Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

یہ کتاب عزیز یہ کتاب عزیز جس کے آس پاس بھی باطل پھٹک نہیں سکتا جو حیکم وحمید اللہ کی طرف سے اتری ہے جس کو روح الامین جو قوت وطاقت والے ہیں لے کر آئیں ہیں اسے شیاطین نہیں لائے پھر ان کے نہ لانے پر تین وجوہات بیان کی گئیں ۔ ایک تو یہ کہ وہ اس کے لائق نہیں ۔ ان کا کام مخلوق کو بہکانا ہے نہ کہ راہ راست پر لانا ۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جو اس کتاب کی شان ہے اس کے سراسر خلاف ہے ۔ یہ نور یہ ہدایت ہے یہ برہان ہے اور شیاطین ان تینوں چیزوں سے چڑتے ہیں وہ ظلمت کے دلدادہ اور ضلالت کے ہیرو ہیں ۔ وہ جہالت کے شیدا ہیں پس اس کتاب میں اور ان میں تو تباین اور اختلاف ہے ۔ کہاں وہ کہاں یہ؟ دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ جہاں اس کے اہل نہیں وہاں ان میں اس کو اٹھانے اور لانے کی طاقت بھی نہیں ۔ یہ تو وہ ذی عزت والا کام ہے کہ اگر کسی بڑے سے بڑے پہاڑ بھی اترے تو اس کو بھی چکنا چور کردے ۔ پھر تیسری وجہ یہ بیان فرمائی کہ وہ تو اس کے نزول کے وقت ہٹادئیے گئے تھے انہیں تو سننا بھی نہیں ملا ۔ تمام آسمان پر سخت پہرہ چوکی تھی یہ سننے کے لئے چڑھتے تھے تو ان پر آگ برسائی جاتی تھیں ۔ اس کا ایک حرف سن لینا بھی ان کی طاقت سے باہر تھا ۔ تاکہ اللہ کا کلام محفوظ طریقے پر اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچے اور آپ کی وساطت سے مخلوق الٰہی کو پہنچے ۔ جیسے سورۃ جن میں خود جنات کا مقولہ بیان ہوا ہے کہ ہم نے آسمان کو ٹٹولا تو اسے سخت پہر چوکی سے بھر پور پایا اور جگہ جگہ شعلے متعین پائے پہلے تو ہم بیٹھ کر اکا دکا بات اڑا لایا کرتے تھے لیکن اب تو کان لگاتے ہی شعلہ لپکتا ہے اور جلاکر بھسم کردیتا ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٢٣] اس آیت کا تعلق سابقہ آیت وانہ لتنزیل رب العالمین سے ہے درمیان میں قرآن کو جھٹلانے والوں کے کچھ احوال بیان کرنے کے بعد اصل مضمون کی طرف رجوع کیا گیا ہے کفار مکہ کے الزامات میں سے ایک الزام بھی تھا کہ وہ آپ کو کاہن کہتے بھی تھے اور سمجھتے بھی تھے۔ چناچہ جندب بن سفیان فرماتے ہیں۔ کہ ایک دفعہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مزاج ناساز ہوا اور آپ دو تین رات نماز تہجد کے لئے اٹھ نہ سکے۔ ایک عورت) عوراء بنت حرب، ابو سفیان کی بہن، ابو لہب کی بیوی پاس کے پاس آئے اور کہنے لگی محمد) (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ( میں سمجھتی ہوں۔ تیرے شیطان نے تجھ کو چھوڑ دیا۔ دو تین راتوں سے تیرے پاس نہیں آیا اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں۔ ) ( وَالضُّحٰى ۝ ۙ ) 93 ۔ الضحی:1) ( (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ تفسیر سورة والضحیٰ )

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَمَا تَنَزَّلَتْ بِهِ الشَّيٰطِيْنُ : یہ ذکر کرنے کے بعد کہ یہ قرآن رب العالمین کا نازل کردہ ہے، جسے جبریل امین لے کر آپ کے دل پر اترا ہے، اب ان لوگوں کی تردید فرمائی جو کہتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس یہ وحی شیطان لاتے ہیں، جیسا کہ جندب بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ جبریل (علیہ السلام) کی آمد رک گئی تو قریش کی ایک عورت کہنے لگی : ” أَبْطَأَ عَلَیْہِ شَیْطَانُہُ “ ” اس کے شیطان نے اس کے پاس آنے میں دیر کردی ہے۔ “ تو اس پر یہ آیات اتریں : (وَالضُّحٰى وَالَّيْلِ اِذَا سَـجٰى مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلٰى) [ الضحٰی : ١ تا ٣ ] ” قسم ہے دھوپ چڑھنے کے وقت کی اور رات کی جب وہ چھا جائے نہ تیرے رب نے تجھے چھوڑا اور نہ وہ ناراض ہوا۔ “ [ بخاري، التہجد، باب ترک القیام للمریض : ١١٢٥ ] اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس قرآن کو لے کر شیاطین نہیں اترے کہ یہ جادو ہو یا کہانت ہو، یا شعر ہو یا اوٹ پٹانگ خواب ہوں، کیونکہ شیاطین کا سرمایہ یہی کچھ ہوتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے شیاطین کے لیے اس کے ناممکن ہونے کی تین وجہیں بیان فرمائیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَمَا تَنَزَّلَتْ بِہِ الشَّيٰطِيْنُ۝ ٢١٠- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - شطن - الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] - ( ش ط ن ) الشیطان - اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢١٠ تا ٢١٢) اور اس قرآن کریم کو شیاطین لے کر نہیں آئے کیونکہ یہ ان کی حالت کے مناسب بھی نہیں اور نہ وہ اس کے اہل ہیں اور وہ اس پر قادر بھی نہیں کیوں کہ وہ شیاطین وحی آسمانی سے روک دیے گئے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢١٠ (وَمَا تَنَزَّلَتْ بِہِ الشَّیٰطِیْنُ ) ” - عربوں کے ہاں عام لوگ شاعروں کے بارے میں یہ خیال رکھتے تھے کہ ان کے قابو میں جن ہوتے ہیں جو ان کو نئی نئی اور اچھی اچھی باتیں اشعار کی شکل میں جوڑ جوڑ کردیتے رہتے ہیں۔ چناچہ جب قرآن نازل ہونا شروع ہوا تو بعض مشرکین نے اس کے بارے میں بھی کہنا شروع کردیا کہ اسے شیاطینِ جن نازل کر رہے ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :130 پہلے اس معاملے کا مثبت پہلو ارشاد ہوا تھا کہ یہ رب العالمین کی نازل کردہ ہے اور اسے روح الامین لے کر اترا ہے ۔ اب اس کا منفی پہلو بیان کیا جا رہا ہے کہ اسے شیاطین لے کر نہیں اترے ہیں جیسا کہ حق کے دشمنوں کا الزام ہے ۔ کفار قریش نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو نیچا دکھانے کے لیے جھوٹ کی جو مہم چلا رکھی تھی اس میں سب سے بڑی مشکل انہیں یہ پیش آ رہی تھی کہ اس حیرت انگیز کلام کی کیا توجیہ کی جائے جو قرآن کی شکل میں لوگوں کے سامنے آ رہا تھا اور دلوں میں اترتا چلا جا رہا تھا ۔ یہ بات تو ان کے بس میں نہ تھی کہ لوگوں تک اس کے پہنچنے کو روک سکیں ۔ اب پریشان کن مسئلہ ان کے لیے یہ تھا کہ لوگوں کو اس سے بد گمان کرنے اور اس کی تاثیر سے بچانے کے لیے کیا بات بنائیں ۔ اس گھبراہٹ میں جو الزامات انہوں نے عوام میں پھیلائے تھے ان میں سے ایک یہ تھا کہ محمد صلی الہ علیہ وسلم معاذ اللہ کاہن ہیں اور عام کاہنوں کی طرح ان پر بھی یہ کلام شیاطین القا کرتے ہیں ۔ اس الزام کو وہ اپنا سب سے زیادہ کارگر ہتھیار سمجھتے تھے ۔ ان کا خیال تھا کہ کسی کے پاس اس بات کو جانچنے کے لیے آخر کیا ذریعہ ہو سکتا ہے کہ یہ کلام کوئی فرشتہ لاتا ہے یا شیطان اور شیطانی القاء کی تردید آخر کوئی کرے گا تو کیسے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

49: یہاں سے چند ان باتوں کی تردید کی جا رہی ہے جو کفار مکہ قرآن کریم کے بارے میں کہا کرتے تھے۔ بنیادی طور پر ان کے دو دعوے تھے، بعض لوگوں کا کہنا تھا کہ معاذ اللہ آنحضرت صلی اللہ علہ وسلم کاہن ہیں اور بعض لوگ آپ کو شاعر کہہ کر قرآن کریم کو شاعری کی کتاب قرار دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آیات میں ان دونوں باتوں کی تردید فرمائی ہے۔ ’’ کاہن‘‘ ان لوگوں کو کہا جاتا تھا جن کا دعویٰ یہ تھا کہ جنات ان کے قبضے میں ہیں جو انہیں غیب کی خبریں لا کردیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں کاہنوں کی ٰیہ حقیقت بیان فرمائی ہے کہ جو جنات ان کے پاس آتے ہیں، وہ در اصل شیاطین ہیں۔ اور قرآن کریم کے مضامین ایسے ہیں کہ شیاطین کو کبھی پسند نہیں آسکتے، اور نہ وہ ایسی نیکی کی باتیں کرنے کی قدرت رکھتے ہیں۔