Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١١٤] یعنی یہ وحی جو جبریل امین لے کر آپ کے دل پر اترا ہے بڑی فصیح، واضح اور شگفتہ زبان میں ہے۔ یہ اس لئے کہ آپ کی قوم عربی زبان بھی بولتی ہے اور سمجھتی ہے۔ اور اس کا مقصد یہ ہے کہ آپ جب انھیں ان کے انجام سے خبردار کریں تو بات پوری طرح ان کی سمجھ میں آسکے۔ یہ واضح رہے کہ وحی جلی کے الفاظ بھی من جانب اللہ القا ہوتے ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ : معلوم ہوا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صرف قرآن مجید کے مفہوم و معانی نازل نہیں ہوئے کہ آپ نے انھیں الفاظ کا جامہ پہنایا ہو، بلکہ یہ عربی زبان کے الفاظ کی صورت میں آپ پر نازل ہوا ہے۔ بعض لوگ اللہ تعالیٰ کے الفاظ کے ساتھ کلام کرنے کے منکر ہیں، یہ آیت اور دوسری بہت سی آیات ان کا رد کرتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ عربی زبان میں اللہ تعالیٰ کا معجز کلام ہے جو اللہ تعالیٰ کا امتیاز ہے، ساری مخلوق جمع ہو کر بھی صرف معانی ہی نہیں اس کے الفاظ کی مثال لانے سے بھی عاجز ہے۔ - مُّبِيْنٍ : یعنی منکرین کا اس پر ایمان نہ لانا اس کے بیان میں کسی خامی کی وجہ سے نہیں بلکہ خود ان کی نااہلی یا ہٹ دھرمی کی وجہ سے ہے، کیونکہ یہ تمام زبانوں سے فصیح زبان عربی میں ہے اور اس عربی میں جو معمے یا پہیلی کی زبان نہیں بلکہ ” عربی مبین “ ہے، اس میں کوئی ایسا لفظ یا ایسی ترکیب نہیں جو عرب میں کثرت سے مستعمل نہ ہو، یا معنی کی ادائیگی میں اس کے اندر کوئی کمی ہو۔ جو لوگ اس پر ایمان نہیں لا رہے ان کے پاس یہ عذر ہرگز نہیں کہ ہم اسے سمجھ نہیں سکے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُّبِيْنٍ۝ ١٩٥ۭ- لسن - اللِّسَانُ : الجارحة وقوّتها، وقوله : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي [ طه 27] يعني به من قوّة لسانه، فإنّ العقدة لم تکن في الجارحة، وإنما کانت في قوّته التي هي النّطق به، ويقال : لكلّ قوم لِسَانٌ ولِسِنٌ بکسر اللام، أي : لغة . قال تعالی: فَإِنَّما يَسَّرْناهُ بِلِسانِكَ [ الدخان 58] ، وقال : بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ [ الشعراء 195] ، وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ- [ الروم 22] فاختلاف الْأَلْسِنَةِ إشارة إلى اختلاف اللّغات، وإلى اختلاف النّغمات، فإنّ لكلّ إنسان نغمة مخصوصة يميّزها السّمع، كما أنّ له صورة مخصوصة يميّزها البصر .- ( ل س ن ) اللسان - ۔ زبان اور قوت گویائی کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي [ طه 27] اور میری زبان کی گرہ گھول دے ۔ یہاں لسان کے معنی قلت قوت گویائی کے ہیں کیونکہ وہ بندش ان کی زبان پر نہیں تھی بلکہ قوت گویائی سے عقدہ کشائی کا سوال تھا ۔ محاورہ ہے : یعنی ہر قوم را لغت دلہجہ جدا است ۔ قرآن میں ہے : فَإِنَّما يَسَّرْناهُ بِلِسانِكَ [ الدخان 58]( اے پیغمبر ) ہم نے یہ قرآن تمہاری زبان میں آسان نازل کیا ۔ بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ [ الشعراء 195] فصیح عربی زبان میں ۔ اور آیت کریمہ : وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ [ الروم 22] اور تمہاری زبانوں اور نگوں کا اختلاف ۔ میں السنہ سے اصوات اور لہجوں کا اختلاف مراد ہے ۔ چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح دیکھنے میں ایک شخص کی صورت دوسرے سے نہیں ملتی اسی طرح قوت سامعہ ایک لہجہ کو دوسرے سے الگ کرلیتی ہے ۔- عَرَبيُّ :- الفصیح البيّن من الکلام، قال تعالی: قُرْآناً عَرَبِيًّا[يوسف 2] ، وقوله : بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ- [ الشعراء 195] ،- العربی - واضح اور فصیح کلام کو کہتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ قُرْآناً عَرَبِيًّا[يوسف 2] واضح اور فصیح قرآن ( نازل کیا ) بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ [ الشعراء 195]

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٩٥ تا ١٩٧) اور اس قرآن کریم کا اور آپ کا ذکر پہلے انبیاء کرام (علیہ السلام) کی کتابوں میں بھی ہے۔- کیا ان کفار مکہ کے لیے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت پر یہ بات دلیل نہیں ہے کہ علماء بنی اسرائیل اس پیشین گوئی کو جانتے ہیں کہ جس وقت ان کفار نے علماء بنی اسرائیل سے آپ کے اور قرآن کریم کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے لوگوں کے بارے میں بتادیا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :121 اس فقرے کا تعلق امانت دار روح اتری ہے سے بھی ہو سکتا ہے اور متنبہ کرنے والے ہیں سے بھی ۔ پہلی صورت میں اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ امانت دار روح اسے صاف صاف عربی زبان میں لائی ہے ، اور دوسری صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان انبیاء میں شامل ہوں جنہیں عربی زبان میں خلق خدا کو متنبہ کرنے کے لیے مامور فرمایا گیا تھا ، یعنی ہود ، صالح ، اسماعیل اور شعیب علیہم السلام ۔ دونوں صورتوں میں مقصود کلام ایک ہی ہے ، اور وہ یہ کہ رب العالمین کی طرف سے یہ تعلیم کسی مردہ یا جنّاتی زبان میں نہیں آئی ہے ، نہ اس میں کوئی معمے یا چیستاں کی سی گنجلک زبان استعمال کی گئی ہے ، بلکہ یہ ایسی صاف اور فصیح عربی زبان میں ہے جس کا مفہوم و مدعا ہر عرب اور ہر وہ شخص جو عربی زبان جانتا ہو ، بے تکلف سمجھ سکتا ہے ۔ اس لیے جو لوگ اس سے منہ موڑ رہے ہیں ان کے لیے یہ عذر کرنے کا کوئی موقع نہیں ہے کہ وہ اس تعلیم کو سمجھ نہیں سکے ہیں ، بلکہ ان کے اعراض و انکار کی وجہ صرف یہ ہے کہ یہ اسی بیماری میں مبتلا ہیں جس میں فرعون مصر اور قوم ابراہیم اور قوم نوح اور قوم لوط اور عاد و ثمود اور اصحاب الایکہ مبتلا تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani