Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1971کیونکہ ان کتابوں میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اور قرآن کا ذکر موجود ہے۔ یہ کفار مکہ، مذہبی معاملات میں یہود کی طرح رجوع کرتے تھے۔ اس اعتبار سے فرمایا کہ کیا ان کا یہ جاننا اور بتلانا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، اللہ کے سچے رسول اور یہ قرآن اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہے۔ پھر یہود کی اس بات کو مانتے ہوئے پیغمبر پر ایمان کیوں نہیں لاتے ؟

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١١٦] یعنی آپ کی رسالت کی صداقت کے لئے یہ ثبوت بھی کافی ہے کہ بنی اسرائیل کے علماء یہ بات خوب جانتے ہیں کہ آپ وہی رسول ہیں اور یہ کتاب قرآن وہی آسمانی کتاب ہے جس کی سابقہ آسمانی کتابوں میں خبر دی گئی ہے۔ پھر ان میں سے بعض منصف مزاج عالموں نے اسی خبر کی بنا پر اسلام قبول کرلیا جیسے عبداللہ بن سلام اور ان کے ساتھیوں نے کہا تھا اور بعض اپنی خصوصی مجلسوں میں اس بات کا اعتراف تو کرتے ہیں لیکن بعض مصلحتوں کی بنا پر اس کا اعلان و اقرار کرنے کی جرات نہیں رکھتے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَوَلَمْ يَكُنْ لَّهُمْ اٰيَةً ۔۔ : یعنی کیا مشرکین مکہ کے یہ جاننے کے لیے کہ قرآن واقعی اللہ کی طرف سے نازل شدہ اور پہلی کتابوں میں مذکور ہے اور یہ کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نبی آخر الزماں ہیں، یہ بات کافی نہیں کہ بنی اسرائیل کے علماء اس سے واقف ہیں، جیسا کہ ان حضرات کی شہادت سے معلوم ہوا جو ان میں سے ایمان لائے، مثلاً عبداللہ بن سلام اور سلمان فارسی (رض) اور جیسا کہ ان میں سے بعض علانیہ اور بعض اپنی خصوصی مجلسوں میں اس کا ذکر کرتے ہیں، گو اپنی بعض مصلحتوں کی وجہ سے ایمان نہیں لائے۔ اہل کتاب کی شہادت مشرکین مکہ کے ہاں اس لیے حجت قرار پاتی ہے کہ وہ پچھلی کتابوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے انھی کی طرف رجوع کرتے تھے اور جو بات وہ کہتے تھے اسے صحیح تسلیم کرتے تھے۔ نجاشی اور اس کے درباریوں نے جعفر (رض) سے سورة مریم کی آیات سن کر ان کے حق ہونے کا برملا اقرار کیا تھا۔ دیکھیے سورة مائدہ (٨٣) ، مزید دیکھیے قصص (٥٢، ٥٣) آیت میں لفظ ” اٰیَةً “ ” لَمْ یَکپنْ “ کی خبر ہے اور ” اَنْ یَّعْلَمَه۔۔ “ ب تاویل مصدر اس کا اسم مؤخر ہے۔ (قرطبی، شوکانی)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَوَلَمْ يَكُنْ لَّہُمْ اٰيَۃً اَنْ يَّعْلَمَہٗ عُلَمٰۗؤُا بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ۝ ١ ٩٧ۭ- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٩٧ (اَوَلَمْ یَکُنْ لَّہُمْ اٰیَۃً اَنْ یَّعْلَمَہٗ عُلَمٰٓؤُا بَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ ) ” - علمائے بنی اسرائیل بخوبی جانتے تھے کہ قرآن اور محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت اللہ کی طرف سے ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :123 یعنی علمائے بنی اسرائیل اس بات سے واقف ہیں کہ جو تعلیم قرآن مجید میں دی گئی ہے وہ ٹھیک وہی تعلیم ہے جو سابق کتب آسمانی میں دی گئی تھی ۔ اہل مکہ خود علم کتاب سے نا آشنا سہی ، بنی اسرائیل کے اہل علم تو گرد و پیش کے علاقوں میں کثرت سے موجود ہیں ۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ کوئی انوکھا اور نرالا ذکر نہیں ہے جو آج پہلی مرتبہ محمد بن عبد اللہ نے لا کر تمہارے سامنے رکھ دیا ہو ، بلکہ ہزارہا برس سے خدا کے نبی یہی ذکر پے در پے لاتے رہے ہیں ۔ کیا یہ بات اس امر کا اطمینان کرنے کے لیے کافی نہیں ہے کہ یہ تنزیل بھی اسی رب العالمین کی طرف سے ہے جس نے پچھلی کتابیں نازل کی تھیں ؟ سیرت ابن ہشام سے معلوم ہوتا ہے کہ ان آیات کے زمانہ نزول سے قریب ہی یہ واقعہ پیش آ چکا تھا کہ حبش سے حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی دعوت سن کر 20 آدمیوں کا ایک وفد مکہ آیا اور اس نے مسجد حرام میں کفار قریش کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مل کر دریافت کیا کہ آپ کیا تعلیم لائے ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں ان کو قرآن کی کچھ آیات سنائیں ۔ اس پر ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور وہ اسی وقت آپ کے رسول برحق ہونے کی تصدیق کر کے آپ پر ایمان لے آئے ۔ پھر جب وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے اٹھے تو ابو جہل قریش کے چند لوگوں کے ساتھ ان سے ملا اور انہیں سخت ملامت کی ۔ اس نے کہا تم سے زیادہ احمق قافلہ یہاں کبھی نہیں آیا ۔ نامرادو ، تمہارے ہاں کے لوگوں نے تو تمہیں اس لیے بھیجا تھا کہ اس شخص کے حالات کی تحقیق کر کے آؤ ، مگر تم ابھی اس سے ملے ہی تھے کہ اپنا دین چھوڑ بیٹھے ۔ وہ شریف لوگ ابو جہل کی اس زجر و توبیخ پر الجھنے کے بجائے سلام کر کے ہٹ گئے اور کہنے لگے کہ ہم آپ سے بحث نہیں کرنا چاہتے ، آپ اپنے دین کے مختار ہیں اور ہم اپنے دین کے مختار ہمیں جس چیز میں اپنی خیر نظر آئی اسے ہم نے اختیار کر لیا ( جلد دوم ۔ صفحہ 32 ) ۔ اسی واقعہ کا ذکر سورہ قصص میں آیا ہے کہ : اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰہُمُ الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِہ ھُمْ بِہ یُؤْمِنُوْنَ ہ وَاِذَا یُتْلیٰ عَلَیْہِمْ قَالُؤآ اٰمَنَّا بِہٖ اَنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّنَا اِنَّا کُنَّا مِنْ قَبْلِہٖ مُسْلِمِیْنَ .......... وَاِذَ سَمِعُوا الْلَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْہُ وَقَالُوْا لَنَآ اَعْمَالُنَا وَلَکُمْ اَعْمَالُکُمْ ، سَلَامٌ عَلَیْکُمْ ، لَا نَبْتَغِی الْجَاھِلِیْنَ ( آیات 52 ۔ 55 ) ۔ جن لوگوں کو ہم نے اس سے پہلے کتاب دی تھی وہ اس قرآن پر ایمان لاتے ہیں اور جب وہ انہیں سنایا جاتا ہے تو کہتے ہیں ہم اس پر ایمان لائے ، یہ حق ہے ہمارے رب کی طرف سے ، ہم اس سے پہلے بھی اسی دین اسلام پر تھے ................ اور جب انہوں نے بیہودہ باتیں سنیں تو الجھنے سے پرہیز کیا اور بولے ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لیے ، تم کو سلام ہو ، ہم جاہلوں کا طریقہ پسند نہیں کرتے ( کہ چار باتیں تم ہمیں سناؤ تو ہم تمہیں سنائیں ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

44: بنو اسرائیل میں سے جو لوگ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آئے تھے، وہ تو کھلم کھلا یہ بتاتے تھے کہ یہود و نصاریٰ کی کتابوں میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشریف آوری کی بشارت اور آپ کی علامتیں درج ہیں، لیکن بنی اسرائیل کے جو علماء ایمان نہیں لائے تھے، وہ بھی تنہائی میں کبھی کبھی اس حقیقت کا اعتراف کرلیتے تھے