بشارت وتصدیق یافتہ کتاب فرماتا ہے کہ اللہ کی اگلی کتابوں میں بھی اس پاک اور اللہ کی آخری کلام کی پیشن گوئی اور اسکی تصدیق وصفت موجود ہے ۔ اگلے نبیوں نے بھی اسکی بشارت دی یہاں تک کہ ان تمام نبیوں کے آخری نبی جن کے بعد حضور علیہ السلام تک اور کوئی نبی نہ تھا ۔ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو جمع کر کے جو خطبہ دیتے ہیں اس میں فرماتے ہیں کہ اے بنی اسرائیل میں تمہاری جانب اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں جو اگلی کتابوں کو سچانے کے ساتھ ہی آنے والے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت تمہیں سناتا ہوں ۔ زبور حضرت داؤ دعلیہ السلام کی کتاب کا نام ہے یہاں زبر کا لفظ کتابوں کے معنی میں ہے جیسے فرمان ہے ۔ آیت ( وَكُلُّ شَيْءٍ فَعَلُوْهُ فِي الزُّبُرِ 52 ) 54- القمر:52 ) جو کچھ یہ کررہے ہیں سب کتابوں میں تحریر ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ اگر یہ سمجھیں اور ضد اور تعصب نہ کریں تو قرآن کی حقانیت پر یہی دلیل کیا کم ہے کہ خود بنی اسرائیل کے علماء اسے مانتے ہیں ۔ ان میں سے جو حق گو اور بےتعصب ہیں وہ توراۃ کی ان آیتوں کا لوگوں پر کھلے عام ذکر کر رہے ہیں جن میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت قرآن کا ذکر اور آپ کی حقانیت کی خبر ہے ۔ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان جیسے حق گو حضرات نے دنیا کے سامنے توراۃ وانجیل کی وہ آیتیں رکھ دیں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان والا شان کو ظاہر کرنے والی تھیں ۔ اس کے بعد کی آیت کا مطلب یہ ہے کہ اگر اس فصیح وبلیغ جامع بالغ حق کلام کو ہم کسی عجمی پر نازل فرماتے پھر بھی کوئی شک ہی نہیں ہوسکتا تھا کہ یہ ہمارا کلام ہے ۔ مگر مشرکین قریش اپنے کفر اور اپنی سرکشی میں اتنے بڑھ گئے ہیں کہ اس وقت بھی وہ ایمان نہ لاتے ۔ جیسے فرمان ہے کہ اگر آسمان کا دروازہ بھی ان کے لئے کھول دیا جاتا اور یہ خود چڑھ کر جاتے تب بھی یہی کہتے ہمیں نشہ پلادیا گیا ہے ۔ ہماری آنکھوں پر پردہ ڈال دیا گیا ہے ۔ اور آیت میں ہے اگر ان کے پاس فرشتے آجاتے اور مردے بول اٹھتے تب بھی انہیں ایمان نصیب نہ ہوتا ۔ ان پر عذاب کا کلمہ ثابت ہوچکا ، عذاب ان کا مقدر ہوچکا اور ہدایت کی راہ مسدود کردی گئی ۔
19 6 1یعنی جس طرح پیغمبر آخری زمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ظہور و بعث کا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات کا تذکرہ پچھلی کتابوں میں ہے، اسی طرح اس قرآن کے نزول کی خوشخبری بھی سابقہ آسمانی کتابوں میں دی گئی تھی۔ ایک دوسرے معنی یہ کئے گئے ہیں کہ یہ قرآن مجید، بہ اعتبار ان احکام کے، جن پر شریعتوں کا اتفاق رہا ہے، پچھلی کتابوں میں بھی موجود رہا ہے۔
[١١٥] اس آیت کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ آپ کے عرب قوم کی طرف مبعوث ہونے کی خبر سابقہ آسمانی کتابوں میں موجود ہے۔ ان کتابوں میں بہت سی تحریف و تبدل کے باوجود اب تک بھی اس قسم کی پیشین گوئیوں کا ایک ذخیرہ پایا جاتا ہے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اسی قرآن کے مضامین اجالاً یا تفصیلاً سابقہ آسمانی کتابوں میں پائے جاتے ہیں بالخصوص توحید، رسالت، ق اور تذکیر۔۔ اللہ اور آخرت سے متعلق دلائل اور تفصیل وغیرہ مضامین جن پر تمام کتب سماویہ اور انبیاء ومرسلین کا اتفاق رہا ہے۔
وَاِنَّهٗ لَفِيْ زُبُرِ الْاَوَّلِيْنَ :” زُبُرِ “ ” زَبُوْرٌ“ کی جمع ہے، جس کا معنی کتاب ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَكُلُّ شَيْءٍ فَعَلُوْهُ فِي الزُّبُرِ ) [ القمر : ٥٢ ] ” اور ہر چیز جسے انھوں نے کیا، وہ دفتروں میں درج ہے۔ “ اس آیت میں دو مفہوم شامل ہیں، ایک یہ کہ اس قرآن میں جو احکام و تعلیمات ہیں وہ پہلے انبیاء و رسل کی کتابوں میں بھی موجود ہیں۔ سب کتابیں اللہ کی توحید، آخرت، اس کے رسولوں پر ایمان اور ان کی اطاعت کے حکم پر مشتمل ہیں اور سب میں شرک اور اللہ اور اس کے رسولوں کی نافرمانی سے منع کیا گیا ہے، لہٰذا یہ کتاب کوئی انوکھی یا پہلی کتابوں سے الگ تعلیمات پر مشتمل نہیں ہے۔ - دوسرا مفہوم یہ ہے کہ اس قرآن کا تذکرہ پہلی کتابوں میں بھی موجود ہے، کیونکہ ان میں واضح الفاظ میں اس قرآن کو لانے والے پیغمبر کی آمد کی بشارت دی گئی ہے، جیسا کہ فرمایا : ( الَّذِيْ يَجِدُوْنَهٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرٰىةِ وَالْاِنْجِيْلِ ) [ الأعراف : ١٥٧ ] ” وہ جس کو وہ اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ “ اور عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا : (وَمُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ يَّاْتِيْ مِنْۢ بَعْدِي اسْمُهٗٓ اَحْمَدُ ) [ الصف : ٦ ] ” اور میں ایک رسول کی بشارت دیتا ہوں جو میرے بعد آئے گا جس کا نام احمد ہے۔ “ تورات و انجیل کے حوالوں کے لیے مذکورہ بالا آیات کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔
وَاِنَّہٗ لَفِيْ زُبُرِ الْاَوَّلِيْنَ ١٩٦- زبر - الزُّبْرَةُ : قطعة عظیمة من الحدید، جمعه زُبَرٌ ، قال : آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف 96] ، وقد يقال : الزُّبْرَةُ من الشّعر، جمعه زُبُرٌ ، واستعیر للمجزّإ، قال : فَتَقَطَّعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ زُبُراً- [ المؤمنون 53] ، أي : صاروا فيه أحزابا .- وزَبَرْتُ الکتاب : کتبته کتابة غلیظة، وكلّ کتاب غلیظ الکتابة يقال له : زَبُورٌ ، وخصّ الزَّبُورُ بالکتاب المنزّل علی داود عليه السلام، قال : وَآتَيْنا داوُدَ زَبُوراً- [ النساء 163] ، وَلَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ- [ الأنبیاء 105] ، وقرئ زبورا «1» بضم الزاي، وذلک جمع زَبُورٍ ، کقولهم في جمع ظریف : ظروف، أو يكون جمع زِبْرٍ «2» ، وزِبْرٌ مصدر سمّي به کالکتاب، ثم جمع علی زُبُرٍ ، كما جمع کتاب علی كتب، وقیل : بل الزَّبُورُ كلّ کتاب يصعب الوقوف عليه من الکتب الإلهيّة، قال : وَإِنَّهُ لَفِي زُبُرِ الْأَوَّلِينَ [ الشعراء 196] ، وقال :- وَالزُّبُرِ وَالْكِتابِ الْمُنِيرِ [ آل عمران 184] ، أَمْ لَكُمْ بَراءَةٌ فِي الزُّبُرِ [ القمر 43] ، وقال بعضهم : الزَّبُورُ : اسم للکتاب المقصور علی الحکم العقليّة دون الأحكام الشّرعيّة، والکتاب : لما يتضمّن الأحكام والحکم، ويدلّ علی ذلك أنّ زبور داود عليه السلام لا يتضمّن شيئا من الأحكام . وزِئْبُرُ الثّوب معروف «1» ، والْأَزْبَرُ : ما ضخم زُبْرَةُ كاهله، ومنه قيل : هاج زَبْرَؤُهُ ، لمن يغضب «2» .- ( زب ر) الزبرۃ - لوہے کی کڑی کو کہتے ہیں اور اس کی جمع زبر آتی ہے قرآن میں ہے :۔ آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف 96]( اچھا ) لوہے کی سلیں ہم کو لادو ۔ اور کبھی زبرۃ کا لفظ بالوں کے گچھا پر بولا جاتا ہے اس کی جمع ، ، زبر ، ، آتی ہے اور استعارہ کے طور پر پارہ پارہ کی ہوئی چیز کو زبر کہاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ فَتَقَطَّعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ زُبُراً [ المؤمنون 53] پھر لوگوں نے آپس میں پھوٹ کرکے اپنا ( اپنا ) دین جدا جدا کرلیا ۔ زبرت الکتاب میں نے کتاب کو موٹے خط میں لکھا اور ہر وہ کتاب جو جلی اور گاڑھے خط میں لکھی ہوئی ہو اسے زبور کہاجاتا ہے لیکن عرف میں زبور کا لفظ اس آسمانی کتاب کے لئے مخصوص ہوچکا ہے ۔ جو حضرت داؤد (علیہ السلام) پر نازل ہوئی تھی چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَآتَيْنا داوُدَ زَبُوراً [ النساء 163] اور ہم نے داود (علیہ السلام) کو زبور عطا کی ۔ وَلَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء 105] اور ہم نے نصیحت ( کی کتاب یعنی توراۃ ) کے بعد زبور میں لکھ دیا تھا ۔ اس میں ایک قرات زبور ( بضمہ زاء ) بھی ہے ۔ جو یا تو زبور بفتحہ زا کی جمع ہے جیسے طریف جمع ظرورف آجاتی ہے اور یا زبر ( بکسر ہ زا) کی جمع ہے ۔ اور زبد گو اصل میں مصدر ہے لیکن بطور استعارہ اس کا اطاق کتاب پر ہوتا ہے جیسا کہ خود کتاب کا لفظ ہے کہ اصل میں مصدر ہے ۔ لیکن بطور اسم کے استعمال ہوتا ہے پھر جس طرح کتاب کی جمع کتب آتی ہے اسطرح زبر کی جمع زبد آجاتی ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ زبور کتب الہیہ میں سے ہر اس کتاب کو کہتے ہیں جس پر واقفیت دشوار ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ وَإِنَّهُ لَفِي زُبُرِ الْأَوَّلِينَ [ الشعراء 196] اس میں شک نہیں کہ یہ ( یعنی اس کی پیشین گوئی ) اگلے پیغمبروں کی کتابوں میں موجود ہے ۔ وَالزُّبُرِ وَالْكِتابِ الْمُنِيرِ [ آل عمران 184] اور صحیفے اور روشن کتاب لائے تھے ۔ أَمْ لَكُمْ بَراءَةٌ فِي الزُّبُرِ [ القمر 43] یا تمہارے لئے صحیفوں میں معافی ( لکھی ہوئی ) ہے ۔ اور بعض کا قول ہے کہ زبور اس کتاب کا نام ہے جو صرف حکم عقلیہ پر مشتمل ہو اور اس میں احکام شرعیہ نہ ہوں ۔ اور الکتاب ہر اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو احکام حکم دونوں پر مشتمل ہو ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کی زبور میں کوئی حکم شرعی نہیں ہے ۔ زئبرالثوب کپڑے کارواں ۔ اسی سے کہاجاتا ہے ھاج زئبرہ وہ غصہ سے بھڑک اٹھا ۔ اور بڑے کندھوں والے شخص کو ازبر کہاجاتا ہے ۔
آیت ١٩٦ (وَاِنَّہٗ لَفِیْ زُبُرِ الْاَوَّلِیْنَ ) ” - اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ اس کا ذکر اور اس کے بارے میں پیشین گوئیاں سابقہ آسمانی کتب میں پائی جاتی ہیں اور یہ بھی کہ اس کے بنیادی مضامین پہلی کتب اور صحیفوں میں بھی موجود ہیں۔ ان صحیفوں اور تورات و انجیل کی بنیادی تعلیمات وہی تھیں جو قرآن کی تعلیمات ہیں۔ اگر کوئی فرق یا اختلاف تھا تو صرف مختلف شریعتوں کے جزئیاتی احکام میں تھا۔ اس لحاظ سے قرآن ان تمام صحائف و کتب کا مُتَمِّم یعنی تکمیلی ایڈیشن ہے۔
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :122 یعنی یہ ذکر اور یہی تنزیل اور یہی الہٰی تعلیم سابق کتب آسمانی میں بھی موجود ہے ۔ یہی خدائے واحد کی بندگی کا بلاوا ، یہی آخرت کی زندگی کا عقیدہ ، یہی انبیاء کی پیروی کا طریقہ ان سب میں بھی پیش کیا گیا ہے ، سب کتابیں جو خدا کی طرف سے آئی ہیں شرک کی مذمت ہی کرتی ہیں ، مادہ پرستانہ نظریہ حیات کو چھوڑ کر اسی بر حق نظریہ حیات کی طرف دعوت دیتی ہیں جس کی بنیاد خدا کے حضور انسان کی جواب دہی کے تصور پر ہے ، اور انسان سے یہی مطالبہ کرتی ہیں کہ وہ اپنی خود مختاری سے دست بردار ہو کر ان الہٰی احکام کی پیروی اختیار کرے جو انبیاء علیہم السلام لائے ہیں ۔ ان باتوں میں سے کوئی بات بھی نرالی نہیں جو دنیا میں پہلی مرتبہ قرآن ہی پیش کر رہا ہو اور کوئی شخص یہ کہہ سکے تم وہ بات کر رہے ہو جو اگلوں پچھلوں میں سے کسی نے کبھی نہیں کی ۔ یہ آیت منجملہ ان دلائل کے ہے جو امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی اس قدیم رائے کے حق میں پیش کیے جاتے ہیں کہ اگر کوئی شخص نماز میں قرآن کا ترجمہ پڑھ لے تو نماز ہو جاتی ہے ، خواہ وہ شخص عربی میں قرآن پڑھنے کی قدرت رکھتا ہو نہ رکھتا ہو ۔ بنائے استدلال علامہ ابو بکر جصاص کے الفاظ میں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ یہاں ارشاد فرما رہا ہے کہ قرآن پچھلی کتابوں میں بھی تھا ، اور ظاہر ہے کہ ان کتابوں میں وہ عربی الفاظ کے ساتھ نہ تھا ۔ لہٰذا کسی دوسری زبان میں اس کے مضامین کو نقل کر دینا اسے قرآن ہونے سے خارج نہیں کر دیتا ( احکام القرآن ، جلد سوم ، صفحہ 429 ) ۔ لیکن اس استدلال کی کمزوری بالکل ظاہر ہے ۔ قرآن مجید ہو یا کوئی دوسری آسمانی کتاب ، کسی کے نزول کی کیفیت بھی یہ نہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے صرف معانی نبی کے دل پر القا کر دیے ہوں اور نبی نے پھر انہیں اپنے الفاظ میں بیان کیا ہو ۔ بلکہ ہر کتاب جس زبان میں بھی آئی ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے معنی اور لفظ دونوں کے ساتھ آئی ہے ۔ اس لیے قرآن کی تعلیم جن پچھلی کتابوں میں تھی ، انسانی الفاظ میں نہیں ، خدائی الفاظ ہی میں تھی ، اور ان میں سے کسی کے ترجمہ کو بھی کتاب اللہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اصل کا قائم مقام ٹھہرایا جا سکے ۔ رہا قرآن تو اس کے متعلق بار بار بصراحت فرمایا گیا ہے کہ وہ لفظاً لفظاً عربی زبان میں نازل کیا گیا ہے : اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ قُرْاٰناً عَرَبِیًّا ، ( یوسف ۔ آیت 2 ) وَکَذٰلِکَ اَنْزَلْنٰہُ حُکْماً عَرَبِیًّا ، ( الرعد ۔ آیت 37 ) ۔ قُرْاٰناً عَرَبِیًّا غَیْرَ ذِیْ عِوَجٍ ، ( الزمر ۔ آیت 28 ) ۔ اور خود اسی آیت زیر بحث سے پہلے متصلاً فرمایا جا چکا ہے کہ روح الامین اسے زبان عربی میں لے کر اترا ہے ۔ اب اس کے متعلق یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ اس کا کوئی ترجمہ جو کسی انسان نے دوسری زبان میں کیا ہو وہ بھی قرآن ہی ہو گا اور اس کے الفاظ اللہ تعالیٰ کے الفاظ کے قائم مقام ہوں گے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ استدلال کی اس کمزوری کو بعد میں خود امام ممدوح نے ہی محسوس فرما لیا تھا ، چنانچہ معتبر روایات سے یہ بات نقل ہوئی ہے کہ انہوں نے اس مسئلے میں اپنی رائے سے رجوع کر کے امام ابو یوسف اور امام محمد کی رائے قبول کر لی تھی ، یعنی یہ کہ جو شخص عربی زبان میں قرأت پر قادر نہ ہو وہ اس وقت تک نماز میں قرآن کا ترجمہ پڑھ سکتا ہے جب تک اس کی زبان عربی الفاظ کے تلفظ کے قابل نہ ہوجائے ، لیکن جو شخص عربی میں قرآن پڑھ سکتا ہو وہ اگر قرآن کا ترجمہ پڑھے گا تو اس کی نماز نہ ہو گی ۔ حقیقت یہ ہے کہ صاحبین نے یہ رعایت دراصل ان عجمی نو مسلموں کے لیے تجویز کی تھی جو اسلام قبول کرتے ہی فوراً عربی زبان میں نماز ادا کرنے کے قابل نہ ہو سکتے تھے ۔ اور اس میں بنائے استدلال یہ نہ تھی کہ قرآن کا ترجمہ بھی قرآن ہے ، بلکہ ان کا استدلال یہ تھا کہ جس طرح اشارے سے رکوع و سجود کرنا اس شخص کے لیے جائز ہے جو رکوع اور سجدہ کرنے سے عاجز ہو ، اسی طرح غیر عربی میں نماز پڑھنا اس شخص کے لیے جائز ہے جو عربی تلفظ پر قادر نہ ہو ۔ اور علیٰ ہٰذا القیاس جس طرح عجز رفع ہو جانے کے بعد اشارے سے رکوع و سجود کرنے والے کی نماز نہ ہو گی اسی طرح قرآن کے تلفظ پر قادر ہو جانے کے بعد ترجمہ پڑھنے والے کی نماز بھی نہ ہو گی ۔ ( اس مسئلے پر مفصل بحث کے لیے ملاحظہ ہو مبسوط سَرَخْسی ، جلد اول ، صفحہ 37 ۔ فتح القدیر و شرح عنایہ علی الہدایہ جلد 1 ، صفحہ 190 ۔ 201 ) ۔
43: یعنی تورات، زبور اور انجیل میں، نیز دوسرے انبیائے کرام علیہم السلام کے صحیفوں میں یہ بشارت دی گئی ہے کہ آخری پیغمبر تشریف لانے والے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کا کلام نازل ہوگا۔ اگرچہ اب ان کتابوں میں بہت سی تحریفات ہوگئی ہیں، لیکن ان میں سے متعدد بشارتیں آج بھی ان کتابوں میں موجود ہیں۔ حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانوی نے اپنی کتاب ’’ اظہار الحق‘‘ کے آخری باب میں یہ بشارتیں تفصیل کے ساتھ نقل فرمائی ہیں۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ راقم الحروف کی شرح و تحقیق کے ساتھ ’’ بائبل سے قرآن تک‘‘ کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔