کفر و انکار تکذیب وکفر انکار وعدم تسلیم کو ان مجرموں کے دل میں بٹھا دیا ہے ۔ یہ جب تک عذاب اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں ایمان نہیں لائیں گے ۔ اس وقت اگر ایمان لائے بھی تو محض بےسود ہوگا ان پر لعنت برس چکی ہوگی ۔ برائی مل چکی ہوگی ۔ نہ پچھتانا کام آئے نہ معذرت نفع دے ۔ عذاب اللہ آئیں گے اور اچانک ان کی بےخبری میں ہی آجائیں گے اس وقت ان کی تمنائیں اگر ذرا سی بھی مہلت پائیں تو نیک بن جائیں بےسود ہونگی ۔ ایک انہی پر کیا موقوف ہے ہر ظالم ، فاجر ، فاسق ، کافر بدکار عذاب کو دیکھتے ہی سیدھا ہوجاتا ہے ، نادم ہوتا ہے توبہ تلافی کرتا ہے مگر سب لاحاصل ۔ فرعون ہی کو دیکھئے حضرت موسیٰ نے اس کے لئے بد دعا کی جو قبول ہوئی عذاب کو دیکھ کر ڈوبتے ہوئے کہنے لگا کہ اب میں مسلمان ہوتا ہوں لیکن جواب ملاکہ یہ ایمان بےسود ہے ۔ اسی طرح ایک اور آیت میں ہے کہ ہمارا عذاب دیکھ کر ایمان کا اقرار کیا ۔ پھر ان کی ایک اور بدبختی بیان ہو رہی ہے کہ وہ اپنے نبیوں سے کہتے تھے اگر سچے ہو تو عذاب اللہ لاؤ ۔ اگرچہ ہم انہیں مہلت دیں اور کچھ دنوں تک کچھ مدت تک انہیں عذاب سے بچائے رکھیں ۔ پھر ان کے پاس ہمارا مقررہ عذاب آجائے ۔ ان کا حال ان کی نعمتیں ان کی جاہ وحشمت غرض کوئی چیز انہیں ذرا سابھی فائدہ نہیں دے سکتی ۔ اس وقت تک یہی معلوم ہوگا کہ شاید ایک صبح یا ایک شام ہی دنیا میں رہے ۔ جیسے ایک اور آیت میں ہے آیت ( يَوَدُّ اَحَدُھُمْ لَوْ يُعَمَّرُ اَلْفَ سَـنَةٍ ۚ وَمَا ھُوَ بِمُزَحْزِحِهٖ مِنَ الْعَذَابِ اَنْ يُّعَمَّرَ ۭ وَاللّٰهُ بَصِيْرٌۢ بِمَا يَعْمَلُوْنَ 96 ) 2- البقرة:96 ) ان میں سے ہر ایک کی چاہت ہے کہ وہ ہزار ہزار سال جئے لیکن اتنی عمر بھی اللہ کے عذاب ہٹا نہیں سکتی ۔ یہی یہاں بھی فرمایا کہ اسباب ان کے کچھ کام نہ آئیں گے الٹا عذاب میں مبتلا ہوتے وقت ان کی تمام طاقتیں اور اسباب یونہی رکھے رکھے رہ جائیں گے ۔ چنانچہ صحیح حدیث میں ہے کہ کافر کو قیامت کے دن لایا جائے گا ، پھر آگ میں ایک غوطہ دلاکر پوچھا جائے گا کہ تو نے کبھی راحت بھی اٹھائی ہے تو کہے گا کہ اللہ کی قسم میں نے کبھی کوئی راحت نہیں دیکھی اور ایک اس شخص کو لایا جائے گا جس نے پوری عمر واقعی کوئی راحت چکھی ہی نہ ہو ۔ اسے جنت کی ہوا کھلاکر لایا جائے گا اور سوال ہوگا کہ کیا تو نے عمر بھر کبھی کوئی برائی دیکھی ہے؟ تو وہ کہے گا اے اللہ تیری ذات پاک کی قسم میں نے کبھی کوئی زحمت نہیں اٹھائی ۔ حضرت عمربن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ عموما یہ شعر پڑھاکرتے تھے کہ جب تو اپنی مراد کو پہنچ گیا تو گویا تو نے کبھی کسی تکلیف کا نام بھی نہیں سنا ۔ اللہ عزوجل اس کے بعد اپنے عدل کی خبر دیتا ہے کہ کبھی اس نے حجت ختم ہونے سے پہلے کبھی کسی امت کو ختم نہیں کیا ۔ رسولوں کو بھیجتا کتابیں اتارتا ہے خبریں دیتا ہے ہوشیار کرتا ہے پھر نہ ماننے والوں پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں ۔ پس فرمایا کہ ایساکبھی نہیں ہوا کہ انبیائے کے بھیجنے سے پہلے ہی ہم نے کسی امت پر عذاب بھیج دئے ہوں ۔ ڈرانے والے بھیج کر نصیحت کرکے عذر ہٹا کر پھر نہ مانے پر عذاب ہوتا ہے جیسے فرمایا تیرا رب کسی بستی کو ہلاک نہیں کرتاجب تک کہ ان کی بستیوں کی صدر بستی میں کسی رسول نہ بھیج دے جو انہیں ہماری آیتیں پڑھ کر سنائے ۔
20 0 1یعنی سَلَکْنَاہ میں ضمیر کا مرجع کفر و تکذیب اور جحود وعناد ہے۔
[١١٨] اس کا ایک مطلب تو وہی ہے جو ترجمہ اور اوپر کے حاشیہ سے واضح ہے اور ربط مضمون کے لحاظ سے یہی راجح معلوم ہوتا ہے۔ تاہم بعض مفسرین نے ملکتژ میں کا کی ضمیر کو قرآن کی طرف لوٹایا ہے۔ اس لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم نے قرآن کو ان مجرموں کے دلوں میں گھسا دیا ہے اور وہ خوب جانتے ہیں کہ یہ کسی بشر کا کلام نہیں ہوسکتا۔ مگر اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کی بنا پر اس کو بہرحال جھٹلانے پر کمر بستہ ہیں۔
كَذٰلِكَ سَلَكْنٰهُ فِيْ قُلُوْبِ الْمُجْرِمِيْنَ ۔۔ : ” سَلَکَ یَسْلُکُ “ پرونا، سوئی میں دھاگا داخل کرنا، کسی چیز کو دوسری کے اندر گھسا دینا۔ ” سَلَكْنٰهُ “ میں ” ہٗ “ کی ضمیر اس انکار اور تکذیب کی طرف جا رہی ہے جس کا ذکر پچھلی آیت ” مَّا كَانُوْا بِهٖ مُؤْمِنِيْنَ “ میں ہے، یعنی ہم نے اس ایمان نہ لانے کو ان مجرموں کے جرائم کی پاداش میں ان کے دلوں کے اندر اس طرح داخل کردیا ہے جس طرح سوئی میں دھاگا داخل کردیا جاتا ہے۔ اب یہ لوگ اس پر ایمان نہیں لائیں گے، حتیٰ کہ ” عذاب الیم “ دیکھ لیں۔ اس میں بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی ہے کہ ان لوگوں نے ایمان لانا ہی نہیں تو ان پر آپ غم زدہ کیوں ہوتے ہیں۔ آیت کے سیاق کے لحاظ سے یہی معنی راجح ہے۔ - بعض مفسرین نے ” سَلَكْنٰهُ “ میں ” ہُ “ کی ضمیر کا مرجع قرآن کو قرار دیا ہے۔ انھوں نے اس کی تفسیر یہ کی ہے کہ قرآن کا حق ہونا تو ان کے دلوں میں اتار دیا گیا ہے مگر ان کی ہٹ دھرمی کا یہ حال ہے کہ۔۔ (اشرف الحواشی) بعض نے اس کا مرجع قرآن کو قرار دے کر اس کی تفسیر اس طرح کی ہے : ” یعنی یہ اہل حق کے دلوں کی طرح تسکین روح اور شفائے قلب بن کر ان کے اندر نہیں اترتا، بلکہ ایک گرم لوہے کی سلاخ بن کر اس طرح گزرتا ہے کہ وہ سیخ پا ہوجاتے ہیں اور اس کے مضامین پر غور کرنے کے بجائے اس کی تردید کے لیے حربے ڈھونڈھنے لگ جاتے ہیں۔ “ (تفہیم القرآن)
كَذٰلِكَ سَلَكْنٰہُ فِيْ قُلُوْبِ الْمُجْرِمِيْنَ ٢٠٠ۭ- سلك - السُّلُوكُ : النّفاذ في الطّريق، يقال : سَلَكْتُ الطّريق، وسَلَكْتُ كذا في طریقه، قال تعالی:- لِتَسْلُكُوا مِنْها سُبُلًا فِجاجاً [ نوح 20] ، وقال : فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا[ النحل 69] ، يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ [ الجن 27] ، وَسَلَكَ لَكُمْ فِيها سُبُلًا [ طه 53] ، ومن الثاني قوله : ما سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ [ المدثر 42] ، وقوله : كَذلِكَ نَسْلُكُهُ فِي قُلُوبِ الْمُجْرِمِينَ- [ الحجر 12] ، كَذلِكَ سَلَكْناهُ [ الشعراء 200] ، فَاسْلُكْ فِيها[ المؤمنون 27] ، يَسْلُكْهُ عَذاباً [ الجن 17] . قال بعضهم : سَلَكْتُ فلانا طریقا، فجعل عذابا مفعولا ثانیا، وقیل : ( عذابا) هو مصدر لفعل محذوف، كأنه قيل : نعذّبه به عذابا، والطّعنة السُّلْكَةُ : تلقاء وجهك، والسُّلْكَةُ : الأنثی من ولد الحجل، والذّكر : السُّلَكُ.- ( س ل ک ) السلوک - ( ن ) اس کے اصل بمعنی راستہ پر چلنے کے ہیں ۔ جیسے سکت الطریق اور یہ فعل متعدی بن کر بھی استعمال ہوتا ہے یعنی راستہ پر چلانا چناچہ پہلے معنی کے متعلق فرمایا : لِتَسْلُكُوا مِنْها سُبُلًا فِجاجاً [ نوح 20] تاکہ اس کے بڑے بڑے کشادہ راستوں میں چلو پھرو ۔ فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا[ النحل 69] اور اپنے پروردگار کے صاف رستوں پر چلی جا ۔ يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ [ الجن 27] اور اس کے آگے مقرر کردیتا ہے ۔ وَسَلَكَ لَكُمْ فِيها سُبُلًا [ طه 53] اور اس میں تمہارے لئے رستے جاری کئے ۔ اور دوسری معنی متعدی کے متعلق فرمایا : ما سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ [ المدثر 42] کہ تم دوزخ میں کیوں پڑے ۔ - كَذلِكَ نَسْلُكُهُ فِي قُلُوبِ الْمُجْرِمِينَ [ الحجر 12] اس طرح ہم اس ( تکذیب و ضلال ) کو گنہگاروں کے دلوں میں داخل کردیتے ہیں ۔ كَذلِكَ سَلَكْناهُ [ الشعراء 200] اسی طرح ہم نے انکار کو داخل کردیا ۔ فَاسْلُكْ فِيها[ المؤمنون 27] کشتی میں بٹھالو ۔ يَسْلُكْهُ عَذاباً [ الجن 17] وہ اس کو سخت عذاب میں داخل کرے گا ۔ بعض نے سلکت فلانا فی طریقہ کی بجائے سلکت فلانا طریقا کہا ہے اور عذابا کو یسل کہ کا دوسرا مفعول بنایا ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ عذابا فعل محذوف کا مصدر ہے اور یہ اصل میں نعذبہ عذابا ہے اور نیزے کی بالکل سامنے کی اور سیدھی ضرف کو طعنۃ سلکۃ کہاجاتا ہے ۔ ( سلکیٰ سیدھا نیزہ ) اور سلکۃ ماده كبک کو کہتے ہیں اس کا مذکر سلک ہے ۔- قلب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] .- ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ - جرم - أصل الجَرْم : قطع الثّمرة عن الشجر، ورجل جَارِم، وقوم جِرَام، وثمر جَرِيم . والجُرَامَة :- ردیء التمر المَجْرُوم، وجعل بناؤه بناء النّفاية، وأَجْرَمَ : صار ذا جرم، نحو : أثمر وألبن، واستعیر ذلک لکل اکتساب مکروه، ولا يكاد يقال في عامّة کلامهم للكيس المحمود، ومصدره : جَرْم، - قوله عزّ وجل : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین 29] ، - ( ج ر م ) الجرم ( ض)- اس کے اصل معنی درخت سے پھل کاٹنے کے ہیں یہ صیغہ صفت جارم ج جرام ۔ تمر جریم خشک کھجور ۔ جرامۃ روی کھجوریں جو کاٹتے وقت نیچے گر جائیں یہ نفایۃ کے وزن پر ہے ـ( جو کہ ہر چیز کے روی حصہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ) اجرم ( افعال ) جرم دلا ہونا جیسے اثمر واتمر والبن اور استعارہ کے طور پر اس کا استعمال اکتساب مکروہ پر ہوتا ہے ۔ اور پسندیدہ کسب پر بہت کم بولا جاتا ہے ۔ اس کا مصدر جرم ہے چناچہ اجرام کے - متعلق فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین 29] جو گنہگار ( یعنی کفاب میں وہ دنیا میں) مومنوں سے ہنسی کیا کرتے تھے ۔
(٢٠٠) اسی طرح ہم نے اس جھٹلانے کو ان مشرکین یعنی ابوجہل اور اس کے ساتھیوں کے دلوں میں ڈال رکھا ہے۔
آیت ٢٠٠ (کَذٰلِکَ سَلَکْنٰہُ فِیْ قُلُوْبِ الْمُجْرِمِیْنَ ) ” - قرآن کا انکار ان لوگوں کے دلوں میں اب ڈیرے جما چکا ہے۔ اب انہیں لاکھ معجزے دکھا دیے جائیں یہ ماننے والے نہیں ہیں۔
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :125 یعنی یہ اہل حق کے دلوں کی طرح تسکین روح اور شفائے قلب بن کر ان کے اندر نہیں اترتا بلکہ ایک گرم لوہے کی سلاخ بن کر اس طرح گزرتا ہے کہ وہ سیخ پا ہو جاتے ہیں اور اس کے مضامین پر غور کرنے کے بجائے اس کی تردید کے لیے حربے ڈھونڈنے میں لگ جاتے ہیں ۔
46: مطلب یہ ہے کہ قرآنِ کریم اگرچہ ہدایت کی کتاب ہے، اور جو لوگ حق کے طلب گار ہوں اُن کے دل پر اثر انداز ہوتی ہے اور اُن کی ہدایت کا ذریعہ بنتی ہے، لیکن چونکہ اِنہوں نے ضد کا راستہ اپنا رکھا ہے، اس لئے ہم بھی اِن کے دِلوں میں قرآن اس طرح داخل کرتے ہیں کہ اس کا اُن پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔