Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

مبارک کتاب سورت کی ابتدا میں قرآن کریم کا ذکر آیا تھا وہی ذکر پھر تفصیلاً بیان ہو رہا ہے کہ یہ مبارک کتاب قرآن کریم اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے اور نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائی ہے ۔ روح الامین سے مراد حضرت جبرائیل علیہ السلام ہیں جن کے واسطے سے یہ وحی سرور رسل علیہ السلام پر اتری ہے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيْلَ فَاِنَّهٗ نَزَّلَهٗ عَلٰي قَلْبِكَ بِاِذْنِ اللّٰهِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَھُدًى وَّبُشْرٰى لِلْمُؤْمِنِيْنَ 97؀ ) 2- البقرة:97 ) یعنی اس قرآن کو بحکم الٰہی حضرت جبرائیل علیہ السلام نے تیرے دل پر نازل فرمایا ہے ۔ یہ قرآن اگلی تمام الہامی کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے ۔ یہ فرشتہ ہمارے ہاں ایسا مکرم ہے کہ اس کا دشمن ہمارا دشمن ہے حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جس سے روح الامین بولے اسے زمین نہیں کھاتی ۔ اس بزرگ بامرتبہ فرشتے نے جو فرشتوں کا سردار ہے تیرے دل پر اس پاک اور بہتر کلام اللہ کو نازل فرمایا ہے جو ہر طرح کے میل کچیل سے کمی زیادتی سے نقصان اور کجی سے پاک ہے ۔ تاکہ تو اللہ کے مخالفین کو گہنگاروں کو اللہ کی سزا سے بچاؤ کرنے کی رہبری کر سکے ۔ اور تابع فرمان لوگوں کو اللہ کی مغفرت ورضوان کی خوشخبری پہنچاسکے ۔ یہ کھلی فصیح عربی زبان میں ہے ۔ تاکہ ہر شخص سمجھ سکے پڑھ سکے ۔ کسی کا عذر باقی نہ رہے اور ہر ایک پر قرآن کریم اللہ کی حجت بن جائے ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے سامنے نہایت فصاحت سے ابر کے اوصاف بیان کئے جسے سن کر صحابہ کہہ اٹھے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ تو کمال درجے کے فصیح وبلیغ زبان بولتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا بھلا میری زبان ایسی پاکیزہ کیوں نہ ہوگی ، قرآن بھی تو میری زبان میں اترا ہے فرمان ہے آیت ( بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُّبِيْنٍ ١٩٥؀ۭ ) 26- الشعراء:195 ) امام سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں وحی عربی میں اتری ہے یہ اور بات ہے کہ ہر نبی نے اپنی قوم کے لئے ان کی زبان میں ترجمہ کردیا ۔ قیامت کے دن سریانی زبان ہوگی ہاں جنتیوں کی زبان عربی ہوگی ( ابن ابی حاتم )

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاِنَّهٗ لَتَنْزِيْلُ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ : شروع سورت میں تمہیداً قرآن کے ذکر سے مقصود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت و نبوت کو ثابت کرنا تھا، پھر جھٹلانے والوں کو دھمکی دی اور اس سلسلہ میں انبیاء کے سات قصے بیان فرمائے، تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی ہو اور آپ کو جھٹلانے والے عبرت حاصل کریں۔ اب یہاں سے پھر رسالت کا اثبات شروع کیا اور آپ کی نبوت کے حق ہونے کے دلائل اور کفار کے شبہات کے جواب آخر سورت تک چلے گئے ہیں۔ (کبیر، قرطبی)- ” تَنْزِیْلٌ“ مصدر ہے جو اسم مفعول کے معنی میں ہے، نازل کیا ہوا۔ کفار قرآن کے وحی الٰہی ہونے کا انکار کرتے تھے، اس لیے وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کے بھی منکر تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورت کا آغاز یہ کہہ کر فرمایا کہ یہ کتاب مبین کی آیات ہیں، اس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینے کے لیے اور کفار کو کفر کے انجام بد سے ڈرانے کے لیے انبیائے کرام (علیہ السلام) کے سات قصّے بیان فرمائے، جو اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ یہ قرآن یقیناً وحی الٰہی ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے سچے رسول ہیں، کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ رسول، جو نہ پڑھ سکتا ہے نہ لکھ سکتا ہے، گزشتہ انبیاء اور قوموں کے واقعات کیسے بیان کرسکتا تھا۔ بلاغت کا قاعدہ ہے کہ انکار جتنا شدید ہو بات اتنی ہی تاکید سے کی جاتی ہے۔ اس لیے نہایت تاکید کے ساتھ فرمایا کہ بیشک یہ یقیناً رب العالمین کا نازل کیا ہوا ہے، نہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے خود تصنیف کیا ہے، نہ کسی اور انسان یا جن کا گھڑا ہوا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور یہ قرآن رب العالمین کا بھیجا ہوا ہے اس کو امانت دار فرشتہ لے کر آیا ہے آپ کے قلب پر صاف عربی زبان میں تاکہ آپ (بھی) منجملہ ڈرانے والوں کے ہوجاویں (یعنی جس طرح اور پیغمبروں نے اپنی امت کو احکام الہیہ پہنچائے آپ بھی پہنچائیں) اور اس (قرآن) کا ذکر پہلی امتوں کی (آسمانی) کتابوں میں (بھی) ہے (کہ ایک ایسی شان کا پیغمبر ہوگا اور اس پر ایسا کلام نازل ہوگا۔ چناچہ تفسیر حقانی کے اس مقام کے حواشی میں چند بشارتیں کتب سابقہ تورات و انجیل کی نقل کی ہیں۔ آگے اس مضمون وَاِنَّهٗ لَفِيْ زُبُرِ الْاَوَّلِيْنَ کی توضیح ہے یعنی) کیا ان لوگوں کے لئے (اس پر) یہ بات دلیل نہیں ہے کہ اس (پیشین گوئی) کو علماء بنی اسرائیل جانتے ہیں (چنانچہ ان میں جو لوگ اسلام لے آئے ہیں وہ تو علی الاعلان اس کا اعتراف کرتے ہیں اور جو اسلام نہیں لائے وہ بھی خاص خاص لوگوں کے سامنے اس کا اقرار کرتے ہیں جیسے کہ پارہ اول کے ربع پر آیت اَتَاْمُرُوْنَ النَّاس بالْبِرِّ کی تفسیر میں اس کا بیان آ چکا ہے اور ان اقرار کرنے والوں کی تعداد اور کثرت اس وقت اگر خبر واحد تک بھی مان لی جاوے تاہم قرائن کی وجہ سے معنوی تواتر حاصل تھا اور یہ دلیل قائم کرنا ان پڑھ غریبوں کے لئے ہے ورنہ لکھے پڑھے لوگ خود اصل کتاب سے دیکھ سکتے تھے اور اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ کتب سابقہ میں تحریف نہیں ہوئی، کیونکہ باوجود تحریف کے ایسے مضامین کا باقی رہ جانا اور زیادہ حجت ہے اور یہ احتمال کہ یہ مضامین ہی تحریف کا نتیجہ ہوں اس لئے غلط ہے کہ اپنے نقصان کے لئے کوئی تحریف نہیں کیا کرتا۔ یہ مضامین تو تحریف کرنے والوں کے لئے نقصان دہ ہیں جیسا کہ ظاہر ہے۔ یہاں تک تو دعویٰ وَاِنَّهٗ لَتَنْزِيْلُ کی دو نقلی دلیلیں بیان فرمائی ہیں یعنی پہلی کتابوں میں ذکر اور بنی اسرائیل کا جاننا کہ ان میں بھی ثانی اول کی دلیل ہے اور آگے انکار کرنے والوں کے عناد کے بیان کے ضمن میں اسی دعویٰ کی عقلی دلیل کی طرف اشارہ ہے یعنی اعجاز قرآن، مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ ایسے معاند ہیں کہ) اگر (بالفرض) ہم اس (قرآن) کو کسی عجمی (غیر عربی) پر نازل کردیتے پھر وہ (عجمی) ان کے سامنے اس کو پڑھ بھی دیتا ( اس کا معجزہ ہونا اور زیادہ ظاہر ہوتا ہے کیونکہ جس پر نازل ہوا اس کو عرب زبان پر بالکل قدرت نہ ہوتی، لیکن) یہ لوگ (بوجہ انتہائی ضد کے) تب بھی اس کو نہ مانتے (آگے حضور کی تسلی کے واسطے ان کے ایمان لانے سے ناامید دلاتے ہیں یعنی) ہم نے اسی طرح (شدت و اصرار کے ساتھ) اس ایمان نہ لانے کو ان نافرمانوں کے دلوں میں ڈال رکھا ہے (یعنی کفر میں، اور اس پر مصر ہیں اور اس شدت و اصرار کی وجہ سے) یہ لوگ اس (قرآن) پر ایمان نہ لاویں گے جب تک کہ سخت عذاب کو (مرنے کے وقت یا برزخ میں یا آخرت میں) نہ دیکھ لیں گے جو اچانک ان کے سامنے آکھڑا ہوگا اور ان کو (پہلے سے) خبر بھی نہ ہوگی پھر (اس وقت جان کو بنے گی تو) کہیں گے کہ کیا (کسی طور پر) ہم کو (کچھ) مہلت مل سکتی ہے (لیکن وہ وقت نہ ملہت کا ہے نہ قبول ایمان کا اور وہ کفار ایسے مضامین و عید و عذاب کے سن کر براہ انکار عذاب کا تقاضا کیا کرتے تھے مثلاً کہتے تھے عَجِّلْ لَّنَا قِطَّنَا اور اِنْ كَانَ هٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً یعنی اے اللہ اگر یہ تیری طرف سے حق ہے تو ہم پر پتھروں کی بارش برسا اور مہلت کو، جو درحقیقت ڈھیل ہے، عذاب نہ واقع ہونے کی دلیل ٹھہراتے تھے، آگے اس کا جواب ہے کہ) کیا (ہماری وعیدوں کو سن کر) یہ لوگ ہمارے عذاب کی تعجیل چاہتے ہیں (جس کا منشاء انکار ہے یعنی باوجود قیام دلیل یعنی ایک سچے بزرگ کی خبر کے پھر بھی انکار کرتے ہیں ؟ رہا مہلت کو بناء انکار قرار دینا سو یہ سخت غلطی ہے کیونکہ) اے مخاطب ذرا بتلاؤ تو اگر ہم ان کو (چند سال تک) عیش میں رہنے دیں پھر جس (عذاب) کا ان سے وعدہ ہے وہ ان کے سر آ پڑے تو ان کا وہ عیش کس کام آسکتا ہے (یعنی یہ عیش کی جو مہلت دی گئی اس سے ان کے عذاب میں کوئی خفت یا کمی نہیں ہو سکتی) اور (مہلت دینا حکمت کی وجہ سے چند روز تک خواہ کم یا زیادہ کچھ ان ہی کے ساتھ خاص نہیں بلکہ امم سابقہ کو بھی مہلتیں ملی ہیں چنانچہ) جتنی بستیاں (منکرین کی) ہم نے (عذاب سے) غارت کی ہیں سب میں نصیحت کے واسطے ڈرانے والے (پیغمبر) آئے (جب نہ مانے تو عذاب نازل ہوا) اور (صورة بھی) ظالم نہیں ہیں (مطلب یہ کہ مہلت دینے سے جو مقصود ہے یعنی حجت پورا کرنا اور عذر کو ختم کرنا وہ سب کے لئے رہا، پیغمبروں کا آنا سمجھانا خود یہ بھی ایک مہلت ہی دینا ہے مگر پھر بھی ہلاکت کا عذاب آ کر رہا۔ ان واقعات سے مہلت دینے کی حکمت بھی معلوم ہوگئی اور مہلت دینے اور عذاب میں تضاد نہ ہونا بھی ثابت ہوگیا اور صورة اس لئے کہا گیا کہ حقیقتہ تو کسی حالت میں بھی ظلم نہ ہوتا۔ آگے پھر مقصود اوّل یعنی مضمون وَاِنَّهٗ لَتَنْزِيْلُ الخ کی طرف رجوع ہے اور درمیان میں یہ مضامین منکرین کی حالت کے مناسب ہونے کی وجہ سے مذکور ہوئے تھے اور حاصل مضمون آئندہ آیات کا ان شبہات کا دفع کرنا ہے جو قرآن کی حقانیت کے متعلق تھے پس ایک شبہ تو قرآن کے اللہ کا کلام اور اس کی طرف بھیجا ہوا ماننے پر اس لئے تھا کہ عرب میں پہلے سے کاہن ہوتے آئے تھے وہ بھی کچھ مختلف قسم کے جملے بولا کرتے تھے نعوذ باللہ آپ کی نسبت بھی بعضے کفار یہی کہتے تھے (کما فی الدر عن ابن زید) اور بخاری میں ایک عورت کا قول نقل کیا ہے جس زمانہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی نازل ہونے میں کچھ دیر ہوئی تو اس عورت نے کہا کہ آپ کو آپ کے شیطان نے چھوڑ دیا ہے کیونکہ کاہنوں کو شیطان ہی کی تعلیم و تلقین سے کچھ حاصل ہوا کرتا تھا اس کا جواب ہے کہ یہ رب العالمین کا نازل کیا ہوا ہے) اور اس کو شیاطین (جو کاہنوں کے پاس آیا کرتے تھے) لے کر نہیں آئے (کیونکہ اس کے دو مانع قوی موجود ہیں ایک اس کی صفت شیطنت جس کے سبب) یہ (قرآن) ان (کی حالت) کے مناسب ہی نہیں (کیونکہ قرآن سب کا سب ہدایت اور شیطان سب کا سب گمراہی ہے نہ ان کو ایسے مضامین کی آمد ہو سکتی ہے اور نہ ایسے مضامین شائع کرنے سے ان کی غرض یعنی مخلوق کو گمراہ کرنا پورا ہوسکتا ہے ایک مانع تو یہ ہوا) اور (دوسرا مانع یہ کہ وہ) اس پر قادر بھی نہیں کیونکہ وہ شیاطین (وحی آسمانی) سننے سے روک دیئے گئے ہیں (چنانچہ کاہنوں اور مشرکوں سے ان کے جنات نے اپنی ناکامی کا خود اعتراف کیا جس کی انہوں نے اوروں کو بھی خبر دی۔ چناچہ بخاری میں ایسے قصے باب اسلام عمر میں مذکور ہیں پس شیطانوں کی تلقین کا کسی طرح احتمال نہ رہا اور اس جواب کا پورا ہونا اور ایک دوسرے شبہ کا جواب ختم سورت کے قریب آوے گا درمیان میں تنزیل من اللہ ہونے پر بطور تفریع کے ایک مضمون ہے یعنی جب اس کا منزل من اللہ ہونا ثابت ہے تو اس کی تعلیم واجب العمل ہوئی اور منجملہ اس کے اہم امر اور اعظم توحید ہے) سو (اے پیغمبر ہم اس کے وجوب کی ایک خاص طریق سے تاکید کرتے ہیں کہ ہم آپ کو مخاطب بنا کر کہتے ہیں کہ) تم خدا کے ساتھ کسی اور معبود کی عبادت مت کرنا کبھی تم کو سزا ہونے لگے (حالانکہ آپ میں نعوذ باللہ نہ احتمال شرک کا ہی نہ تعذیب کا مگر لوگوں کو یہ بات جتلانا مقصود ہے کہ جب غیر اللہ کی عبادت پر آپ کے لئے بھی سزا کا حکم ہے تو اور بیچارے تو کسی شمار میں ہیں ؟ شرک سے ان کو کیسے منع نہ کیا جاوے اور شرک کر کے عذاب سے کیونکر بچیں گے) اور (اسی مضمون سے) آپ (سب سے پہلے) اپنے نزدیک کے کنبہ کو ڈرایئے (چنانچہ آپ نے سب کو پکار کر جمع کیا اور شرک پر عذاب الہی سے ڈرایا جیسا حدیثوں میں ہے) اور (آگے انداز یعنی دعوت نبوت کو قبول کرنے والے اور رد کرنے والوں کے ساتھ معاملہ کا طرز بتلاتے ہیں یعنی) ان لوگوں کے ساتھ (تو مشفقانہ) فروتنی سے پیش آیئے جو مسلمانوں میں داخل ہو کر آپ کی راہ پر چلیں (خواہ کنبہ کے ہوں یا غیر کنبہ کے) اور اگر یہ لوگ (جن کو آپ نے ڈرایا ہے) آپ کا کہنا نہ مانیں (اور کفر پر اڑے رہیں) تو آپ (صاف کہہ دیجئے کہ میں تمہارے افعال سے بیزار ہوں (ان دونوں امر یعنی اخفص وقل الخ میں حب فی اللہ اور بغض فی اللہ کی پوری تعلیم ہے اور کبھی ان مخالفین کی طرف سے ایذا اور نقصان دینے کا خطرہ نہ لایئے) اور خدائے رحیم پر توکل رکھئے جو آپ کو جس وقت کہ آپ (نماز کے لئے) کھڑے ہوتے ہیں اور (نیز نماز شروع کرنے کے بعد) نمازیوں کے ساتھ آپ کی نشست و برخاست کو دیکھتا ہے (اور نماز کے علاوہ بھی وہ دیکھتا بھالتا ہے کیونکہ) وہ خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے (پس جب اس کو علم بھی کامل ہے جیسے یراک اور سمیع، علیم اس پر دال ہیں اور وہ آپ پر مہربان بھی ہے، جیسا الرحیم اس پر دال ہے اور اس کو سب قدرت ہے جیسا العزیز سے مفہوم ہوتا ہے تو ضرور وہ لائق توکل ہے وہ آپ کو ضرر حقیقی سے بچاوے گا اور جو متوکل کو ضرر پہنچتا ہے وہ صرف ظاہر کے اعتبار سے ضرر ہوتا ہے جس کے تحت میں ہزاروں منافع ہوتے ہیں جن کا کبھی دنیا میں کبھی آخرت میں ظہور ہوتا ہے آگے کہانت کے شبہ کے جواب کا تتمہ ہے کہ اے پیغمبر لوگوں سے کہہ دیجئے کہ) کیا میں تم کو بتلاؤں کس پر شیطان اترا کرتے ہیں (سنو) ایسے شخصوں پر اترا کرتے ہیں جو (پہلے سے) دروغ گفتار بڑے بدکردار ہوں اور جو (اخبار شیاطین کے وقت ان شیطانوں کی طرف) کان لگا دیتے ہیں اور (لوگوں سے ان چیزوں کے بیان کرنے کے وقت) وہ بکثرت جھوٹ بولتے ہیں (چنانچہ سفلی عاملوں کو اب بھی اسی حالت میں دیکھا جاتا ہے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ فائدہ لینے والے اور فائدہ دینے والے کے درمیان مناسبت ضروری ہے تو شیطان کا شاگرد بھی وہ ہوگا جو جھوٹا اور گنہگار ہوگا، نیز شیطان کی طرف قلب سے متوجہ بھی ہو کہ بغیر توجہ سے استفادہ نہیں ہوتا اور چونکہ اکثر یہ علوم شیطانی ناتمام ہوتے ہیں اس لئے ان کو رنگین اور باوقعت کرنے کے لئے کچھ حاشیہ بھی ظن وتخمین سے چڑھانا پڑتا ہے جو کہ کہانت کے لئے عادةً ضروری ہیں اور یہ ساری باتیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں ہونے کا کوئی دور کا بھی احتمال نہیں کیونکہ آپ کا سچا ہونا سب کو معلوم ہے۔ آپ کا پرہیزگار ہونا اور شیاطین سے بغض رکھنے والا ہونا دشمن کو بھی مسلم تھا اور مشہور و معروف تھا تو پھر کہانت کا احتمال کہاں رہا) اور آگے شبہ شاعریت کا جواب ہے کہ آپ شاعر بھی نہیں ہیں جیسا کفار کہتے تھے بَلْ هُوَ شَاعِرٌ یعنی ان کے مضامین خیالی غیر واقعی ہیں گو منظوم نہ ہوں سو یہ احتمال اس لئے غلط ہے کہ) شاعروں کی راہ تو بےراہ لوگ چلا کرتے ہیں (مراد راہ سے شعر گوئی ہے۔ یعنی مضامین خیالی شاعرانہ نثر میں یا نظم میں کہنا ان لوگوں کا طریقہ ہے جو مسلک تحقیق سے دور ہوں آگے اس دعویٰ کی وضاحت ہے کہ) اے مخاطب کیا تم کو معلوم نہیں کہ وہ (شاعر) لوگ (خیالی مضامین) کے ہر میدان میں حیران (ٹکریں مارتے تلاش مضامین میں) پھرا کرتے ہیں اور (جب مضمون مل جاتا ہے تو چونکہ اکثر خلاف واقعہ ہوتا ہے اس لئے) زبان سے وہ باتیں کہتے ہیں جو کرتے نہیں (چنانچہ شاعروں کی گپوں کا ایک نمونہ لکھا جاتا ہے۔- اے رشک مسیحا تری رفتار کے قرباں ٹھوکر سے مری لاش کئی بار جلا دی - اے باد صبا ہم تجھے کیا یاد کریں گے اس گل کی خبر تو نے کبھی ہم کو نہ لا دی - صبا نے اس کے کوچہ سے اڑا کر خدا جانے ہماری خاک کیا کی، وغیرہ وغیرہ، حتی کہ کبھی کفریات بکنے لگتے ہیں۔ حاصل جواب کا یہ ہوا کہ مضامین شعریہ کے لئے خیالی اور غیر متحقق ہونا لازمی ہے اور مضامین قرآنیہ جس باب سے بھی متعلق ہیں سب کے سب تحقیقی، غیر خیالی ہیں اس لئے آپ کو شاعر کہنا سوائے جنن شاعرانہ کے اور کیا ہے حتی کہ اکثر چونکہ نظم میں ایسے ہی مضامین ہوا کرتے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نظم پر قدرت بھی نہیں دی اور اوپر چونکہ شعراء کی مذمت ارشاد ہوئی ہے جس کے عموم میں بظاہر سب نظم کہنے والے آگئے، گو ان کے مضامین عین حکمت اور تحقیق ہوں اس لئے آگے ان کا استثناء فرماتے ہیں کہ) ہاں مگر جو لوگ (ان شاعروں میں سے) ایمان لائے اور اچھے اچھے کام کئے (یعنی شرع کے خلاف نہ ان کا قول ہے نہ فعل، یعنی ان کے اشعار میں بیہودہ مضامین نہیں ہیں) اور انہوں نے (اپنے اشعار میں) کثرت سے اللہ کا ذکر کیا (یعنی تائید دین اور اشاعت علم میں ان کے اشعار ہیں کہ یہ سب ذکر اللہ میں داخل ہیں) اور (اگر کسی شعر میں بظاہر کوئی نامناسب مضمون بھی ہے جیسے کسی کی ہجو اور مذمت جو بظاہر اخلاق حسنہ کے خلاف ہے تو اس کی وجہ بھی یہ ہے کہ) انہوں نے بعد اس کے کہ ان پر ظلم ہوچکا ہے (اس کا) بدلہ لیا (ہے یعنی کفار یا فساق نے اول ان کو زبانی تکلیف پہنچائی، مثلاً ان کی ہجو کی یا دین کی توہین کی جو اپنی ہجو سے بھی بڑھ کر تکلیف کا سبب ہے، یا ان کے مال کو یا جان کو ضرر پہنچایا، یعنی یہ لوگ مستثنی ہیں کیونکہ ا نتقامی طور پر جو شعر کہے گئے ہیں ان میں بعض تو مباح ہیں اور بعضے اطاعت و کار ثواب ہیں) اور (یہاں تک رسالت کے متعلق شبہات کے جوابات پورے ہوئے اور اس سے پہلے رسالت دلائل سے ثابت ہوچکی تھی اب آگے ان لوگوں کی وعید ہے جو اس کے باوجود منکر نبوت رہے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذاء پہنچاتے ہیں یعنی) عنقریب ان لوگوں کو معلوم ہوجاوے گا جنہوں نے (حقوق اللہ، حقوق الرسول یا حقوق العباد میں) ظلم کر رکھا ہے کہ کیسی (بری اور مصیبت کی) جگہ ان کو لوٹ کر جانا ہے (مراد اس سے جہنم ہے۔ )

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِنَّہٗ لَتَنْزِيْلُ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝ ١٩٢ۭ- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - عالَمُ- والعالَمُ : اسم للفلک وما يحويه من الجواهر والأعراض، وهو في الأصل اسم لما يعلم به کالطابع والخاتم لما يطبع به ويختم به، وجعل بناؤه علی هذه الصّيغة لکونه کا لآلة، والعَالَمُ آلة في الدّلالة علی صانعه، ولهذا أحالنا تعالیٰ عليه في معرفة وحدانيّته، فقال : أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 185] ، وأمّا جمعه فلأنّ من کلّ نوع من هذه قد يسمّى عالما، فيقال : عالم الإنسان، وعالم الماء، وعالم النّار، وأيضا قد روي : (إنّ لله بضعة عشر ألف عالم) «1» ، وأمّا جمعه جمع السّلامة فلکون النّاس في جملتهم، والإنسان إذا شارک غيره في اللّفظ غلب حكمه، وقیل : إنما جمع هذا الجمع لأنه عني به أصناف الخلائق من الملائكة والجنّ والإنس دون غيرها . وقد روي هذا عن ابن عبّاس «2» . وقال جعفر بن محمد : عني به النّاس وجعل کلّ واحد منهم عالما «3» ، وقال «4» : العَالَمُ عالمان الکبير وهو الفلک بما فيه، والصّغير وهو الإنسان لأنه مخلوق علی هيئة العالم، وقد أوجد اللہ تعالیٰ فيه كلّ ما هو موجود في العالم الکبير، قال تعالی: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة 1] ، وقوله تعالی: وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعالَمِينَ [ البقرة 47] ، قيل : أراد عالمي زمانهم . وقیل : أراد فضلاء زمانهم الذین يجري كلّ واحد منهم مجری كلّ عالم لما أعطاهم ومكّنهم منه، وتسمیتهم بذلک کتسمية إبراهيم عليه السلام بأمّة في قوله : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً [ النحل 120] ، وقوله : أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعالَمِينَ [ الحجر 70] .- العالم فلک الافلاک اور جن جواہر واعراض پر حاوی ہے سب کو العالم کہا جاتا ہے دراصل یہ فاعل کے وزن - پر ہے جو اسم آلہ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے طابع بہ ۔ مایطبع بہ خاتم مایختم بہ وغیرہ اسی طرح عالم بھی ہے جس کے معنی ہیں ماعلم بہ یعنی وہ چیز جس کے ذریعہ کسی شے کا علم حاصل کیا جائے اور کائنات کے ذریعہ بھی چونکہ خدا کا علم حاصل ہوتا ہے اس لئے جملہ کائنات العالم کہلاتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ذات باری تعالیٰ کی وحدانیت کی معرفت کے سلسلہ میں کائنات پر غور کرنے کا حکم دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 185] کیا انہوں نے اسمان اور زمین گی بادشاہت پر غور نہیں کیا ۔ اور العالم کی جمع ( العالمون ) اس لئے بناتے ہیں کہ کائنات کی ہر نوع اپنی جگہ ایک مستقلی عالم عالم کی حیثیت رکھتی ہے مثلا عالم الاانسان؛عالم الماء وعالمالناروغیرہ نیز ایک روایت میں ہے ۔ ان اللہ بضعتہ عشر الف عالم کہ اللہ تعالیٰ نے دس ہزار سے کچھ اوپر عالم پیدا کئے ہیں باقی رہا یہ سوال کہ ( واؤنون کے ساتھ ) اسے جمع سلامت کے وزن پر کیوں لایا گیا ہے ( جو ذدی العقول کے ساتھ مختص ہے ) تو اس کا جواب یہ ہے کہ عالم میں چونکہ انسان بھی شامل ہیں اس لئے اس کی جمع جمع سلامت لائی گئی ہے کیونکہ جب کسی لفظ میں انسان کے ساتھ دوسری مخلوق بھی شامل ہو تو تغلیبا اس کی جمع واؤنون کے ساتھ بنالیتے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ چونکہ لفظ عالم سے خلائق کی خاص قسم یعنی فرشتے جن اور انسان ہی مراد ہیں جیسا کہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے ۔ اس لئے اس کی جمع واؤنون کے ساتھ لائی گئی ہے امام جعفر بن محمد کا قول ہے کہ عالیمین سے صرف انسان مراد ہیں اور ہر فرد بشر کو ایک عالم قرار دے کر اسے جمع لایا گیا ہے ۔ نیز انہوں نے کہا ہے کہ عالم دو قسم پر ہے ( 1 ) العالم الکبیر بمعنی فلک دمافیہ ( 2 ) العالم اصغیر یعنی انسان کیونکہ انسان کی تخلیق بھی ایک مستقل عالم کی حیثیت سے کی گئی ہے اور اس کے اندر قدرت کے وہ دلائل موجود ہیں جا عالم کبیر میں پائے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعالَمِينَ [ الحجر 70] کیا ہم نے تم کو سارے جہاں ( کی حمایت وطر فداری سے ) منع نہیں کیا الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة 1] سب تعریف خدا ہی کو سزا وار ہے جو تمام مخلوقات کو پروردگار ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعالَمِينَ [ البقرة 47] کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ تم یعنی بنی اسرائیل کو ان کی ہمعصراز قوام پر فضیلت دی اور بعض نے اس دور کے فضلا مراد لئے ہیں جن میں سے ہر ایک نواز شات الہٰی کی بدولت بمنزلہ ایک عالم کے تھا اور ان کو عالم سے موسم کرنا ایسے ہی ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً [ النحل 120] بیشک حضرت ابراہیم ایک امہ تھے میں حضرت ابراہیم کو امۃ کہا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے : (وانہ لتنزیل رب العالمین۔ اور یہ رب العالمین کی نازل کردہ چیز ہے۔ ) تا قول باری (وانہ لفی زبر الاولین۔ اور اگلے لوگوں کی کتابوں میں بھی یہ موجود ہے۔ )- اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے بارے میں بتادیا کہ رب العالمین کی نازل کردہ ہے اور پھر یہ خبر دی کہ یہ اگلے لوگوں کی کتابوں میں بھی موجود ہے۔ اب یہ بات تو سب کو معلوم ہے کہ قرآن اگلے لوگوں کی کتابوں میں عربی زبان کے اندر موجود نہیں تھا۔ اس سے یہ استدلال کیا جاسکتا ہے کہ قرآن کو کسی اور زبان میں منتقل کرنے سے اس کی قرآنیت ختم نہیں ہوتی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے علی الاطلاق یہ فرمادیا کہ قرآن اگلے لوگوں کی کتابوں میں موجود تھا حالانکہ ان کتابوں میں اس کا وجود عربی زبان کے سوا اور زبانوں میں ہوگا۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٩٢ تا ١٩٤) اور یہ قرآن رب العالمین کا بھیجا ہوا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے امانت دار فرشتہ جبریل امین (علیہ السلام) کے ذریعے آپ کے قلب مبارک پر اتارا جس قدر آپ اس کو محفوظ رکھ سکیں۔- یا یہ کہ جس وقت آپ کے سامنے اس کی تلاوت کی جائے صاف عربی زبان میں کہ آپ ان لوگوں کو ان کی زبان میں یہ کلام پہنچا دیں تاکہ آپ بھی منجملہ اور ڈرانے والوں کے ہوں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :118 تاریخی بیان ختم کر کے اب سلسلہ کلام اسی مضمون کی طرف پھرتا ہے جس سے سورۃ کا آغاز فرمایا گیا تھا ۔ اس کو سمجھنے کے لیے ایک دفعہ پھر پلٹ کر پہلے رکوع کو دیکھ لینا چاہیے ۔ سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :119 یعنی یہ کتاب مبین جس کی آیات یہاں سنائی جا رہی ہیں ، اور یہ ذکر جس سے لوگ منہ موڑ رہے ہیں کسی انسان کی من گھڑت چیز نہیں ہے ، اسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے خود تصنیف نہیں کر لیا ہے ، بلکہ یہ رب العالمین کی نازل کردہ ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani