Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1941دل کا بطور خاص اس لئے ذکر فرمایا کہ حواس باختہ میں دل ہے سب سے زیادہ ادراک اور حفظ کی قوت رکھتا ہے۔ 1942یعنی نزول قرآن کی علت ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١١٣] پھر یہی مبنی برحقائق آیات جبریل امین لے کر براہ راست آپ کے دل پر اس کلام کو نازل کرتے ہیں تاکہ آپ ایسے واقعات تمام لوگوں کو سنا کر نافرمانوں کو ان کے برے انجام سے بروقت متنبہ کردیں۔- واضح رہے وحی الٰہی تین صورتیں قرآن میں مذکور ہیں سب سے معروف شکل یہ ہے کہ جبریل پیغمبر کے دل پر نازل ہو کر وحی کے الفاظ پیغمبر میں ڈال دے اس صورت میں پیغمبر رشتہ عالم دنیا سے کٹ کر عالم بالا جڑ جاتا ہے۔ وحی کے دوران پیغمبر کے حواس ظاہری کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ اور قلبی حواس کام کرنے لگ جاتے ہیں۔ پیغمبر دل کی آنکھ سے فرشتہ کو دیکھتا ہے۔ دل کے کانوں سے وحی سنتا ہے۔ بالفاظ دیگر وحی کے دوران پیغمبر کوش بشریت سے کٹ کر ملکیت کی طرف۔۔ کرتا ہے۔ لہذا وحی کی یہ شکل جسمانی لحاظ سے آپ کے لئے نہایت تکلیف دہ ہوتی تھی۔ شدید قسم کا بوجھ آپ پر پڑجاتا تھا اور حالت غیر ہوجاتی تھی اور اس بوجھ کو وہ جاندار بھی محسوس کرتے تھے جن کا جسم آپ کے جسم سے لگا ہوتا تھا۔ چناچہ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے آپ سے پوچھا : یارسول اللہ آپ پر وحی کیسے آتی ہے ؟ آپ نے فرمایا۔ کبھی تو ایسے آتی ہے جیسے گھنٹے کی جھنکار اور یہ وحی مجھ پر بہت سخت گزرتی ہے۔ پھر جب فرشتے کا کہا مجھ کو یاد ہوجاتا تو یہ موقوف ہوجاتی ہے۔ اور کبھی فرشتہ مرد کی صورت میں میرے پاس آتا ہے، مجھ سے بات کرتا ہے میں اس کا کہا یاد کرلیتا ہوں۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں میں نے آپ کو اس حال میں دیکھا کہ سخت سردی کے دن پر آپ پر وحی اترتی پھر موقوف ہوجاتی اور آپ کی پیشانی سے پسینہ نکلتا (بخاری۔ کتاب الوحی۔ باب کیف کان بدء الوحی (- نیز حضرت زید بن ثابت (رض) فرماتے ہیں کہ آپ نے مجھے جب یہ آیت لکھنے کو کہا : (لَا يَسْتَوِي الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ غَيْرُ اُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجٰهِدُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ بِاَمْوَالِهِمْ وَاَنْفُسِهِمْ ۭ فَضَّلَ اللّٰهُ الْمُجٰهِدِيْنَ بِاَمْوَالِهِمْ وَاَنْفُسِهِمْ عَلَي الْقٰعِدِيْنَ دَرَجَةً ۭ وَكُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰي ۭ وَفَضَّلَ اللّٰهُ الْمُجٰهِدِيْنَ عَلَي الْقٰعِدِيْنَ اَجْرًا عَظِيْمًا 95؀ۙ ) 4 ۔ النسآء :95) اس وقت عبداللہ بن ام مکتوم) جو نابینا تھے ( نے آپ کے پاس آکر کہا کہ یارسول اللہ اگر مجھے جہاد کی طاقت ہوتی تو میں ضرور جہاد کرتا۔ اسی وقت اللہ نے آپ پر وحی نازل فرمائی۔ اس وقت آپ کی ران میری ران پر تھی آپ کی ران اتنی بوجھل ہوگئی کہ مجھے خطرہ محسوس ہوا کہ نیچے سے میری ران ٹوٹ جائے گی پھر جب وحی کی کیفیت موقوف ہوئی تو اللہ نے غیر اولی الفرد بھی نازل فرمایا : (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ سورة نسائ) - وحی کی دوسری صورتوں کے لئے دیکھئے سورة شوریٰ کی آیت نمبر ٥١ کا حاشیہ - وحی کی اس قسم کو وحی جلی کہتے ہیں۔ قرآن کریم سارے کا سارا وحی جلی کی صورت میں نازل ہوا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ وحی جلی ساری کی ساری قرآن میں محصور ہے۔ ایسی ہی وحی کا تھوڑا بہت حصہ احادیث میں بھی مذکور ہے۔ مثلاً زنا کی سزا سے متعلق عبادہ بن صامت کی مرفوع روایت کہ خذوا عنی خذوا عنی قد حبل لھن سبیلا عبادہ بن صامت کہتے ہیں کہ اس وحی کے نزول کے وقت آپ پر وہی کیفیت طاری ہوئی جو قرآن کی وحی کے نزول کے وقت طاری ہوتی تھی ) مسلم۔ کتاب الحدود۔ باب حد الزنا (

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

عَلٰي قَلْبِكَ : دوسری جگہ فرمایا : (قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيْلَ فَاِنَّهٗ نَزَّلَهٗ عَلٰي قَلْبِكَ بِاِذْنِ اللّٰهِ ) [ البقرۃ : ٩٧ ] ” کہہ دے جو کوئی جبریل کا دشمن ہو تو بیشک اس نے یہ کتاب تیرے دل پر اللہ کے حکم سے اتاری ہے۔ “ یعنی اس قرآن مجید کو جبریل (علیہ السلام) نے کانوں کے ذریعے سے آپ کو سنانے کے بجائے آپ کے دل پر نازل کیا ہے۔ اگرچہ کانوں نے بھی دل ہی کو بات پہچانی ہے، مگر بلاواسطہ دل پر نازل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اسے سمجھنے میں اور یاد رکھنے میں کوئی کمی نہ رہے، جیسا کہ فرمایا : (سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنْسٰٓى اِلَّا مَا شَاۗءَ اللّٰهُ ) [ الأعلٰی : ٦، ٧ ] ” ہم ضرور تجھے پڑھائیں گے تو تو نہیں بھولے گا، مگر جو اللہ چاہے۔ “ اور دیکھیے سورة قیامہ (١٦ تا ١٩) ۔- لِتَكُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِيْنَ : یہ کہنے کے بجائے کہ ” تاکہ تو ڈرانے والا بن جائے “ فرمایا ” تاکہ تو انبیاء و رسل کی عظیم الشان جماعت میں شامل ہوجائے “ کیونکہ اس میں آپ کی زیادہ عظمت کا اظہار ہے۔ اگرچہ رسول ” نذیر “ بھی ہوتے ہیں اور ” بشیر “ بھی، مگر یہاں ” منذر “ ہونے کا ذکر اس لیے فرمایا کہ اس سورت کا سارا بیان ہی انبیاء کے اپنی اقوام کو ڈرانے پر مشتمل ہے اور جیسا کہ پہلے گزرا کہ جب تک کسی شخص یا قوم کو اپنے غلط راستے پر چلنے کے خوفناک نتائج سے آگاہ نہ کیا جائے اس کا راہ راست پر آنا مشکل ہوتا ہے، اس لیے ہر پیغمبر نے اپنی بات کا آغاز ” اَلَا تَتَّقُوْنَ “ سے فرمایا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

عَلٰي قَلْبِكَ لِتَكُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِيْنَ۝ ١٩٤ۙ- قلب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] .- ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ - نذر - وَالإِنْذارُ : إخبارٌ فيه تخویف، كما أنّ التّبشیر إخبار فيه سرور . قال تعالی: فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل 14]- والنَّذِيرُ :- المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح 2] - ( ن ذ ر ) النذر - الا نذار کے معنی کسی خوفناک چیز سے آگاہ کرنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل تبشیر کے معنی کسی اچھی بات کی خوشخبری سنا نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل 14] سو میں نے تم کو بھڑکتی آگ سے متنبہ کردیا ۔- النذ یر - کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٩٤ (عَلٰی قَلْبِکَ لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ ) ” - میں نے قبل ازیں بھی بار ہا یہ ذکر کیا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات میں اصل مہبط وحی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قلب مبارک تھا اور قلب مبارک کے اندر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روح وحی کو قبول ( ) کرتی تھی۔ انسانی علم کے حوالے سے یہ بات بھی گزشتہ سطور میں کئی دفعہ دہرائی جا چکی ہے کہ بنیادی طور پر انسانی علم کی دو اقسام ہیں۔ ایک علم تو وہ ہے جو انسان کو اس کے حواس خمسہ کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔ یہ اکتسابی علم ( ) ہے جس کے لیے ہر انسان کوشش اور محنت کرتا ہے۔ اس علم کے حصول کا طریقہ یہ ہے کہ انسان حواس خمسہ سے معلومات حاصل کرکے انہیں کرنیکے لیے دماغ یا عقل (قرآن میں انسان کی اس صلاحیت کے لیے ” فواد “ کا لفظ استعمال ہوا ہے) کے حوالے کرتا ہے۔ شخصی اور اجتماعی سطح پر یہ علم مسلسل ارتقاء پذیر ہے۔ دوسرا علم وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے براہ راست انسانی قلب یا روح پر نازل ہوتا ہے۔ اس کی سب سے محفوظ اور مصدقہّ صورت وحی کی ہے جو فرشتے کے ذریعے صرف انبیاء کرام ( علیہ السلام) پر نازل ہوتی تھی اور اسے شیاطین کی دخل اندازی سے مکمل طور پر محفوظ رکھا جاتا تھا۔ البتہ وحی کا دروازہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد ہمیشہ کے لیے بند ہوچکا ہے۔ اس قسم کے براہ راست علم (وہبی علم) کی جو صورتیں عام انسانوں کے لیے ممکن ہوسکتی ہیں ان میں الہام ‘ القاء ‘ کشف ‘ رؤیائے صادقہ (سچے خواب) وغیرہ شامل ہیں۔ لیکن ان میں سے کسی ذریعے سے حاصل ہونے والا علم دین اور شریعت میں حجت نہیں بن سکتا۔ دین اور شریعت میں حجت صرف قرآن اور سنت ہی ہیں۔ البتہ کسی کے ذاتی کشف کے ذریعے حاصل ہونے والی معلومات یا ہدایات اگر شریعت کے خلاف نہ ہوں تو خود اس شخص کے لیے حجت بن سکتی ہیں ‘ کسی دوسرے کے لیے نہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani