21 2 1ان آیات میں قرآن کی، شیطانی دخل اندازیوں سے، محفوظیت کا بیان ہے۔ ایک تو اس لئے کہ شیا طین کا قرآن لے کر نازل ہونا، ان کے لائق نہیں ہے۔ کیونکہ ان کا مقصد شر و فساد اور منکرات کی اشاعت ہے، جب کہ قرآن کا مقصد نیکی کا حکم اور فروغ اور منکرات کا سد باب ہے گویا دونوں ایک دوسرے کی ضد اور باہم منافی ہیں۔ دوسرے یہ کہ شیاطین اس کی طاقت بھی نہیں رکھتے، تیسرے، نزول قرآن کے وقت شیاطین اس کے سننے سے دور اور محروم رکھے گئے، آسمانوں پر ستاروں کو چوکیدار بنادیا گیا تھا اور جو بھی شیطان اوپر جاتا یہ ستارے اس پر بجلی بن کر گرتے اور بھسم کردیتے، اس طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن کو شیاطین سے بچانے کا خصوصی اہتمام فرمایا۔
[١٢٥] یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنا کلام جبریل روح الامین کو دے کر بھیجا جو سیدھے یہ کلام لے کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل پر نازل ہوئے۔ اب اس راستہ میں کوئی ایسا مقام آتا ہے جہاں سے شیطان اس کلام کا کچھ حصہ سن سکتے ہوں ؟ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اس مضمون کی وضاحت کردی گئی ہے کہ جب یہ کلام نازل کیا جاتا ہے جو اس کے ارد گرد کڑا پہرہ بھی مقرر کیا جاتا ہے جس کے دو فائدے ہیں۔ ایک یہ کہ اس میں کہیں سے بھی باطل کی آمیزش نہیں ہوسکتی (٤١: ٤٢) اور دوسرا یہ کہ شیاطین اگر اس کلام کو چوری چھپے سننے کی کوشش کریں تو سن نہیں سکتے بلکہ شہاب ثاقب کے ذریعہ ان کی تواضع کی جاتی ہے۔ (٧٢: ٩ (
اِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُوْلُوْنَ : تیسری وجہ یہ کہ اگر بالفرض وہ سن سنا کر لانے کی طاقت بھی رکھتے ہوں تو بارگاہ الٰہی میں ان کا دخل ہی نہیں کہ سن لیں، زیادہ سے زیادہ یہ ہوسکتا تھا کہ وہ فرشتوں سے سن کر آگے پہنچا دیں، مگر قرآن کے نزول کے وقت ان پر فرشتوں کی باہمی گفتگو سننے پر بھی پابندی لگا دی گئی، اب وہ سننے کی کوشش کرتے ہیں تو ان پر شہابوں کی بارش ہوتی ہے۔ کوئی ایک آدھ بات چوری سے سن بھی لیں تو سیکڑوں جھوٹوں کی آمیزش کی وجہ سے اس کا اعتبار نہیں رہتا۔ دیکھیے سورة جنّ (٨ تا ١٠) اور صافات (٦ تا ١٠) ۔
اِنَّہُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُوْلُوْنَ ٢١٢ۭ- عزل - الاعْتِزَالُ : تجنّب الشیء عمالة کانت أو براءة، أو غيرهما، بالبدن کان ذلک أو بالقلب، يقال : عَزَلْتُهُ ، واعْتَزَلْتُهُ ، وتَعَزَّلْتُهُ فَاعْتَزَلَ. قال تعالی: وَإِذِ اعْتَزَلْتُمُوهُمْ وَما يَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ- [ الكهف 16] - ( ع ز ل ) الا عتزال - کے معنی ہیں کسی چیز سے کنارہ کش ہوجانا عام اس سے کہ وہ چیز کوئی پیشہ ہو یا کوئی بات وغیرہ ہو جس سے بری ہونے کا اعلان کیا جائے نیز وہ علیحدہ گی بذریعہ بدن کے ہو یا بذریعہ دل کے دنوں قسم کی علیحگی پر بولا جاتا ہے عزلتہ واعتزلتہ وتعزلتہ میں نے اس کو علیحہ فاعتزل چناچہ وہ علیحہ ہ ہوگیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذِ اعْتَزَلْتُمُوهُمْ وَما يَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ الكهف 16] اور جب تم نے ان مشرکوں سے اور جن کی یہ خدا کے سوا عبادت کرتے ہیں ان سے کنارہ کرلیا ۔
آیت ٢١٢ (اِنَّہُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُوْلُوْنَ ) ” - یہ بہت اہم مضمون ہے جو یہاں پہلی دفعہ آیا ہے ‘ لیکن آئندہ سورتوں میں متعدد مقامات پر اس کا ذکر آئے گا۔ اس موضوع پر قرآن سے ہمیں جو معلومات ملتی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ فرشتے نوری مخلوق ہیں اور جن آگ سے بنائے گئے ہیں : (وَخَلَقَ الْجَآنَّ مِنْ مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍ ) ( الرحمٰن) ” اور پیدا کیا اس نے جناتّ کو آگ کی لپٹ سے “۔ چونکہ فرشتوں کی طرح جنات کا مادۂ تخلیق بھی بہت لطیف ہے اس وجہ سے ان کے لیے فرشتوں کا قرب حاصل کرلینا اور ان سے کچھ معلومات حاصل کرلینا ممکن ہے۔ چناچہ عام طور پر شیاطینِ جن کسی نہ کسی حد تک فرشتوں سے عالم بالا کی خبریں معلوم کرنے میں کامیاب ہوجاتے تھے ‘ لیکن جب بھی کسی رسول کی بعثت ہوتی تو عالم بالا میں خصوصی پہرے بٹھا دیے جاتے تاکہ فرشتوں کے ذریعے وحی کی ترسیل کو محفوظ بنایا جاسکے۔ اسی اصول کے تحت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد عالم بالا کی خاص حدود سے آگے ِ جنوں کا داخلہ مستقل طور پر بند کردیا گیا اور وہاں سے وہ کسی قسم کی سن گن لینے کے اہل نہیں رہے۔ یہی وہ کیفیت اور صورت حال ہے جس کا ذکر آیت زیر مطالعہ میں کیا گیا ہے کہ وہ تو اب سننے سے بھی معزول کردیے گئے ہیں اور عالم بالا سے ان کے سن گن لینے کا بھی کوئی امکان نہیں رہا۔ سورة الجن میں یہ مضمون قدرے زیادہ وضاحت سے آئے گا۔
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :133 یعنی اس قرآن کے القاء میں دخیل ہونا تو درکنار ، جس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے روح الامین اس کو لے کر چلتا ہے اور جس وقت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر وہ اس کو نازل کرتا ہے ، اس پورے سلسلے میں کسی جگہ بھی شیاطین کو کان لگا کر سننے تک کا موقع نہیں ملتا ۔ وہ آس پاس کہیں پھٹکنے بھی نہیں پاتے کہ سن گن لے کر ہی کوئی بات اچک لے جائیں اور جا کر اپنے دوستوں کو بتا سکیں کہ آج محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) یہ پیغام سنانے والے ہیں ، یا ان کی تقریر میں فلاں بات کا بھی ذکر آنے والا ہے ( مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، الحجر ، حواشی 8 تا 12 ۔ جلد چہارم ، الصافات ، حواشی 5 تا 7 اور سورہ جن ، آیات 8 ۔ 9 ۔ 27 ) ۔