Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1991یعنی کسی عجمی زبان میں نازل کرتے تو یہ کہتے کہ یہ ہماری سمجھ میں ہی نہیں آتا۔ جیسے (وَلَوْ جَعَلْنٰهُ قُرْاٰنًا اَعْجَمِيًّا لَّـقَالُوْا لَوْلَا فُصِّلَتْ اٰيٰتُهٗ ڼءَاَعْجَمِيٌّ وَّعَرَبِيٌّ ۭ قُلْ هُوَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا هُدًى وَّشِفَاۗءٌ ۭ وَالَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ فِيْٓ اٰذَانِهِمْ وَقْرٌ وَّهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى ۭ اُولٰۗىِٕكَ يُنَادَوْنَ مِنْ مَّكَانٍۢ بَعِيْدٍ ) 41 ۔ فصلت :44) میں ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١١٧] موجودہ صورت حال یہ ہے کہ نبی بھی عربی ہے اور قرآن بھی عربی زبان میں ہے تو ان کافروں کو یہ شبہ پڑگیا ہے کہ کہیں قرآن اس نے خود ہی نہ تصنیف کر ڈالا ہو۔ اب فرض کیجئے کہ ہم یہی فصیح عربی زبان والا قرآن کسی عجمی پر نازل کرتے تو ان پر شک و شبہ کرنے کے لئے دوسرے کئی راہ کھل جاتیں۔ مثلاً یہ کہہ دیتے کہ یہ آیات اللہ نے جبریل کے ذریعہ اس پر نازل نہیں کیں بلک اسے تو کوئی جن یا شیطان پڑھا جاتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ خوے بد را پہالہ بسیار والا معاملہ ہے۔ نیت میں فتور ہو تو شک و شبہ کے بہانے ہزاروں مل سکتے ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَقَرَاَہٗ عَلَيْہِمْ مَّا كَانُوْا بِہٖ مُؤْمِنِيْنَ۝ ١٩٩ۭ- قرأ - والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] ، وقوله : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] ، قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] - ( ق ر ء) قرءت المرءۃ وقرءت الدم - ۔ القراءۃ کے معنی حروف وکلمات کو ترتیل میں جمع کرنے کے ہیں کیونکہ ایک حروت کے بولنے کو قراءت نہیں کہا جاتا ہے اور نہ یہ عام ہر چیز کے جمع کے کرنے پر بولاجاتا ہے ۔ لہذ ا اجمعت القوم کی بجاے قررءت القوم کہنا صحیح نہیں ہے ۔ القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ اور آیت کریمہ : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] کہ اس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ مزید فرمایا : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] یہ قرآن عربی ہے جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٩٩ (فَقَرَاَہٗ عَلَیْہِمْ مَّا کَانُوْا بِہٖ مُؤْمِنِیْنَ ) ” - ہم یہ بھی کرسکتے تھے کہ قرآن کسی ایسے شخص پر نازل کردیتے جس کی مادری زبان عربی نہ ہوتی ‘ پھر اگر ایسا شخص انہیں عربی قرآن پڑھ کر سناتا تو یہ گویا ایک کھلا معجزہ ہوتا ‘ لیکن یہ لوگ پھر بھی اسے ماننے والے نہیں تھے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :124 یعنی اب ان ہی کی قوم کا ایک آدمی انہیں عربی مبین میں یہ کلام پڑھ کر سنا رہا ہے تو یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس شخص نے اسے خود تصنیف کر لیا ہے ، عرب کی زبان سے عربی تقریر ادا ہونے میں آخر معجزے کی کیا بات ہے کہ ہم اسے خدا کا کلام مان لیں ۔ لیکن اگر یہی فصیح عربی کلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی غیر عرب پر بطور معجزہ نازل کر دیا جاتا اور وہ ان کے سامنے آ کر نہایت صحیح عربی لہجہ میں اسے پڑھتا تو یہ ایمان نہ لانے کے لیے دوسرا بہانہ تراشتے ، اس وقت یہ کہتے کہ اس پر کوئی جن آ گیا ہے جو عجمی کی زبان سے عربی بولتا ہے ۔ ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، حٰم السجدہ ، حواشی 54 تا 58 ) ۔ اصل چیز یہ ہے کہ جو شخص حق پسند ہوتا ہے وہ اس بات پر غور کرتا ہے جو اس کے سامنے پیش کی جا رہی ہو اور ٹھنڈے دل سے سوچ سمجھ کر رائے قائم کرتا ہے کہ یہ معقول بات ہے یا نہیں ۔ اور جو شخص ہٹ دھرم ہوتا ہے اور نہ ماننے کا ارادہ کر لیتا ہے وہ اصل مضمون پر توجہ نہیں دیتا بلکہ اسے رد کرنے کے لیے طرح طرح کے حیلے بہانے تلاش کرتا ہے ۔ اس کے سامنے بات خواہ کسی طریقے سے پیش کی جائے ۔ وہ بہرحال اسے جھٹلانے کے لیے کوئی نہ کوئی وجہ پیدا کر لے گا ۔ کفار قریش کی اس ہٹ دھرمی کا پردہ قرآن مجید میں جگہ جگہ فاش کیا گیا ہے اور ان سے صاف صاف کہا گیا ہے کہ تم ایمان لانے کے لیے معجزہ دکھانے کی شرط آخر کس منہ سے لگاتے ہو ، تم تو وہ لوگ ہو کہ تمہیں خواہ کوئی چیز دکھا دی جائے تم اسے جھٹلانے کے لیے کوئی بہانہ نکال لو گے کیونکہ دراصل تمہیں حق بات مان کر نہیں دینی ہے : وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَیْکَ کِتَاباً فِیْ قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوْہُ بَاَیْدِیْھِمْ لَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوٓا اِنْ ھٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ ( الانعام ۔ آیت 7 ) ۔ اگر ہم تیرے اوپر کاغذ میں لکھی ہوئی کوئی کتاب نازل کر دیتے اور یہ لوگ اسے اپنے ہاتھوں سے چھو کر بھی دیکھ لیتے تو جن لوگوں نے نہیں مانا وہ کہتے کہ یہ تو کھلا جادو ہے ۔ وَلَوْ فَتَحْنَا عَلَیْھِمْ بَاباً مِّنَ السَّمَآءِ فَظَلُّوْا فِیْہِ یَعْرُجُوْنَ لَقَالُوْآ اِنَّمَا سُکِّرَتْ اَبْصَارُنَا بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَّسْحُوْرُوْنَ ( الحجر ۔ آیات 14 ۔ 15 ) ۔ اور اگر ہم ان پر آسمان کا کوئی دروازہ بھی کھول دیتے اور یہ اس میں چڑھنے لگتے تو یہ کہتے کہ ہماری آنکھوں کو دھوکا ہو رہا ہے ، بلکہ ہم پر جادو کر دیا گیا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

45: یعنی اگر ہم قرآنِ کریم کے معجزہ ہونے کی اور زیادہ وضاحت اِس طرح کردیتے کہ یہ عربی زبان کی کتاب کسی غیر عرب پر نازل ہوتی جو عربی سے ناواقف ہوتا، اور وہ عربی نہ جاننے کے باوجود اِس عربی قرآن کر پڑھ کر سناتا تب بھی یہ لوگ ایمان نہ لاتے، کیونکہ ایمان نہ لانے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ قرآنِ کریم کی حقانیت کے دلائل معاذ اللہ کمزور ہیں، بلکہ اُنہوں نے ضد کی بنا پر طے کر رکھا ہے کہ کیسے ہی دلائل سامنے آجائیں، یہ اِیمان نہیں لائیں گے۔