Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٢٤] ایسا قرآن نازل کرنا شیطانوں کے بس کا روگ نہیں۔ جو سراسر لوگوں کی ہدایت و فلاح کا ضامن ہو۔ جس میں خالصتؤہ توحید باری کی تعلیم دی گئی ہے۔ اور شرک اور بت پرستی سے روکا گیا ہے۔ آخرت کی باز پرس کا خوف دلایا گیا ہے۔ ظالم اور بداخلاقی سے منع کیا گیا ہے۔ نیکوکاری اور راست بازی اور خلق خدا کے ساتھ احسان کی تعلیم دی گئی ہے اور اس پر ایمان لانے والوں کو ایک مکمل ضابطہ حیات عطا کیا گیا ہے کیا کسی شیطان کے کلام میں ایسی باتوں کا پایا جانا ممکن ہے ؟ شیطان تو قرآن کے نام تک سے بدکتے ہیں وہ ایسا کلام لا کیسے سکتے ہیں ؟

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَمَا يَنْۢبَغِيْ لَهُمْ : پہلی یہ کہ اتنا پاکیزہ کلام لے کر اترنا شیاطین کے لائق ہی نہیں، کیونکہ قرآن سر اسر خیر و برکت اور نور ہے، جبکہ شیاطین سرا سر شر و فساد اور ظلمت سے بھرے ہوئے ہیں، دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔- وَمَا يَسْتَطِيْعُوْنَ : دوسری یہ کہ اگر ان کے لائق ہو بھی تو وہ اس جیسا کلام لانے کی طاقت ہی نہیں رکھتے، خواہ کتنی کوشش کرلیں، فرمایا : (قُلْ لَّىِٕنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلٰٓي اَنْ يَّاْتُوْا بِمِثْلِ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا يَاْتُوْنَ بِمِثْلِهٖ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيْرًا) [ بني إسرائیل : ٨٨ ] ” کہہ دے اگر سب انسان اور جن جمع ہوجائیں کہ اس قرآن جیسا بنا لائیں تو اس جیسا نہیں لائیں گے، اگرچہ ان کا بعض بعض کا مددگار ہو۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَمَا يَنْۢبَغِيْ لَہُمْ وَمَا يَسْتَطِيْعُوْنَ۝ ٢١١ۭ- ابتغاء (ينبغي)- البَغْي : طلب تجاوز الاقتصاد فيما يتحرّى، تجاوزه أم لم يتجاوزه، فتارة يعتبر في القدر الذي هو الكمية، وتارة يعتبر في الوصف الذي هو الكيفية، يقال : بَغَيْتُ الشیء : إذا طلبت أكثر ما يجب، وابْتَغَيْتُ كذلك، قال اللہ عزّ وجل : لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ [ التوبة 48] ، - وأمّا الابتغاء - فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل 20] ، الابتغاء فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل 20] ، وقولهم : يَنْبغي مطاوع بغی. فإذا قيل : ينبغي أن يكون کذا ؟- فيقال علی وجهين : أحدهما ما يكون مسخّرا للفعل، نحو : النار ينبغي أن تحرق الثوب، والثاني : علی معنی الاستئهال، نحو : فلان ينبغي أن يعطی لکرمه، وقوله تعالی: وَما عَلَّمْناهُ الشِّعْرَ وَما يَنْبَغِي لَهُ [يس 69] ، علی الأول، فإنّ معناه لا يتسخّر ولا يتسهّل له، ألا تری أنّ لسانه لم يكن يجري به، وقوله تعالی: وَهَبْ لِي مُلْكاً لا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي [ ص 35] .- ( ب غ ی ) البغی - کے معنی کسی چیز کی طلب میں درمیانہ ردی کی حد سے تجاوز کی خواہش کرنا کے ہیں ۔ خواہ تجاوز کرسکے یا نہ اور بغی کا استعمال کیت اور کیفیت یعنی قدر وو صف دونوں کے متعلق ہوتا ہے ۔ کہا جاتا ۔ کسی چیز کے حاصل کرنے میں جائز حد سے تجاوز ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ [ التوبة 48 پہلے بھی طالب فسادر ہے ہیں ۔- الا بتغاء - یہ خاص کر کوشش کے ساتھ کسی چیز کو طلب کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ اگر اچھی چیز کی طلب ہو تو یہ کوشش بھی محمود ہوگی ( ورنہ مذموم ) چناچہ فرمایا : ۔ ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ ( سورة الإسراء 28) اپنے پروردگار کی رحمت ( یعنی فراخ دستی ) کے انتظار میں ۔ وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل 20] بلکہ اپنے خدا وندی اعلیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے ۔- اور ینبغی ( انفعال ) بغی کا مطاوع آتا ہے اور ینبغی ایکون کذا کا محاورہ طرح استعمال ہوتا ہے ( 1) اس شے کے متعلق جو کسی فعل کے لئے مسخر ہو جیسے یعنی کپڑے کو جلا ڈالنا آگ کا خاصہ ہے ۔ ( 2) یہ کہ وہ اس کا اہل ہے یعنی اس کے لئے ایسا کرنا مناسب اور زیبا ہے جیسے کہ فلان کے لئے اپنی کرم کی وجہ سے بخشش کرنا زیبا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَما عَلَّمْناهُ الشِّعْرَ وَما يَنْبَغِي لَهُ [يس 69] اور ہم نے ان ( پیغمبر ) کو شعر گوئی نہیں سکھلائی اور نہ وہ ان کو شایاں ہے ۔ پہلے معنی پر محمول ہے ۔ یعنی نہ تو آنحضرت فطر تا شاعر ہیں ۔ اور نہ ہی سہولت کے ساتھ شعر کہہ سکتے ہیں اور یہ معلوم کہ آپ کی زبان پر شعر جاری نہ ہوتا تھا ۔ اور آیت کریمہ : وَهَبْ لِي مُلْكاً لا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي [ ص 35] اور مجھ کو ایسی بادشاہ ہی عطا فرما کر میرے بعد کیسی کو شایاں نہ ہو ۔ ( دوسرے معنی پر محمول ہے ۔ یعنی میرے بعد وہ سلطنت کسی کو میسر نہ ہو )- الاستطاعۃ - . وَالاسْتِطَاعَةُ : استفالة من الطَّوْعِ ، وذلک وجود ما يصير به الفعل متأتّيا، الاسْتِطَاعَةُ أخصّ من القدرة . قال تعالی: لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء 43] - ( ط و ع ) الطوع - الاستطاعۃ ( استفعال )- یہ طوع سے استفعال کے وزن پر ہے اور اس کے معنی ہیں کسی کام کو سر انجام دینے کے لئے جن اسباب کی ضرورت ہوتی ہے ان سب کا موجہ ہونا ۔ اور استطاعت قدرت سے اخص ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء 43] وہ نہ تو آپ اپنی مدد کرسکتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :131 یعنی یہ کلام اور یہ مضامین شیاطین کے منہ پر پھبتے بھی تو نہیں ہیں ۔ کوئی عقل رکھتا ہو تو خود سمجھ سکتا ہے کہ کہیں یہ باتیں ، جو قرآن میں بیان ہو رہی ہیں ، شیاطین کی طرف سے بھی ہو سکتی ہیں ؟ کیا تمہاری بستیوں میں کاہن موجود نہیں ہیں اور شیاطین سے ربط ضبط رکھ کر جو باتیں وہ کرتے ہیں وہ تم نے کبھی نہیں سنیں ؟ کیا کبھی تم نے سنا ہے کہ کسی شیطان نے کسی کاہن کے ذریعہ سے لوگوں کو خدا پرستی اور خدا ترسی کی تعلیم دی ہو؟ شرک و بت پرستی سے روکا ہو؟ آخرت کی باز پرس کا خوف دلایا ہو؟ ظلم اور بدکاری اور بد اخلاقیوں سے منع کیا ہو؟ نیکو کاری اور راستبازی اور خلق خدا کے ساتھ احسان کی تلقین کی ہو؟ شیاطین کا یہ مزاج کہاں ہے ؟ ان کا مزاج تو یہ ہے کہ لوگوں میں فساد ڈلوائیں اور انہیں برائیوں کی طرف رغبت دلائیں ۔ ان سے تعلق رکھنے والے کاہنوں کے پاس تو لوگ یہ پوچھنے جاتے ہیں کہ عاشق کو معشوق ملے گا یا نہیں ؟ جوئے میں کونسا داؤ مفید رہے گا ؟ دشمن کو نیچا دکھانے کے لیے کیا چال چلی جائے ؟ اور فلاں شخص کا اونٹ کس نے چرایا ہے ؟ یہ مسائل اور معاملات چھوڑ کر کاہنوں اور ان کے سرپرست شیاطین کو خلق خدا کی اصلاح ، بھلائیوں کی تعلیم اور برائیوں کے استیصال کی کب سے فکر لاحق ہو گئی؟ سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :132 یعنی شیاطین اگر کرنا چاہیں بھی تو یہ کام ان کے بس کا نہیں ہے کہ تھوڑی دیر کے لیے بھی اپنے آپ کو انسانوں کے سچے معلم اور حقیقی مزکی کے مقام پر رکھ کر خالص حق اور خالص خیر کی وہ تعلیم دے سکیں جو قرآن دے رہا ہے ۔ وہ دھوکا دینے کی خاطر بھی اگر یہ روپ دھاریں تو ان کا کام ایسی آمیزشوں سے خالی نہیں ہو سکتا جو ان کی جہالت اور ان کے اندر چھپی ہوئی شیطانی فطرت کی غمازی نہ کر دیں ۔ نیت کی خرابی ، ارادوں کی نا پاکی ، مقاصد کی خباثت لازماً اس شخص کی زندگی میں بھی اور اس کی تعلیم میں بھی جھلک کر رہے گی جو شیاطین سے الہام حاصل کر کے پیشوا بن بیٹھا ہو ۔ بے آمیز راستی اور خالص نیکی نہ شیاطین القاء کر سکتے ہیں اور نہ ان سے ربط ضبط رکھنے والے اس کے حامل ہو سکتے ہیں ۔ پھر تعلیم کی بلندی و پاکیزگی پر مزید وہ فصاحت و بلاغت اور وہ علم حقائق ہے جو قرآن میں پایا جاتا ہے ۔ اسی بنیاد پر قرآن میں بار بار یہ چیلنج دیا گیا ہے کہ انسان اور جن مل کر بھی چاہیں تو اس کتاب کے مانند کوئی چیز تصنیف کر کے نہیں لا سکتے : قُلْ لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلیٰٓ اَنْ یَّاْتُوْا بِمِثْلِ ھٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا یَاْتُوْنَ بِمِثْلِہِ وَلَوْ کَانَ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ ظَہِیْراً ( بنی اسرائیل ۔ آیت 88 ) قُلْ فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّنْ مِّثْلِہ وَادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ( یونس ۔ آیت 38 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani