وَلَوْ نَزَّلْنٰهُ عَلٰي بَعْضِ الْاَعْجَمِيْنَ ۔۔ : ” ْاَعْجَمِيْنَ “ ” أَعْجَمُ “ کی جمع ہے، گونگا یا جو سرے سے عربی نہ جانتا ہو، انسان ہو یا جانور۔ ” أَعْجَمِيٌّ“ کا بھی یہی معنی ہے، اس میں یائے نسبت تاکید کے لیے زیادہ کی گئی ہے۔ ان آیات میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی ہے کہ ان لوگوں کے ایمان نہ لانے کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ انھوں نے طے کر رکھا ہے کہ وہ اس پر ایمان لائیں گے ہی نہیں، اس لیے آپ ان کے ایمان نہ لانے پر غم زدہ نہ ہوں۔ اگر اب یہ لوگ ایک عربی رسول پر نازل ہونے کی وجہ سے اس قرآن پر ایمان نہیں لا رہے، حالانکہ یہ عظیم ترین معجزہ ہے، جس کی ایک سورت کی مثال بھی وہ نہیں لاسکے، یہ کہہ کر کہ اس نے خود اسے تصنیف کرلیا ہے، تو اگر ہم اس فصیح و بلیغ ترین عربی کلام کو کسی عجمی پر نازل کرتے، جو عربی زبان کا ایک لفظ بھی نہ جانتا ہوتا اور وہ اسے ان کے سامنے پڑھتا، جس سے وہ اس کے من جانب اللہ ہونے کا انکار کر ہی نہ سکتے، پھر بھی یہ لوگ اپنے شدید عناد کی وجہ سے ایمان نہ لاتے، بلکہ اسے جادو کہہ کر یا کوئی اور بہانہ بنا کر جھٹلا دیتے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (اِنَّ الَّذِيْنَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ وَلَوْ جَاۗءَتْھُمْ كُلُّ اٰيَةٍ حَتّٰى يَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِيْمَ ) [ یونس : ٩٦، ٩٧ ] ” بیشک وہ لوگ جن پر تیرے رب کی بات ثابت ہوچکی، وہ ایمان نہیں لائیں گے، خواہ ان کے پاس ہر نشانی آجائے، یہاں تک کہ دردناک عذاب دیکھ لیں۔ “ مزید دیکھیے سورة حجر (١٤، ١٥) اور انعام (١١١) ۔
وَلَوْ نَزَّلْنٰہُ عَلٰي بَعْضِ الْاَعْجَمِيْنَ ١٩٨ۙ- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - بعض - بَعْضُ الشیء : جزء منه، ويقال ذلک بمراعاة كلّ ، ولذلک يقابل به كلّ ، فيقال : بعضه وكلّه، وجمعه أَبْعَاض . قال عزّ وجلّ : بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] - ( ب ع ض ) بعض - الشئی ہر چیز کے کچھ حصہ کو کہتے ہیں اور یہ کل کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اسلئے کل کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے : بعضہ وکلہ اس کی جمع ابعاض آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ - عجم - العُجْمَةُ : خلافُ الإبانة، والإِعْجَامُ : الإبهام، واسْتَعْجَمْتُ الدّارَ : إذا بان أهلها ولم يبق فيها عریب، أي : من يبين جوابا، ولذلک قال بعض العرب : خرجت عن بلاد تنطق، كناية عن عمارتها وکون السّكان فيها . والعَجَمُ : خلاف العَرَبِ ، والعَجَمِيُّ منسوبٌ إليهم، والأَعْجَمُ : من في لسانه عُجْمَةٌ ، عربيّا کان، أو غير عربيّ ، اعتبارا بقلّة فهمهم عن العجم . ومنه قيل للبهيمة : عَجْمَاءُ والأَعْجَمِيُّ منسوبٌ إليه . قال : وَلَوْ نَزَّلْناهُ عَلى بَعْضِ الْأَعْجَمِينَ- [ الشعراء 198] ، علی حذف الیاءات . قال تعالی: وَلَوْ جَعَلْناهُ قُرْآناً أَعْجَمِيًّا لَقالُوا لَوْلا فُصِّلَتْ آياتُهُءَ أَعْجَمِيٌّ وَعَرَبِيٌ [ فصلت 44] ، يُلْحِدُونَ إِلَيْهِ أَعْجَمِيٌّ [ النحل 103] ، وسمّيت البهيمة عَجْمَاءَ من حيث إنها لا تبین عن نفسها بالعبارة إبانة النّاطق . وقیل : «صلاة النهار عَجْمَاءُ» «2» ، أي : لا يجهر فيها بالقراءة، «وجُرْحُ العَجْمَاءِ جُبَارٌ» «3» ، وأَعْجَمْتُ الکلامَ ضدّ أَعْرَبْتُ ، وأَعْجَمْتُ الکتابةَ : أزلت عُجْمَتَهَا، نحو :- أشكيته : إذا أزلت شكايته . وحروف المُعْجَمُ ، روي عن الخلیل «4» أنها هي الحروف المقطّعة لأنها أَعْجَمِيَّةٌ. قال بعضهم : معنی قوله : أَعْجَمِيَّةٌ أنّ الحروف المتجرّدة لا تدلّ علی ما تدلّ عليه الحروف الموصولة «1» . وباب مُعْجَمٌ: مُبْهَمٌ ، والعَجَمُ : النّوى، الواحدة : عَجَمَةٌ ، إمّا لاستتارها في ثَنْيِ ما فيه، وإمّا بما أخفي من أجزائه بضغط المضغ، أو لأنّه أدخل في الفم في حال ما عضّ عليه فأخفي، والعَجْمُ : العَضُّ عليه، وفلانٌ صُلْبُ المَعْجَمِ ، أي : شدیدٌ عند المختبر .- ( ع ج م ) العجمۃ - کے معنی ابہام اور خفا کے ہیں اور یہ الا بانۃ کی ضد ہے جس کے معنی واضح اور بیان کردینا کے ہیں اور اعجاز کے معنی ہیں مبہم کرنا استعجت الدار گھر سونا ہوگیا اور اس میں جواب دینے والا کوئی نہ رہا سی بنا پر کسی عربی نے آباد شہروں سے کنایہ کرتے ہوئے کہا خرجت عن بلاد تنطق میں شہروں سے نکلا جو آباد تھے العجم غیر عرب کو کہتے ہیں اور العجمی اس کی طرف منسوب ہے الاعجم وہ آدمی جس کی زبان فصیح نہ ہو خواہ عربی ہی کیوں نہ ہو کیونکہ عرب لوگ عجمی کی گفتگو بہت کم سمجھتے تھے اور الا عجمی اسکی طرف منسوب ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلَوْ نَزَّلْناهُ عَلى بَعْضِ الْأَعْجَمِينَ [ الشعراء 198] اور اگر ہم اس کو غیر اہل ابان پر اتارتے ۔ میں تخفیف کے لئے یا نسبت کو حزف کردیا گیا ہے ۔ وَلَوْ جَعَلْناهُ قُرْآناً أَعْجَمِيًّا لَقالُوا لَوْلا فُصِّلَتْ آياتُهُءَ أَعْجَمِيٌّ وَعَرَبِيٌ [ فصلت 44] اور اگر ہم اس قرآن کو غیر ( زبان ) عربی نازل کرتے تو یہ لوگ کہتے کہ اس کی آیتیں ( ہماری زبان میں ) کیوں کھول کر بیان نہیں کی گئیں کیا ( خوب کہ قرآن تو عجمی اور مخاطب عربی ۔ يُلْحِدُونَ إِلَيْهِ أَعْجَمِيٌّ [ النحل 103] مگر جس کی طرف تعلیم کی نسبت کرتے ہیں اسکی زبان تو عجمی ہے سی سے بھیمۃ ( چوپایہ ) کو عجماء کہا جاتا ہے کیونکہ وہ ناطق کی طرح الفاظ کے ذریعہ اپنے پانی لاضمیر اور ادا نہیں کرسکتا ۔ حدیث میں ہے جر ح العجماء جبار ( چوپایہ اگر کسی کو زخمی کردے تو مالک پر اس کی دیت نہیں ہے اور دن کی نماز کو عجماء کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں قرات بالجہر نہیں ہوتی اعجمت الکلام میں نے بات مبہم رکھی یہ اعربت کی ضد ہے کبھی اعجمت الکلام کے معنی کلام سے ابہام کو دور کرنا بھی آجاتے ہیں جیسا کہ اشکیہہ ( شکایت زائل کرنا ) خلیل سے مروی ہے کہ حروف مقطعہ کو حروف معجمہ کہا جاتا ہے کیونکہ یہ اعجمی یعنی گونگے ہوتے ہیں بعض نے کہا ہے کہ خلیل کا مقصد یہ ہے کہ یہ حروف مفرد ہونے کی صورت میں ان معانی پر دلالت نہیں کرتے جن پر کہ مرکب ہونے کی حالت میں دلالت کرتے ہیں باب معجمہ بندہ دروازہ العجم کھجور کی گٹھلی مفرد عجمۃ اور گٹھلی کو عجمۃ یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ گودا کے اندر مخفی ہوتی ہے اور یا اس لئے کہ اس کا چبانا مشکل ہوتا ہے اور یا اس لئے کہ کھاتے وقت اسے بھی منہ میں ڈال لیا جاتا ہے ۔ اور وہ منہ میں مخفی ہوجاتی ہے اور العجم کے معنی چبانے کے ہیں محاورہ ہے : ۔ فلان صلب العجم یعنی وہ آزمائش میں سخت ہے
(١٩٨۔ ١٩٩) اور اگر بالفرض ہم اس قرآن کریم کو کسی عجمی پر نازل کردیتے جسے عربی زبان سے واقفیت ہی نہیں اور وہ اس قرآن کریم کو ان کے سامنے پڑھ کر سنا دیتا تب بھی یہ لوگ اس کو نہ مانتے۔- کیونکہ جب ایسے شخص پر ایمان نہیں لائے جو ان کی زبان جانتا ہے تو پھر ایسے آدمی کی بات کیسے مانتے جو ان کی زبان سے واقف نہیں۔