مستحق سزا لوگوں سے الگ ہوجاؤ خود اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب کر کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ صرف میری ہی عبادت کر ۔ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کر جو بھی ایسا کرے گا وہ ضرور مستحق سزا ہے ۔ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ہوشیار کردے کہ بجز ایمان کے کوئی چیز نجات دہندہ نہیں ۔ پھر حکم دیتا ہے کہ موحد متبع سنت لوگوں سے فروتنی کے ساتھ ملتا جلتا رہ ۔ اور جو بھی میرے حکم نہ مانے خواہ کوئی ہو تو اس سے بےتعلق ہوجا ۔ اور اپنی بیزاری کا اظہار کردے ۔ یہ خاص طور کی خاص لوگوں کی تنبیہہ عام لوگوں کی تنبیہہ کے منافی نہیں کیونکہ یہ اس کا جز ہے ۔ اور جگہ ارشاد ہے تو اس قوم کو ڈرادے جن کے بڑے بھی ڈرائے نہیں گئے اور جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اور آیت میں ہے ( وَلِتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرٰي وَمَنْ حَوْلَهَا 92 ) 6- الانعام:92 ) تاکہ تو مکے والوں کو اور اس کے گرد والوں کو سب کو ڈرائے ۔ اور آیت میں ہے تو اس قرآن سے انہیں ہوشیار کردے ۔ جو اپنے رب کے پاس جمع ہونے سے خوف زدہ ہو رہے ہیں ۔ دیگر آیت میں ارشاد فرمایا کہ تو اس قرآن سے پرہیزگاروں کو خوشخبری سنادے اور سرکشوں کو ڈرادے اور آیت میں فرمایا ( لِاُنْذِرَكُمْ بِهٖ وَمَنْۢ بَلَغَ ۭ 19ۘ ) 6- الانعام:19 ) تاکہ میں اسی قرآن کے ساتھ تمہیں اور جسے بھی یہ پہنچے ڈرادوں ۔ اور فرمان ہے اس کے ساتھ ان تمام فرقوں میں سے جو بھی کفر کرے اس کی سزا جہنم ہے ۔ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس امت میں سے جس کے کان میری رسالت کی بات پڑجائے خواہ یہودی ہو یا نصرانی پھر وہ مجھ پر ایمان نہ لائے تو ضرور وہ جہنم میں جائے گا اس آیت کی تفسیر میں بہت سی حدیثیں ہیں انہیں سن لیجئے ۔ ( ١ ) مسند احمد میں ہے جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صفا پہاڑ پر چڑھ گئے ۔ اور یا صباحاہ کرکے آواز دی ۔ لوگ جمع ہوگئے جو نہیں آسکتے تھے انہوں نے اپنے آدمی بھیج دئیے اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اولاد عبدالمطلب اے اولاد فہر بتاؤ اگر میں تم سے کہوں کہ اس پہاڑ کی پشت پر تمہارے دشمن کا لشکر پڑا ہوا ہے اور گھات میں ہے ۔ موقعہ پاتے ہی تم سب کو قتل کر ڈالے گا تو کیا تم مجھے سچا سمجھو گے؟ سب نے بیک زبان کہا کہ ہاں ہم آپ کو سچا ہی سمجھیں گے ۔ اب آپ نے فرمایا سن لو میں تمہیں آنے والے سخت عذابوں سے ڈرانے والاہوں ۔ اس پر ابو لہب ملعون نے کہا تو ہلاک ہوجائے یہی سنانے کے لئے تونے ہمیں بلایا تھا اس کے جواب میں سورۃ تبت یدا اتری ( بخاری مسلم وغیرہ ) ( ٢ ) مسند احمد میں ہے اس آیت کے اترتے ہی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوگئے اور فرمانے لگے اے فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اے صفیہ بنت عبدالطلب سنو میں تمہیں اللہ کے ہاں کچھ کام نہیں آسکتا ۔ ہاں میرے پاس جو مال ہو جتنا تم چاہو میں دینے کے لئے تیار ہو ( مسلم ) ( ٣ ) ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اس آیت کے اترتے ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قریشیوں کو بلایا اور انہیں ایک ایک کرکے اور عام طور پر خطاب کرکے فرمایا اے قریشیو اپنی جانیں جہنم سے بچالو اے کعب کے خاندان والو اپنی جانیں آگ سے بچالو اے ہاشم کی اولاد کے لوگو اپنے آپ کو اللہ کے عذابوں سے چھڑوالو ۔ اے عبد المطلب کے لڑکو اللہ کے عذابوں سے بچنے کی کوشش کرو ۔ اے فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنت محمد اپنی جان کو دوزخ سے بچالے قسم اللہ کی میں اللہ کے ہاں کی کسی چیز کا مالک نہیں ۔ بیشک تمہاری قرابت داری ہے جس کے دنیوی حقوق میں ہر طرح ادا کرنے کو تیار ہوں ۔ ( مسلم وغیرہ ) بخاری مسلم میں بھی قدرے الفاظ کی تبدیلی سے یہ حدیث مروی ہے اسمیں یہ بھی ہے کہ آپ نے اپنی پھوپھی حضرت صفیہ اور اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے یہ بھی فرمایا کہ میرے مال میں سے جو چاہو مجھ سے طلب کرلو ۔ ابو یعلی میں ہے کہ آپ نے فرمایا اے قصی اے ہاشم اے عبد مناف کی اولادو یاد رکھو میں ڈرانے والا ہوں اور موت بدلہ دینے والی ہے اس کا چھاپہ پڑنے ہی والا ہے اور قیامت وعدہ گاہ ہے ( ٤ ) مسند احمد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت اتری تو آپ ایک پہاڑی پر چڑھ گئے جس کی چوٹی پر پتھر تھے وہاں پہنچ کر آپ نے فرمایا اے بنی عبد مناف میں تو صرف چوکنا کردینے والا ہوں میری اور تمہاری مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے دشمن کو دیکھا اور دوڑ کر اپنے عزیزوں کو ہوشیار کرنے کے لئے آیا تاکہ وہ بچاؤ کرلیں دور سے ہی اس نے غل مچانا شروع کردیا کہ پہلے ہی خبردار ہوجائیں ( مسلم نسائی وغیرہ ) حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ جب یہ آیت اتری تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہل بیت کو جمع کرلیا یہ تیس شخص تھے جب یہ کھا پی چکے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کون ہے جو میرا قرض اپنے ذمے لے ۔ اور میرے بعد میرے وعدے پورے کرے وہ جنت میں بھی مرا ساتھی اور میری اہل میں خلیفہ ہوگا ۔ تو ایک شخص نے کہا آپ تو سمندر ہیں آپ کے ساتھ کون کھڑا ہوسکتا ہے؟ تین دفعہ آپ نے فرمایا لیکن کوئی تیار نہ ہوا تو میں نے کہا یارسول اللہ میں اس کے لئے تیار ہوں ( مسند احمد ) ایک اور سند میں اس سے زیادہ تفصیل کے ساتھ مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو عبدالمطلب کو جمع کیا یہ ایک جماعت کی جماعت تھی اور بڑے کھاؤ تھے ایک شخص ایک ایک بکری کا بچہ کھاجاتا تھا اور ایک بڑا بدھنا دودھ کا پی جاتا تھا آپ نے ان سب کے کھانے کے لئے صرف تین پاؤ کے قریب کھانا پکوایا لیکن اللہ نے اسی میں اتنی برکت دی کہ سب پیٹ بھر کر کھاچکے اور خوب آسودہ ہو کر پی چکے لیکن نہ تو کھانے میں کمی نظرآئی تھی نہ پینے کی چیز گھٹی ہوئی معلوم ہوتی تھی ۔ پھر آپ نے فرمایا اے اولاد عبد المطلب میں تمہاری طرف خصوصا اور تمام لوگوں کی طرف عموما نبی بناکر بھیجا گیا ہوں ۔ اس وقت تم ایک معجزہ بھی میرا دیکھ چکے ہو ۔ اب تم میں سے کون تیار ہے کہ مجھ سے بیعت کرے وہ میرا بھائی اور میرا ساتھی ہوگا لیکن ایک شخص بھی مجمع سے کھڑا نہ ہوا سوائے میرے اور میں اس وقت عمر کے لحاظ سے ان سب سے چھوٹا تھا آپ نے فرمایا تم بیٹھ جاؤ تین مرتبہ آپ نے یہی فرمایا اور تینوں مرتبہ بجز میرے اور کوئی کھڑا نہ ہوا ۔ تیسری مرتبہ آپ نے میری بیعت لی ۔ امام بہیقی دلائل النبوۃ میں لائے ہیں کہ جب یہ آیت اتری تو آپ نے فرمایا اگر میں اپنی قوم کے سامنے ابھی ہی اسے پیش کروں گا تو وہ نہ مانیں گے ۔ اور ایسا جواب دیں گے جو مجھ پر گراں گزرے پس آپ خاموش ہوگئے اتنے میں حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے اور فرمانے لگے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اگر آپ نے تعمیل ارشاد میں تاخیر کی تو ڈر ہے کہ آپ کو سزا ہوگی اسی وقت آپ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلایا اور فرمایا مجھے حکم ہوا ہے کہ میں اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرادوں میں نے یہ خیال کرکے اگر پہلے ہی سے ان سے کہا گیا تو یہ مجھے ایسا جواب دیں گے جس سے مجھے ایذاء پہنچے میں خاموش رہا لیکن حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے اور کہا کہ اگر تو نے ایسا نہ کیا تو تجھے عذاب ہوگا تو اب اے علی تم ایک بکری ذبح کرکے گوشت پکالو ۔ اور کوئی تین سیر اناج بھی تیار کرلو اور ایک بدھنا دودھ کا بھی بھر لو ۔ اور اولاد عبدالمطلب کو بھی جمع کرلو میں نے ایسا ہی کیا اور سب کو دعوت دے دی چالیس آدمی جمع ہوئے یا ایک آدھ کم یا ایک آدھ زیادہ ان میں آپ کے چچا بھی تھے ۔ ابو طالب ، حمزہ ، عباس ، اور ابو لہب کافر خبیث ۔ میں نے سالن پیش کیا تو آپ نے اس میں سے ایک بوٹی لے کر کچھ کھائی پھر اسے ہنڈیا میں ڈال دیا اور فرمایا لو اللہ کا نام لو اور کھانا شروع کرو سب نے کھانا شروع کیا یہاں تک کہ پیٹ بھر گئے لیکن اللہ کی قسم گوشت اتناہی تھا جتنارکھتے وقت رکھا تھاصرف ان کی انگلیوں کے نشانات تو تھے مگر گوشت کچھ بھی نہ گھٹا تھا ۔ حالانکہ ان میں سے ایک ایک اتنا گوشت تو کھالیتا تھا ۔ پھر مجھ سے فرمایا اے علی انہیں پلاؤ ۔ میں وہ بدھنا لایا سب نے باری باری شکم سیر ہو کر پیا اور خوب آسودہ ہوگئے لیکن دودھ بالکل کم نہ ہوا ۔ حالانکہ ان میں سے ایک ایک اتنا دودھ پی لیاکرتا تھا ۔ اب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ فرمانا چاہا لیکن ابو لہب جلدی سے اٹھ کھڑا ہوا اور کہنے لگا لو صاحب اب معلوم ہوا کہ یہ تمام جادوگری محض اس لئے تھی ۔ چنانچہ مجمع اسی وقت اکھڑ گیا اور ہر ایک اپنی راہ لگ گیا ۔ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نصیحت وتبلیغ کو موقعہ نہ ملا دوسرے روز آپ نے حضرت علی سے فرمایا آج پھر اسی طرح ان سب کی دعوت کرو کیونکہ کل اس نے مجھے کچھ کہنے کا وقت ہی نہیں دیا ۔ میں نے پھر اسی طرح کا انتظام کیا سب کو دعوت دی آئے کھایا پیا پھر کل کی طرح آج بھی ابو لہب نے کھڑے ہو کر وہی بات کہی اور اسی طرح سب تتر بتر ہوگئے ۔ تیسرے دن پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی سے یہی فرمایا آج جب سب کھا پی چکے توحضور نے جلدی سے اپنی گفتگو شروع کردی اور فرمایا اے بنو عبدالمطلب واللہ کوئی نوجوان شخص اپنی قوم کے پاس اس سے بہتر بھلائی نہیں لایا ، جو میں تمہارے پاس لایا ہوں میں دنیا اور آخرت کی بھلائی لایا ہوں ۔ اور روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اب بتاؤ تم میں سے کون میرے ساتھ اتفاق کرتا ہے اور کون مرا ساتھ دیتا ہے؟ مجھے اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا ہے کہ پہلے میں تمہیں اسکی دعوت دوں جو آج میری مان لے گا وہ میرا بھائی ہوگا اور یہ درجے ملیں گے ۔ لوگ سب خاموش ہوگئے لیکن حضرت علی جو اس وقت اس مجمع میں سب سے کم عمر تھے اور دکھتی آنکھوں والے اور موٹے پیٹ والے اور بھری پنڈلیوں والے تھے ، بول اٹھے یارسول اللہ اس امر میں آپ کی وزارت میں قبول کرتا ہوں آپ نے میری گردن پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ یہ میرا بھائی ہے اور ایسی فضیلتوں والا ہے تم اس کی سنو اور مانو ۔ یہ سن کر وہ سب لوگ ہنستے ہوتے اٹھ کھڑے ہوئے اور ابو طالب سے کہنے لگے لے اب تو اپنے بچے کی سن اور مان لیکن اس کا راوی عبدالغفار بن قاسم بن ابی مریم متروک ہے کذاب ہے اور ہے بھی شیعہ ۔ ابن مدینی وغیرہ فرماتے ہیں یہ حدیثیں گھڑلیاکرتا تھا ، دیگر ائمہ حدیث نے بھی اس کو ضعیف لکھا ہے ۔ اور روایت میں ہے کہ اس دعوت میں صرف بکری کے ایک پاؤں کا گوشت پکا تھا اس میں یہ بھی ہے کہ جب حضور خطبہ دینے لگے تو انہوں نے جھٹ سے کہہ دیا کہ آج جیسا جادو تو ہم نے کبھی نہیں دیکھا ۔ اس پر آپ خاموش ہوگئے ۔ اس میں آپ کا خطبہ یہ ہے کہ کون ہے جو میرا قرض اپنے ذمہ لے اور میری اہل میں میرا خلیفہ بنے اس پر سب خاموش رہے اور عباس بھی چپ تھے صرف اپنے مال کی بخل کی وجہ سے ۔ میں عباس کو خاموش دیکھ کر خاموش ہو رہا ۔ آپ نے دوبارہ یہی فرمایا دوبارہ بھی سب طرف خاموشی تھی مجھ سے رہا نہ گیا اور میں بول پڑا ۔ میں اس وقت ان سب سے گری پڑی حالت والا ۔ چندھی آنکھوں والا بڑے پیٹ والا اور بوجھل پنڈلیوں والا تھا ۔ ان روایتوں میں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ کون میرا قرض اپنے ذمے لیتا ہے اور میری اہل کی میرے بعد حفاظت اپنے ذمے لیتا ہے؟ اس سے مطلب آپ کا یہ تھا کہ جب میں اس تبلیغ دین کو پھیلاؤں گا اور لوگوں کو اللہ کی توحید کی طرف بلاؤں گا تو سب کے سب میرے دشمن ہوجائیں گے اور مجھے قتل کردیں گے ۔ یہی کھٹکا آپ کو لگا رہا یہاں تک کہ یہ آیت اتری ( وَاللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ 67 ) 5- المآئدہ:67 ) اللہ تعالیٰ تجھے لوگوں کی ایذاء رسانی سے بچالے گا ۔ اس وقت آپ بےخطر ہوگئے ۔ اس سے پہلے آپ اپنی پہرہ چوکی بھی بٹھاتے تھے لیکن اس آیت کے اترنے کے بعد وہ بھی ہٹادی ۔ اس وقت فی الواقع تمام بنوہاشم میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے زیادہ ایمان والا اور تصدیق ویقین والا کوئی نہ تھا ۔ اس لئے ہی آپ نے حضور کے ساتھ اقرار کیا ۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کوہ صفا پر عام دعوت دی اور لوگوں کو توحید خالص کی طرف بلایا اور اپنی نبوت کا اعلان کیا ۔ ابن عساکر میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی مسجد میں بیٹھے ہوئے وعظ فرما رہے تھے فتوے دے رہے تھے ۔ مجلس کھچاکھچ بھری ہوئی تھی ۔ ہر ایک کی نگاہیں آپ کی چہرے پر تھیں اور شوق سے سن رہے تھے لیکن آپ کے لڑکے اور گھر کے آدمی آپس میں بےپرواہی سے اپنی باتوں میں مشغول تھے ۔ کسی نے حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس طرف توجہ دلائی کہ اور سب لوگ تو دل سے آپ کی علمی باتوں میں دلچسپی لے رہے ہیں اور آپ کے اہل بیت اس سے بالکل بےپرواہ ہیں وہ اپنی باتوں میں نہایت بےپرواہی سے مشغول ہیں تو آپ نے جواب میں فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے دنیا سے بالکل کنارہ کشی کرنے والے انبیاء علیہم السلام ہوتے ہیں اور ان پر سب سے زیادہ سخت اور بھاری ان کے قرابت دار ہوئے ہیں اسی بارے میں آیت ( وانذر سے تعملون ) تک ہے پھر فرماتا ہے اپنے تمام امور میں اللہ ہی پر بھروسہ رکھو وہی تمہارا حافظ وناصر ہے وہی تمہاری تائید کرنے والا اور تمہارے کلمے کو بلند کرنے والا ہے ۔ اس کی نگاہیں ہر وقت تم پر ہیں جیسے فرمان ہے ۔ آیت ( وَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ فَاِنَّكَ بِاَعْيُنِنَا وَسَبِّــحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ حِيْنَ تَـقُوْمُ 48ۙ ) 52- الطور:48 ) اپنے رب کے حکموں پر صبر کر ۔ تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں یہ بھی مطلب ہے کہ جب تو نماز کیلئے کھڑا ہوتا ہے تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے ۔ ہم تمہارے رکوع سجود دیکھتے ہیں کھڑے ہو یا بیٹھے ہو یا کسی حالت میں ہو ہماری نظروں میں ہو ۔ یعنی تنہائی میں تو نماز پڑھے تو ہم دیکھتے ہیں اور جماعت سے پڑھے تو تو ہماری نگاہ کے سامنے ہوتا ہے یہ بھی مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ حالت نماز میں آپ کو جس طرح آپ کے سامنے کی چیزیں دکھاتا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کے مقتدی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ میں رہتے تھے چنانچہ صحیح حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے صفیں درست کرلیا کرو میں تمہیں اپنے پیچھے سے دیکھتا رہتا ہوں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما یہ مطلب بھی بیان کرتے ہیں کہ ایک نبی کی پیٹھ سے دوسرے نبی کی پیٹھ کی طرف منتقل ہونا برابر دیکھتے رہے ہیں یہاں تک کہ آپ بحیثیت نبی دنیا میں آئے ۔ وہ اللہ اپنے بندوں کی باتیں خوب سنتا ہے ، انکی حرکات وسکنات کو خوب جانتا ہے جیسے فرماتا ہے آیت ( وَمَا تَكُوْنُ فِيْ شَاْنٍ وَّمَا تَتْلُوْا مِنْهُ مِنْ قُرْاٰنٍ وَّلَا تَعْمَلُوْنَ مِنْ عَمَلٍ اِلَّا كُنَّا عَلَيْكُمْ شُهُوْدًا اِذْ تُفِيْضُوْنَ فِيْهِ 61 ) 10- یونس:61 ) ، توجس حالت میں ہو تم جتنا قرآن پڑھو تم جو عمل کرو اس پر ہم شاہد ہیں ۔
[١٢٦] اس میں مخاطب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ جو توحید کی طرف دعوت دینے والے اور شرک کے دشمن ہیں۔ اور آپ سے شرک کا صدور ناممکن ہے۔ اور انداز خطاب دراصل اس حکم میں تاکید مزید کے لئے اختیار کیا گیا ہے۔ یعنی آپ جو سب سے افضل و اشرف ہیں اگر آپ بھی شرک کریں تو اللہ کے عذاب سے بچ نہیں سکتے تو دوسروں کا کیا حال ہوگا۔ دراصل مشرکین مکہ پر شرک کی شدید قباحت کی وضاحت کے لئے یہ انداز اختیار کیا گیا ہے فی الحقیقت اس آیت کے مخاطب وہی لوگ ہیں جو اپنی حاجت براری اور مشکل کشائی کے لئے دوسروں کو پکارتے ہیں۔
فَلَا تَدْعُ مَعَ اللّٰهِ اِلٰـهًا اٰخَرَ ۔۔ : قرآن کے حق اور منزل من اللہ ہونے کے بیان کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک اللہ کو پکارنے اور اس کے سوا کسی کو بھی نہ پکارنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ اگر کسی اور کو پکارو گے تو عذاب دیے جانے والوں میں سے ہوجاؤ گے۔ یہ خطاب اگرچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے، مگر اصل مقصود کفار و مشرکین کو متنبہ کرنا ہے، کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تو نہ شرک کیا نہ کرنا تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس لیے مخاطب کیا کہ سب لوگ آگاہ ہوجائیں کہ شرک اتنا بڑا گناہ ہے کہ بالفرض رسول سے سرزد ہوجائے تو اسے بھی عذاب ہوگا، پھر دوسرے لوگوں کا کیا حال ہوگا ؟ جیسا کہ فرمایا : (وَلَقَدْ اُوْحِيَ اِلَيْكَ وَاِلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكَ ۚ لَىِٕنْ اَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ ) [ الزمر : ٦٥ ] ” اور بلاشبہ یقیناً تیری طرف وحی کی گئی اور ان لوگوں کی طرف بھی جو تجھ سے پہلے تھے کہ بلاشبہ اگر تو نے شریک ٹھہرایا تو یقیناً تیرا عمل ضرور ضائع ہوجائے گا اور تو ضرور بالضرور خسارہ اٹھانے والوں سے ہوجائے گا۔ “
فَلَا تَدْعُ مَعَ اللہِ اِلٰـہًا اٰخَرَ فَتَكُوْنَ مِنَ الْمُعَذَّبِيْنَ ٢١٣ۚ- دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ - الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔- عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا
(٢١٣) اور تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان بتوں وغیرہ میں سے کسی اور معبود کی عبادت مت کرنا کہیں تمہیں دوزخ کی سزا ہونے لگے۔
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :134 اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ معاذ اللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے شرک کا کوئی خطرہ تھا اور اس بنا پر آپ کو دھمکا کر اس سے روکا گیا ۔ دراصل اس سے مقصود کفار و مشرکین کو متنبہ کرنا ہے ۔ کلام کا مدعا یہ ہے کہ قرآن مجید میں جو تعلیم پیش کی جا رہی ہے یہ چونکہ خالص حق ہے فرمانروائے کائنات کی طرف سے ، اور اس میں شیطانی آلائشوں کا ذرہ برابر بھی دخل نہیں ہے ، اس لیے یہاں حق کے معاملے میں کسی کے ساتھ رو رعایت کا کوئی کام نہیں ۔ خدا کو سب سے بڑھ کر اپنی مخلوق میں کوئی عزیز و محبوب ہو سکتا ہے تو وہ اس کا رسول پاک ہے ۔ لیکن بالفرض اگر وہ بھی بندگی کی راہ سے بال برابر ہٹ جائے اور خدائے واحد کے سوا کسی اور کو معبود کی حیثیت سے پکار بیٹھے تو پکڑ سے نہیں بچ سکتا ۔ تا بدیگراں چہ رسد ۔ اس معاملہ میں جب خود محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی کوئی رعایت نہیں تو اور کون ہے جو خدا کی خدائی میں کسی اور کو شریک ٹھہرانے کے بعد یہ امید کر سکتا ہو کہ خود بچ نکلے گا یا کسی کے بچانے سے بچ جائے گا ۔