہ اصحاب مرین اور اصحاب الایکہ دو الگ الگ قومیں تھیں۔ اصحاب مرین پر زلزلہ اور اسی سے پیدا ہونے والی ہولناک آواز کا عذاب چند آیا تھا (٧: ٩١، ١١: ٩٤) جبکہ اصحاب الایکہ پر سائے کے دن کا عذاب آیا تھا اگرچہ اس عذاب کی تفصیل کتاب و سنت میں کہیں مذکور نہیں تاہم اتنا ضرور معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ عذاب کی الگ نوع ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سخت گہرے اور گاڑھے بادل ان پر چھتری کی صورت میں محیط ہوگئے تھے۔ اور اسی کے تادیر ان پر سایہ کئے رکھنے اور اس کی دہشت سے ان کی تبہی ہوئی تھی۔ اور ایسے ہی عذاب کا ان لوگوں نے مطالبہ کیا تھا۔ اور دوسرے یہ کہ ان قوموں کی طرف شعیب (علیہ السلام) ہی مبعوث ہوئے تھے اور یہ دونوں اقوام ایک دوسرے سے تھوڑے سے فاصلہ پر آباد تھیں اور یہ دونوں ہی تجارتی بددیانتیاں کرتے تھے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَكَذَّبُوْهُ فَاَخَذَهُمْ عَذَابُ يَوْمِ الظُّلَّةِ ۔۔ : اس عذاب کی کوئی تفصیل قرآن مجید یا کسی صحیح حدیث میں نہیں آئی۔ ظاہر الفاظ سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے کچھ ٹکڑے گرانے کے مطالبے کے جواب میں ان پر بادل کا ایک سائبان بھیج دیا، جس سے ایسا عذاب برسا کہ وہ تباہ و برباد ہوگئے۔ اس عذاب کی حقیقت اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے، مگر خود اللہ تعالیٰ نے اس سوال کا جواب دیا کہ وہ کس قسم کا عذاب تھا، فرمایا یقیناً وہ ایک عظیم دن کا عذاب تھا۔ جب وہ دن عظیم تھا تو اس میں اترنے والے عذاب کی عظمت کا خود اندازہ کرلو۔ - 3 یہ آیت اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ” اصحاب مدین “ اور ” اصحاب الایکہ “ الگ الگ قومیں تھیں، کیونکہ اصحاب الایکہ پر ” يَوْمِ الظُّلَّةِ “ کا عذاب آیا، جب کہ اصحاب مدین پر زلزلے اور صیحہ (چیخ) کا عذاب آیا تھا، جیسا کہ فرمایا : (فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْا فِيْ دَارِهِمْ جٰثِمِيْنَ ) [ الأعراف : ٧٨ ] ” تو انھیں زلزلے نے پکڑ لیا تو انھوں نے اپنے گھر میں اس حال میں صبح کی کہ گرے پڑے تھے۔ “ اور فرمایا : (وَاَخَذَ الَّذِيْنَ ظَلَمُوا الصَّيْحَةُ فَاَصْبَحُوْا فِيْ دِيَارِهِمْ جٰثِمِيْنَ ) [ ھود : ٦٧] ” اور جن لوگوں نے ظلم کیا تھا انھیں چیخ نے پکڑ لیا، تو انھوں نے اپنے گھروں میں اس حال میں صبح کی کہ گرے پڑے تھے۔ “- بعض مفسرین نے سائبان کے عذاب کی تفصیل یہ بیان کی ہے کہ ” اصحاب الایکہ “ پر پہلے سات دن تک سخت لو چلتی رہی، جس سے ان کے بدن پک گئے، چشموں اور کنووں کا پانی سوکھ گیا۔ وہ گھبرا کر جنگل کی طرف نکلے، وہاں دھوپ کی شدت اور نیچے سے گرم زمین نے ان کے پاؤں کی کھال اتار دی، پھر ایک سیاہ بادل سائبان کی شکل میں نمودار ہوا، وہ سارے کے سارے خوشی کے مارے اس کے سائے میں جمع ہوگئے، اس وقت اچانک بادل سے آگ برسنا شروع ہوئی جس سے سب ہلاک ہوگئے۔ مگر ہم مفسرین کی اس تفصیل کو نہ سچا کہتے ہیں نہ جھوٹا، کیونکہ یہ نہ قرآن مجید سے ثابت ہے نہ صحیح حدیث سے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خدا کا مجرم اپنے پاؤں چل کر آتا ہے اسے وارنٹ کی ضرورت نہیں :- فَاَخَذَهُمْ عَذَابُ يَوْمِ الظُّلَّةِ ، عذاب یوم الظلہ، جس کا ذکر اس آیت میں آیا ہے اس کا واقعہ یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے ان کی قوم پر سخت گرمی مسلط فرمائی کہ نہ مکان کے اندر چین آتا نہ باہر، پھر ان کے قریب جنگل میں ایک گہرا بادل بھیج دیا جس کے نیچے ٹھنڈی ہوا تھی، ساری قوم گرمی سے پریشان تھی سب دوڑ دوڑ کر اس بال کے نیچے جمع ہوگئے جب ساری قوم بادل کے نیچے آگئی تو اس بادل نے ان پر پانی کے بجائے آگ برسا دی جس سے سب بھسم ہو کر رہ گئے۔ (کذا روی عن ابن عباس۔ روح)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَكَذَّبُوْہُ فَاَخَذَہُمْ عَذَابُ يَوْمِ الظُّلَّۃِ۝ ٠ۭ اِنَّہٗ كَانَ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيْمٍ۝ ١٨٩- أخذ - الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة 255] - ( اخ ذ) الاخذ - ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔- ظلل - الظِّلُّ : ضدُّ الضَّحِّ ، وهو أعمُّ من الفیء، فإنه يقال : ظِلُّ اللّيلِ ، وظِلُّ الجنّةِ ، ويقال لكلّ موضع لم تصل إليه الشّمس : ظِلٌّ ، ولا يقال الفیءُ إلّا لما زال عنه الشمس، ويعبّر بِالظِّلِّ عن العزّة والمنعة، وعن الرّفاهة، قال تعالی: إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي ظِلالٍ [ المرسلات 41] ، أي :- في عزّة ومناع،- ( ظ ل ل ) الظل - ۔ سایہ یہ الضح ( دهوپ ) کی ضد ہے اور فیی سے زیادہ عام ہے کیونکہ ( مجازا الظل کا لفظ تورات کی تاریکی اور باغات کے سایہ پر بھی بولا جاتا ہے نیز ہر وہ جگہ جہاں دہوپ نہ پہنچنے اسے ظل کہہ دیا جاتا ہے مگر فییء صرف اس سے سایہ کو کہتے ہیں جوز وال آفتاب سے ظاہر ہو ہے اور عزت و حفاظت اور ہر قسم کی خش حالی کو ظل سے تعبیر کرلیتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي ظِلالٍ [ المرسلات 41] کے معنی یہ ہیں کہ پرہیز گار ہر طرح سے عزت و حفاظت میں ہوں گے ۔ - عظیم - وعَظُمَ الشیء أصله : كبر عظمه، ثم استعیر لكلّ كبير، فأجري مجراه محسوسا کان أو معقولا، عينا کان أو معنی. قال : عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر 13] ، قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص 67] ، - ( ع ظ م ) العظم - عظم الشئی کے اصل معنی کسی چیز کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں مجازا ہر چیز کے بڑا ہونے پر بولا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حس سے یو یا عقل سے اور عام اس سے کہ وہ مادی چیز ہو یا معنو ی قرآن میں ہے : ۔ عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر 13] بڑے خت دن کا عذاب ) تھا ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص 67] کہہ دو کہ وہ ایک سخت حادثہ ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٨٩) چناچہ انہوں نے حضرت شعیب (علیہ السلام) کی تکذیب کی اور ان کو سائبان کے عذاب نے آپکڑا بادل کی مانند عذاب ان کے اوپر آگیا اور اس میں سے آگ برسنا شروع ہوئی جس نے ان سب کو جلا دیا بیشک یہ ان لوگوں کے حق میں بڑے سخت دن کا عذاب تھا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٨٩ (فَکَذَّبُوْہُ فَاَخَذَہُمْ عَذَابُ یَوْمِ الظُّلَّۃِ ط) ” - یوں لگتا ہے جیسے اس قوم پر پہلے اوپر سے کوئی عذاب آیا تھا اور ان پر سائبان کی طرح چھا گیا تھا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :117 اس عذاب کی کوئی تفصیل قرآن مجید میں یا کسی صحیح حدیث میں مذکور نہیں ہے ۔ ظاہر الفاظ سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ ان لوگوں نے چونکہ آسمانی عذاب مانگا تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان پر ایک بادل بھیج دیا اور وہ چھتری کی طرح ان پر اس وقت تک چھایا رہا جب تک باران عذاب نے ان کو بالکل تباہ نہ کر دیا ۔ قرآن سے یہ بات صاف معلوم ہوتی ہے کہ اصحاب مدین کے عذاب کی کیفیت اصحاب الایکہ کے عذاب سے مختلف تھی ۔ یہ جیسا کہ یہاں بتایا گیا ہے ، چھتری والے عذاب سے ہلاک ہوئے ، اور ان پر عذاب ایک دھماکے اور زلزلے کی شکل میں آیا ( فَاَخَذَتْھُمُ الرَّجْفَۃُ فَاَصْبَحُوْ فِیْ دَارِھِمْ جٰثِمِیْنَ ، اور وَاَخَذَتِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا الصَّیْحَۃُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِھِمْ جٰثِمِیْنَ ) ۔ اس لیے ان دونوں کو ملا کر ایک داستاں بنانے کی کوشش درست نہیں ہے ۔ بعض مفسرین نے عذاب یوم الظُّلہ کی کچھ تشریحات بیان کی ہیں ، مگر ہمیں نہیں معلوم کہ ان کی معلومات کا ماخذ کیا ہے ۔ ابن جریر نے حضرت عبداللہ بن عباس کا یہ قول نقل کیا ہے کہ من حدثک من العلماء ما عذاب یوم الظلۃ فکذبہ ، علماء میں سے جو کوئی تم سے بیان کرے کہ یوم الظُّلہ کا عذاب کیا تھا اس کو درست نہ سمجھو ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

42: کئی دن تک سخت گرمی پڑنے کے بعد ایک بادل ان کی بستی کے قریب آیا جس کے نیچے بظاہر ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی بستی کے سب لوگ اس بادل کے نیچے جمع ہوگئے تو اس بادل نے ان پر انگارے برسائے جس سے وہ سب ہلاک ہوگئے۔