20 4 1یہ اشارہ ہے ان کے مطالبے کی طرف جو اپنے پیغمبر سے کرتے رہے ہیں کہ اگر تو سچا ہے تو عذاب لے آ۔
[١٢٠] یعنی آج انھیں مہلت ملی ہوئی ہے تو عذاب کا مطالبہ کرتے ہیں۔ پھر جب عذاب دیکھ لیں گے تو اس وقت مہلت کا مطالبہ کریں گے۔ حالانکہ نہ ان کا پہلا مطالبہ درست تھا اور نہ دوسرا درست ہوگا اس لئے کہ عذاب الٰہی کے لئے بھی ایک ضابطہ مقرر ہے اس کا دارو مدار کسی کے مطالبہ کرنے یا نہ کرنے پر نہیں ہے۔ پھر جب معین وقت پر عذاب آجاتا ہے تو پھر اس میں تاخیر نہیں ہوسکتی۔ نہ کسی کے مطالبہ پر مزید مہلت مل سکتی ہے۔
اَفَبِعَذَابِنَا يَسْتَعْجِلُوْنَ : یعنی عذاب آئے گا تو مہلت کا مطالبہ کریں گے اور آج مہلت ملی ہوئی ہے تو عذاب کا مطالبہ کرتے ہیں، کبھی کہتے ہیں : (فَاَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاۗءِ ) [ الأنفال : ٣٢ ] ” تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا۔ “ کبھی کہتے ہیں : (فَاَسْقِطْ عَلَيْنَا كِسَفًا مِّنَ السَّمَاۗءِ ) [ الشعراء : ١٨٧ ] ” سو ہم پر آسمان سے کچھ ٹکڑے گرا دے۔ “ کبھی کہتے ہیں : (اَوْ تَاْتِيَ باللّٰهِ وَالْمَلٰۗىِٕكَةِ قَبِيْلًا) [ بني إسرائیل : ٩٢ ] ” یا تو اللہ اور فرشتوں کو سامنے لے آئے۔ “ کبھی کہتے ہیں : (وَيَقُوْلُوْنَ مَتٰى هٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ) [ یونس : ٤٨ ] ” یہ وعدہ کب (پورا) ہوگا، اگر تم سچے ہو۔ “
اَفَبِعَذَابِنَا يَسْتَعْجِلُوْنَ ٢٠٤- عجل - العَجَلَةُ : طلب الشیء وتحرّيه قبل أوانه، وهو من مقتضی الشّهوة، فلذلک صارت مذمومة في عامّة القرآن حتی قيل : «العَجَلَةُ من الشّيطان» «2» . قال تعالی: سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء 37] ،- ( ع ج ل ) العجلۃ - کسی چیز کو اس کے وقت سے پہلے ہی حاصل کرنے کی کوشش کرنا اس کا تعلق چونکہ خواہش نفسانی سے ہوتا ہے اس لئے عام طور پر قرآن میں اس کی مذمت کی گئی ہے حتی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا العجلۃ من الشیطان ( کہ جلد بازی شیطان سے ہے قرآن میں ہے : سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء 37] میں تم لوگوں کو عنقریب اپنی نشانیاں دکھاؤ نگا لہذا اس کے لئے جلدی نہ کرو ۔
آیت ٢٠٤ (اَفَبِعَذَابِنَا یَسْتَعْجِلُوْنَ ) ” - اِس وقت تو یہ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بار بار مطالبہ کر رہے ہیں کہ آپ لے آئیں ہم پر وہ عذاب جس سے ہمیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ڈراتے ہیں۔ ہم تو آپ کی روز روز کی تنبیہات سے تنگ آگئے ہیں۔
47: اوپر عذاب کا جو ذکر آیا، اس کو سن کر کافر لوگ مذاق اڑانے کے انداز میں یہ کہتے تھے کہ اگر ہم پر عذاب ہونا ہے تو ابھی جلدی ہوجائے۔ یہ آیات اس کا جواب ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے فوراً کسی پر عذاب نازل نہیں کرتا، بلکہ اس کے پاس ایسے رہنما بھیجتا ہے جو اسے خبر دار کریں، اور پھر اسے مہلت دیتا ہے کہ وہ اگر حق کو قبول کرنا چاہے تو کرلے۔