19 3 1کفار مکہ نے قرآن کے وحی الٰہی اور منزل من اللہ ہونے کا انکار کیا اور اسی بنا پر رسالت محمدیہ اور دعوت محمدیہ کا انکار کیا۔ اللہ تعالیٰ نے انبیا (علیہم السلام) کے واقعات بیان کرکے یہ واضح کیا کہ یہ قرآن یقینا وحی الٰہی ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے سچے رسول ہیں۔ کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ پیغمبر جو پڑھ سکتا ہے نہ لکھ سکتا ہے گزشتہ انبیاء اور قوموں کے واقعات کس طرح بیان کرسکتا تھا ؟ اس لئے یہ قرآن یقینا اللہ رب العالمین ہی کی طرف سے نازل کردہ ہے جسے ایک امانت دار فرشتہ جبرائیل (علیہ السلام) لے کر آئے۔
[١١٢] یعنی یہ قرآن اور اس میں بیان کردہ یہ تاریخی واقعات اس اللہ رب العالمین کی طر سے نازل شدہ ہیں جو عام الغیب والشہادۃ ہے۔ پھر ان قرآنی آیات کو لے کر امین روح یعنی جبریل (علیہ السلام) نازل ہوئے۔ جو اپنی طرف سے کچھ کمی بیشی نہیں کرسکتے۔ پھر جب بھیجنے والا غیب اور شہادت کو پوری طرح جانتا ہو اور اس کو لانے والا بھی امین ہو تو ان آیات کے منبی بر حقائق ہونے میں شک کی کوئی گنجائش رہ جاتی ہے۔
نَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِيْنُ : ” الرُّوْحُ “ سے مراد فرشتہ ہے، اسے ” روح “ اس لیے کہا گیا ہے کہ فرشتے عالم اجسام کے بجائے عالم ارواح سے تعلق رکھتے ہیں۔ (ابن عاشور) ” الْاَمِيْنُ “ نہایت امانت دار، اس سے مراد جبریل (علیہ السلام) ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انھیں انبیاء تک اپنا پیغام پہنچانے کے لیے امین قرار دیا ہے۔ ان کی یہ صفت اور دوسری صفات سورة تکویر (١٩ تا ٢١) میں ملاحظہ فرمائیں۔
معارف و مسائل - نَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِيْنُ ، عَلٰي قَلْبِكَ لِتَكُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِيْنَ ، بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُّبِيْنٍ ، وَاِنَّهٗ لَفِيْ زُبُرِ الْاَوَّلِيْنَ ۔- قرآن اس کے الفاظ و معانی کے مجموعہ کا نام ہے :- آیات مذکورہ میں بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُّبِيْنٍ سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن وہی ہے جو عربی زبان میں ہو، کسی مضمون قرآن کا ترجمہ خواہ کسی زبان میں ہو وہ قرآن نہیں کہلائے گا اور وَاِنَّهٗ لَفِيْ زُبُرِ الْاَوَّلِيْنَ کے الفاظ سے بظاہر اس کے خلاف یہ معلوم ہوتا ہے کہ معانی قرآن جو کسی دوسری زبان میں بھی ہوں وہ بھی قرآن ہیں، کیونکہ انہ کی ضمیر ظاہر یہ ہے کہ قرآن کی طرف راجع ہے اور زبر، زبور کی جمع ہے جس کے معنے ہیں کتاب۔ معنے آیت کے یہ ہوئے کہ قرآن کریم سابقہ کتابوں میں بھی ہے اور یہ ظاہر ہے پچھلی کتابیں تورات انجیل زبور وغیرہ عربی زبان میں نہیں تھیں تو صرف معانی قرآن کے ان میں مذکور ہونے کو اس آیت میں کہا گیا ہے کہ قرآن پچھلی کتابوں میں بھی ہے اور حقیقت جس پر جمہور امت کا عقیدہ ہے وہ یہ ہے کہ صرف مضامین قرآن کو بھی بعض اوقات تو سعاً قرآن کہہ دیا جاتا ہے کیونکہ اصل مقصود کسی کتاب کا اس کے مضامین ہی ہوتے ہیں۔ کتب اولین میں قرآن کا مذکور ہونا بھی اسی حیثیت سے ہے کہ بعض مضامین قرآنیہ ان میں بھی مذکور ہیں اس کی تائید بہت سی روایات حدیث سے بھی ہوتی ہے۔- مستدرک حاکم میں حضرت معقل بن یسار کی حدیث ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھے سورة بقرہ ذکر اول سے دی گئی ہے اور سورة طہ اور طواسین یعنی جتنی سورتیں طس سے شروع ہوتی ہیں اور حوامیم یعنی جو سورتیں حم سے شروع ہیں یہ سب سورتیں الواح موسیٰ میں سے دی گئی ہیں اور سورة فاتحہ مجھے تحت عرش سے دی گئی ہے۔ اور طبرانی، حاکم، بیہقی وغیرہ نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت کیا ہے کہ سورة ملک تورات میں موجود ہے۔ الحدیث، اور سورة سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى میں تو خود قرآن کی تصریح یہ ہے اِنَّ هٰذَا لَفِي الصُّحُفِ الْاُوْلٰى، صُحُفِ اِبْرٰهِيْمَ وَمُوْسٰى یعنی یہ مضامین سورت حضرت ابراہیم اور موسیٰ (علیہما السلام) کے صحیفوں میں بھی ہیں لیکن تمام آیات و روایات کا حاصل یہی ہے کہ بہت سے مضامین قرآن کتب سابقہ میں بھی موجود تھے۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان مضامین کی وجہ سے کتب سابقہ کے حصوں کو جن میں یہ مضامین قرآن آئے ہیں قرآن کا نام دے دیا جائے۔ نہ امت میں کوئی اس کا قائل ہے کہ ان صحیفوں اور کتابوں کو جن میں مضامین قرآن مذکور ہیں قرآن کہا جائے۔ بلکہ عقیدہ جمہور امت کا یہی ہے کہ قرآن نہ صرف الفاظ قرآن کا نام ہے نہ صرف معانی قرآن کا۔ اگر کوئی شخص قرآن ہی کے الفاظ مختلف جگہوں سے چن کر ایک عبارت بنا دے مثلاً کوئی یہ عبارت بنالے الحمد للہ العزیز الرحیم۔ الذی لہ ملک السموت و ھو رب العلمین خالق کل شئی وھو المستعان یہ سارے الفاظ قرآن ہی کے ہیں مگر اس عبارت کو کوئی قرآن نہیں کہہ سکتا۔ اسی طرح صرف معانی قرآن جو کسی دوسری زبان میں بیان کئے جائیں وہ بھی قرآن نہیں۔- نماز میں ترجمہ قرآن پڑھنا باجماع امت ناجائز ہے :- اسی وجہ سے امت کا اس پر اتفاق ہے کہ نماز میں فرض تلاوت کی جگہ قرآن کے الفاظ کا ترجمہ کسی زبان فارسی، اردو، انگریزی میں پڑھ لینا بدون اضطرار کے کافی نہیں۔ بعض ائمہ سے جو اس میں توسع کا قول منقول ہے ان سے بھی اپنے اس قول سے رجوع ثابت ہے۔- قرآن کے اردو ترجمہ کو اردو قرآن کہنا جائز نہیں :- اسی طرح قرآن کا صرف ترجمہ کسی زبان میں بغیر عربی متن کے لکھا جائے تو اس کو اس زبان کا قرآن کہنا جائز نہیں۔ جیسے آج کل بہت سے لوگ صرف اردو ترجمہ قرآن کو اردو کا قرآن اور انگریزی کو انگریزی کا قرآن کہہ دیتے ہیں یہ ناجائز اور بےادبی ہے قرآن کو بغیر متن عربی کے کسی دوسری زبان میں بنام قرآن شائع کرنا اور اس کی خریدو فروخت سب ناجائز ہے اس مسئلہ کی پوری تفصیل احقر کے رسالہ " تحذیر الاخوان عن تغییر رسم القرآن " میں مذکور ہے۔
نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِيْنُ ١٩٣ۙ- روح ( فرشته)- وسمّي أشراف الملائكة أَرْوَاحاً ، نحو : يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلائِكَةُ صَفًّا[ النبأ 38] ، تَعْرُجُ الْمَلائِكَةُ وَالرُّوحُ [ المعارج 4] ، نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] ، سمّي به جبریل، وسمّاه بِرُوحِ القدس في قوله : قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ [ النحل 102] ، وَأَيَّدْناهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ [ البقرة 253] ، وسمّي عيسى عليه السلام روحاً في قوله : وَرُوحٌ مِنْهُ [ النساء 171] ، وذلک لما کان له من إحياء الأموات، وسمّي القرآن روحاً في قوله : وَكَذلِكَ أَوْحَيْنا إِلَيْكَ رُوحاً مِنْ أَمْرِنا [ الشوری 52] ، وذلک لکون القرآن سببا للحیاة الأخرويّة الموصوفة في قوله : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] ، والرَّوْحُ التّنفّس، وقد أَرَاحَ الإنسان إذا تنفّس . وقوله : فَرَوْحٌ وَرَيْحانٌ [ الواقعة 89]- روح - اور قرآن نے ذو شرف ملائکہ کو بھی ارواح سے موسوم کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلائِكَةُ صَفًّا[ النبأ 38] جس روز کہ روح فرشتہ اور دیگر ملائکہ صفیں باندھ کھڑے ہوں گے ۔ تَعْرُجُ الْمَلائِكَةُ وَالرُّوحُ [ المعارج 4] فرشتے اور جبریل اس کی طرف چڑھتے ہیں ۔ اور اٰت کریمہ : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اسے روح امین لے کر اترا ۔ میں روح امین سے مراد جبریل (علیہ السلام) ہیں ۔ اور دوسری آیت میں جبریل (علیہ السلام) کو روح القدس بھی کہا ہے ۔ جیسے فرمایا : قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ [ النحل 102] اس قرآن کو روح القدس لے کر آتے ہیں ۔ قرآن نے حضرت عیٰسی (علیہ السلام) کو روح کہہ کر پکارا ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَرُوحٌ مِنْهُ [ النساء 171] اور وہ ایک روح تھی جو خدا کی طرف سے آئی اور عیٰسی کو روح اس لئے کہا ہے کہ وہ دو مردوں کو زندہ کرتے تھے ۔ اور قرآن کو بھی روح کہا گیا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَكَذلِكَ أَوْحَيْنا إِلَيْكَ رُوحاً مِنْ أَمْرِنا [ الشوری 52] اس طرح ہم نے اپنے حکم سے ( دین کی ) جان ( یعنی یہ کتاب) تمہاری طرف وحی کے ذریعہ بھیجی ۔ اس لئے قرآن سے حیات اخردی حاصل ہوتی ہے جس کے متعلق فرمایا : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] اور دار آخرت کی زندگی ہی اصل زندگی ہے ۔ اور روح ( بفتح الراء ) کے معنی سانس کے ہیں اور اراح الانسان کے معنی تنفس یعنی سانس لینے کے اور آیت : فَرَوْحٌ وَرَيْحانٌ [ الواقعة 89] توراحت اور مذاق ہے ۔ میں ریحان سے خوشبودار چیزیں مراد ہیں اور بعض نے رزق مراد لیا ہے ۔
آیت ١٩٣ (نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُ ) ” - ” الرُّوْحُ الْاَمِیْنُ “ (امانت دار روح) سے مراد جبریل امین ( علیہ السلام) ہیں۔
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :120 مراد ہیں جبریل علیہ السلام ، جیسا کہ دوسری جگہ قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے : قُلْ مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِیْلَ فَاِنَّہ نَزَّلَہ عَلیٰ قَلْبِکَ بِاِذْنِ اللہِ ۔ ( البقرہ ۔ آیت 97 ) ۔ کہہ دے کہ جو کوئی دشمن ہے جبریل علیہ السلام کا تو اسے معلوم ہو کہ اسی نے یہ قرآن اللہ کے حکم سے تیرے دل پر نازل کیا ہے ۔ یہاں ان کا نام لینے کے بجائے ان کے لیے روح امین ( امانت دار روح ) کا لقب استعمال کرنے سے یہ بتانا مقصود ہے کہ رب العالمین کی طرف سے اس تنزیل کو لے کر کوئی مادی طاقت نہیں آئی ہے جس کے اندر تغیر و تبدل کا امکان ہو ، بلکہ وہ ایک خالص روح ہے بلا شائبہ مادیت ، اور وہ پوری طرح امین ہے ، خدا کا پیغام جیسا اس کے سپرد کیا جاتا ہے ویسا ہی بلا کم و کاست پہنچا دیتی ہے ، اپنی طرف سے کچھ بڑھانا یا گھٹا دینا بطور خود کچھ تصنیف کر لینا اس کے لیے ممکن نہیں ہے ۔