Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

2141پیغمبر کی دعوت صرف رشتہ داروں کے لئے نہیں، بلکہ پوری قوم کے لئے ہوتی ہے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو پوری نسل انسانی کے لئے ہادی اور رہبر بن کر آئے تھے۔ قریبی رشتہ داروں کو دعوت ایمان، دعوت عام کے منافی نہیں، بلکہ اسی کا ایک حصہ یا اس کا ترجیحی پہلو ہے۔ جس طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی سب سے پہلے اپنے باپ آزر کو توحید کی دعوت دی تھی۔ اس حکم کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صفا پہاڑی پر چڑھ گئے اور یَا صَبَاحَا کہہ کر آواز دی۔ یہ کلمہ اس وقت بولا جاتا ہے جب دشمن اچانک حملہ کر دے، اس کے ذریعہ سے قوم کو خبردار کیا جاتا ہے۔ یہ کلمہ سن کر لوگ جمع ہوگئے، آپ نے قریش کے مختلف قبیلوں کے نام لے لے کر فرمایا، بتلاؤ اگر میں تمہیں یہ کہوں کہ اس پہاڑی کی پشت پر دشمن کا لشکر موجود ہے جو تم پر حملہ آور ہوا چاہتا ہے، تو کیا تم مانو گے ؟ سب نے کہا ہاں، یقینا ہم تصدیق کریں گے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھے اللہ نے نذیر بنا کر بھیجا ہے، میں تمہیں ایک سخت عذاب سے ڈراتا ہوں، اس پر ابو لہب نے کہا، تیرے لئے ہلاکت ہو، کیا تو نے ہمیں اس لئے بلایا تھا ؟ اس کے جواب میں یہ سورة تبت نازل ہوئی (صحیح بخاری) آپ نے اپنی بیٹی فاطمہ اور اپنی پھوپھی حضرت صفیہ کو بھی فرمایا تم اللہ کے ہاں بچاؤ کا بندوبست کرلو میں وہاں تمہارے کام نہیں آسکوں گا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٢٧] آپ کی بعثت کے بعد تین سال تک آپ نے انتہائی خفیہ طریقہ پر دارارقم میں فریضہ تبلیغ سرانجام دیتے رہے۔ بعد میں یہ حکم نازل ہوا کہ آپ اب اپنے قریبی رشتہ داروں کو بھی کھل کر شرک سے بچنے کی دعوت دیجئے اور اس شرک کے انجام سے انھیں ڈرائیے۔ اس آیت پر آپ نے جس طرح عمل فرمایا وہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے :- حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ باہر نکلے اور صفا پہاڑ پر چڑھ گئے اور آواز دینے لگے : اے فہر کی اولاد، نے عدی کی اولاد، فرض قریش کے سب خاندان کو پکارا۔ وہ جمع ہوگئے جو کوئی خود نہ آسکا اس نے اپنی طرف سے ایک آدمی بھیج دیا تاکہ یہ دیکھے کہ کیا معاملہ ہے۔ ابو لہب خود آیا اور قریش کے دوسرے لوگ بھی آگئے۔ آپ نے ان سے پوچھا : اگر میں تم سے کہوں کہ اس وادی کے اس طرح کچھ سوار تم پر حملہ کرنے کے لئے جمع ہیں تو کیا تم میری بات سچ مانو گے ؟ انہوں نے کہا۔ بیشک کیونکہ ہم نے آپ کو ہمیشہ سچ ہی بولتے دیکھا ہے تو آپ نے فرمایا : میں تمہیں اس سخت عذاب سے ڈراتا ہوں۔ جو) قیامت کو ( تمہیں پیش آنے والا ہے اس پر ابو لہب کہنے لگا : تم پر بقیہ سارا دن ہلاکت ہو کیا تم نے اسی بات کے لئے ہمیں اکٹھا کیا تھا ؟ اس وقت یہ سورت نازل ہوئی ( تَبَّتْ يَدَآ اَبِيْ لَهَبٍ وَّتَبَّ ۝ۭ ) 111 ۔ الهب :1) (بخاری۔ کتاب التفسیر (- حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ کھڑے ہو کر فرمانے لگے : اے قریش کے لوگو ) یا کچھ ایسا ہی کلمہ کہا ( تم اپنی اپنی جانیں بچا لو۔ میں اللہ کے سامنے تمہارے کسی کام نہ آسکوں گا۔ اے بنو عبدمناف میں اللہ کے سامنے تمہارے کسی کام نہ آسکوں گا۔ اے میری پھوپھی صفیہ میں اللہ کے سامنے تمہارے کسی کام نہ آسکوں گا۔ اے محمد) (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ( کی بیٹی فاطمہ میرے مال سے جو چاہتی ہے مانگ لے لیکن اللہ کے سامنے میں تیرے کسی کام نہ آسکوں گا ) حوالہ ایضاً (

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ : اور اپنے سب سے قریب رشتہ داروں کو اللہ کے عذاب سے ڈرا کہ میری قرابت پر بھروسا نہ رکھنا۔ سب سے قریب رشتہ داروں کو ڈرانے کے حکم سے ظاہر ہے کہ جو ان کے علاوہ ہیں انھیں بالاولیٰ ڈرانا ہوگا اور جب قریب ترین رشتہ داروں کو ڈرانے میں ان کی ناپسندیدگی یا ناراضی کی پروا نہیں کی جائے گی تو دوسروں کی ناراضی یا ناپسندیدگی تو اس کے مقابلے میں معمولی بات ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس فریضہ کو اس طرح ادا کیا جیسے اس کا حق تھا۔ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جب آیت : (وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ ) اتری تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صفا پہاڑ پر چڑھے اور آواز دینے لگے : ( یَا بَنِيْ فِھْرٍ یَا بَنِيْ عَدِيٍّ لِبُطُوْنِ قُرَیْشٍ ، حَتَّی اجْتَمَعُوْا، فَجَعَلَ الرَّجُلُ إِذَا لَمْ یَسْتَطِعْ أَنْ یَّخْرُجَ أَرْسَلَ رَسُوْلًا لِیَنْظُرَ مَا ھُوَ ، فَجَاءَ أَبُوْ لَھَبٍ وَ قُرَیْشٌ فَقَالَ أَرَأَیْتَکُمْ لَوْ أَخْبَرْتُکُمْ أَنَّ خَیْلًا بالْوَادِيْ تُرِیْدُ أَنْ تُغِیْرَ عَلَیْکُمْ أَ کُنْتُمْ مُصَدِّقِيَّ ؟ قَالُوْا نَعَمْ مَا جَرَّبْنَا عَلَیْکَ إِلَّا صِدْقًا، قَالَ فَإِنِّيْ نَذِیْرٌ لَکُمْ بَیْنَ یَدَيْ عَذَابٍ شَدِیْدٍ ، فَقَالَ أَبُوْ لَھَبٍ تَبًّا لَکَ سَاءِرَ الْیَوْمِ ، أَ لِھٰذَا جَمَعْتَنَا ؟ فَنَزَلَتْ : (تَبَّتْ يَدَآ اَبِيْ لَهَبٍ وَّتَبَّ مَآ اَغْنٰى عَنْهُ مَالُهٗ وَمَا كَسَبَ ) [ بخاري، التفسیر، باب : ( و أنذر عشیرتک الأقربین ۔۔ ) : ٤٧٧٠ ] ” یا بنی فہر یا بنی عدی “ قریش کے مختلف قبائل کو آواز دی، یہاں تک کہ وہ جمع ہوگئے، کوئی آدمی خود نہ آسکتا تو کسی دوسرے کو بھیج دیتا، تاکہ وہ دیکھے کیا معاملہ ہے۔ غرض ابولہب اور قریش سب آگئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” یہ بتاؤ کہ اگر میں تمہیں اطلاع دوں کہ اس وادی میں ایک لشکر تم پر حملہ آور ہونا چاہتا ہے تو کیا تم مجھے سچا جانو گے ؟ “ انھوں نے کہا : ” ہاں ہم نے آپ پر سچ ہی کا تجربہ کیا ہے۔ “ آپ نے فرمایا : ” پھر میں تمہیں ایک شدید عذاب سے پہلے ڈرانے والا ہوں۔ “ تو ابو لہب نے کہا : ” تیرے لیے سارا دن ہلاکت ہو، کیا تو نے ہمیں اسی لیے جمع کیا ہے ؟ “ اس پر یہ سورت اتری : (تَبَّتْ يَدَآ اَبِيْ لَهَبٍ وَّتَبَّ مَآ اَغْنٰى عَنْهُ مَالُهٗ وَمَا كَسَبَ ) [ اللھب : ١، ٢ ]- ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( یَا بَنِيْ عَبْدِ مَنَافٍ اشْتَرُوْا أَنْفُسَکُمْ مِنَ اللّٰہِ ، یَا بَنِيْ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ اشْتَرُوْا أَنْفُسَکُمْ مِنَ اللّٰہِ ، یَا أُمَّ الزُّبَیْرِ بْنِ الْعَوَّامِ عَمَّۃَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ یَا فَاطِمَۃُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ اشْتَرِیَا أَنْفُسَکُمَا مِنَ اللّٰہِ ، لَا أَمْلِکُ لَکُمَا مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا، سَلَانِيْ مِنْ مَالِيْ مَا شِءْتُمَا ) [ بخاري، المناقب، باب من انتسب إلی آباۂ ۔۔ : ٣٥٢٧ ] ” اے بنی عبد مناف اپنی جانیں اللہ سے خرید لو، اے بنی عبد المطلب اپنی جانیں اللہ سے خرید لو، اے زبیر بن عوام کی ماں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پھوپھی (صفیہ) اے فاطمہ بنت محمد تم دونوں اپنی جانیں اللہ سے خرید لو، میں اللہ کے ہاں تمہارے لیے کچھ اختیار نہیں رکھتا، مجھ سے میرے مال میں سے جو چاہو مانگ لو۔ “ ایک روایت میں ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریش کو اور اپنے چچا عباس کو بھی مخاطب فرمایا۔ [ دیکھیے بخاري، التفسیر، باب : ( و أنذر عشیرتک۔۔ ) : ٤٧٧١ ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ ، عشیرہ کے معنے کنبہ اور خاندان اقربی کی قید سے ان میں سے بھی قریبی رشتہ دار مراد ہیں۔ یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر تبلیغ رسالت اور انذار پوری امت کے لئے فرض ہے اس جگہ خاندان کے لوگوں کی تخصیص میں کیا حکمت ہے ؟ غور کیا جائے تو اس میں تبلیغ و دعوت کے آسان اور موثر بنانے کا ایک خاص طریقہ بتلایا گیا ہے جس کے آثار دور رس ہیں۔ وہ یہ کہ اپنے کنبہ اور خاندان کے لوگ اپنے سے قریب ہونے کی بناء پر اس کے حقدار بھی ہیں کہ ہر خیر اور اچھے کام میں ان کو دو رسوں سے مقدم کیا جائے اور باہمی تعلقات اور ذاتی واقفیت کی بناء پر ان میں کوئی جھوٹا دعویدار نہیں کھپ سکتا اور جس کی سچائی اور اخلاقی برتری خاندان کے لوگوں میں مصروف ہے اس کی سچی دعوت قبول کرلینا ان کے لئے آسان بھی ہے اور قریبی رشتہ دار جب کسی اچھی تحریک کے حامی بن گئے تو ان کی اخوت و امداد بھی پختہ بنیاد پر قائم ہوتی ہے وہ خاندان جمعیت کے اعتبار سے بھی ان کی تائید و اخوت پر مجبور ہوتے ہیں اور جب قریبی رشتہ داروں، عزیزوں کا ایک ماحول حق و صداقت کی بنیادوں پر تیار ہوگیا تو روز مرہ کی زندگی میں ہر ایک کو دین کے احکام پر عمل کرنے میں بہت سہولت ہوجاتی ہے اور پھر ایک مختصر سی طاقت تیار ہو کر دوسروں تک دعوت و تبلیغ کے پہنچانے میں مدد ملتی ہے۔ قرآن کریم کی ایک دوسری آیت میں ہے قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيْكُمْ نَارًا یعنی اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے بچاؤ اس میں اہل و عیال کے جہنم سے بچانے کی ذمہ داری خاندان کے ہر ہر فرد پر ڈال دی گئی ہے جو اصلاح اعمال و اخلاق کا آسان اور سیدھا راستہ ہے اور غور کیا جائے تو کسی انسان کا خود اعمال و اخلاق صالحہ کا پابند ہونا اور پھر اس پر قائم رہنا اس وقت تک عادة ممکن نہیں ہوتا جب تک اس کا ماحول اس کے لئے سازگار نہ ہو، سارے گھر میں اگر ایک آدمی نماز کی پوری پابندی کرنا چاہے تو اس پکے نمازی کو بھی اپنے حق کی ادائیگی میں مشکلات حائل ہوں گی۔ آج کل جو حرام چیزوں سے بچنا دشوار ہوگیا اس کی وجہ یہ نہیں کہ فی الواقع اس کا چھوڑنا کوئی بڑا مشکل کام ہے بلکہ سبب یہ ہے کہ سارا ماحول ساری برادری جب ایک گناہ میں مبتلا ہے تو اکیلے ایک آدمی کو بچنا دشوار ہوجاتا ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ نے تمام خاندان کے لوگوں کو جمع فرما کر پیغام حق سنایا اس وقت اگرچہ لوگوں نے قبول حق سے انکار کیا مگر رفتہ رفتہ خاندان کے لوگوں میں اسلام و ایمان داخل ہونا شروع ہوگیا اور آپ کے چچا حضرت حمزہ کے اسلام لانے سے اسلام کو ایک بڑی قوت حاصل ہوگئی۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ۝ ٢١٤ۙ- عَشِيرَةُ :- أهل الرجل الذین يتكثّر بهم . أي : يصيرون له بمنزلة العدد الکامل، وذلک أنّ العَشَرَةَ هو العدد الکامل . قال تعالی: وَأَزْواجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ [ التوبة 24] ، فصار العَشِيرَةُ اسما لكلّ جماعة من أقارب الرجل الذین يتكثّر بهم . وَعاشَرْتُهُ : صرت له كَعَشَرَةٍ في المصاهرة، وَعاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ [ النساء 19] . والعَشِيرُ : المُعَاشِرُ قریبا کان أو معارف .- العشیرۃ انسان کے باپ کی طرف سی قریبی رشتہ دار پر مشتمل جماعت کیونکہ ان سے انسان کژرت عدد حاصل کرتا ہے گویا وہ اس کے لئے بمنزلہ عدد کامل کے ہیں کیونکہ عشرۃ کا عدد ہی کامل ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَزْواجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ [ التوبة 24] اور عورتیں اور خاندان کے آدمی ۔ لہذا عشیرۃ انسان کے رشتہ دروں کی اس جماعت کا نام ہے جن سے انسنا کثرت ( قوت ) حاصل کرتا ہے عاشرتہ کے معنی ہیں کہ میں رشتہ داماد ی میں اس کے لئے بمنزلہ عشرۃ کے ہوگیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَعاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ [ النساء 19] اور ان کے ساتھ اچھی طرح سے رہو سہو ۔ العشر مل جل کر رہنے والا خواہ رشتہ دار ہو یا اجنبی ۔- قربی - وفي النّسبة نحو : وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى[ النساء 8] ، وقال : الْوالِدانِ وَالْأَقْرَبُونَ- [ النساء 7] ، وقال : وَلَوْ كانَ ذا قُرْبى [ فاطر 18] ، وَلِذِي الْقُرْبى [ الأنفال 41] ، وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى [ النساء 36] ، يَتِيماً ذا مَقْرَبَةٍ [ البلد 15]- اور مجھ کو معلوم نہیں کہ جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ عنقریب آنے والی ہے یا اس کا وقت دور ہے ۔ اور قرب نسبی کے متعلق فرمایا : وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى[ النساء 8] اور جب میراث کی تقسیم کے وقت ( غیر وارث ) رشتے دار آجائیں ۔ الْوالِدانِ وَالْأَقْرَبُونَ [ النساء 7] ماں باپ اور رشتے دار ۔ وَلَوْ كانَ ذا قُرْبى [ فاطر 18] گوہ وہ تمہاری رشتے دار ہو ۔ وَلِذِي الْقُرْبى [ الأنفال 41] اور اہل قرابت کا ۔ وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى [ النساء 36] اور رشتے در ہمسایوں يَتِيماً ذا مَقْرَبَةٍ [ البلد 15] یتیم رشتے دار کو اور قرب بمعنی کے اعتبار سے کسی کے قریب ہونا

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢١٤ تا ٢٢٠) اور آپ اپنے نزدیک کے کنبہ کو ڈرائیے اور مومنین کے ساتھ مشفقانہ پیش آئیے اور اگر یہ قریش آپ کا کہنا نہ مانیں تو آپ صاف فرما دیجیے کہ میں تمہارے افعال واقوال سے بیزار ہوں اور آپ اس اللہ پر جو کہ دشمنوں کو سزا دینے پر قادر اور آپ پر اور تمام مسلمانوں پر مہربان ہے توکل رکھیے، آپ جس وقت کہ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں اور نماز شروع کرنے کے بعد قیام رکوع و سجود میں نمازیوں کے ساتھ آپ کی نشت وبرخاست کو دیکھتا ہے یا یہ کہ جب کہ آپ اپنے آباء کی اصلاب اطہار میں رہے اس سے واقف ہے۔- وہ ان کی باتوں کو خوب سننے والا اور ان کو اور ان کے اعمال کو خوب دیکھنے والا ہے۔- شان نزول : ( آیت ) ”۔ واخفض جناحک لمن اتبعک “۔ (الخ)- اور ابن جریر (رح) نے ابن جریج (رض) سے روایت کیا جس وقت یہ آیت مبارکہ یعنی ( آیت) ” وانذر عشیرتک “۔ (الخ) یعنی آپ اپنے نزدیک کے کنبہ کو ڈرائیے، تو آپ اپنے گھر والوں اور خاندان سے ہر ایک چیز میں پہل کرنے لگے تو یہ چیز مومنین کو شاق گزری اس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی، یعنی ان لوگوں کے ساتھ مشفقانہ نرمی سے پیش آئیے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢١٤ (وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ ) ” - اس آیت کے بارے میں تاریخ سے ثابت ہے کہ یہ تقریباً ٣ نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں نازل ہوئی تھی۔ چناچہ اس تاریخی ثبوت سے اس دعوے کی تصدیق ہوتی ہے کہ سورة الشعراء بالکل ابتدائی زمانے کی سورت ہے۔ یہ سورت اپنی چھوٹی چھوٹی آیات اور تیز آہنگ کے ساتھ شروع سے آخرتک ایک مربوط اور مسلسل خطبے کی صورت میں ہے اور یہ آیت بھی اپنے انداز کے اعتبار سے ما قبل اور مابعد کی آیات سے مختلف نہیں۔ یعنی ایسا کوئی امکان نظر نہیں آتا کہ یہ آیت تو پہلے نازل ہوئی ہو مگر بعد میں نازل ہونے والی سورت میں شامل کردی گئی ہو۔ بہر حال سورة الشعراء نازل تو ابتدائی دور میں ہوئی تھی مگر حکمت خداوندی کے تحت اسے ابتدائی زمانے کی سورتوں (قرآن کی آخری منزل) میں شامل کیے جانے کے بجائے اس کی موجودہ جگہ پر رکھا گیا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے سورة الحجر کو پچھلے گروپ کی سورتوں میں شامل کیا گیا ہے ‘ حالانکہ وہ بھی بالکل ابتدائی زمانے میں نازل ہوئی تھی۔ - روایات میں آتا ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) کو ایک دعوت کا اہتمام کرنے کے لیے فرمایا۔ حضرت علی (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کے زیر کفالت تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ہی رہتے تھے۔ چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام بنو ہاشم کو کھانے پر مدعو کیا۔ کھانے کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں دعوت دینے کے لیے کھڑے ہوئے تو انہوں نے شور و غل مچانا شروع کردیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات سنے بغیر چلے گئے۔ کچھ روز کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دوبارہ انہیں مدعو فرمایا۔ اس دفعہ کھانے کے بعد چارو نا چا روہ بیٹھے رہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے سامنے ایک دعوتی خطبہ دیا۔ یہ خطبہ مختصر ہے مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عظیم خطبات میں سے ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں احادیث کی کتب میں یہ خطبہ (اپنے علم کی حد تک مجھے وثوق ہے) موجود نہیں ہے ‘ البتہ اہل تشیعّ کی مشہور کتاب ” نہج البلاغہ “ میں یہ خطبہ شامل ہے۔ ” نہج البلاغہ “ بنیادی طور پر حضرت علی (رض) کے خطبات اور خطوط پر مشتمل ہے ‘ لیکن اس کا ایک حصہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خطبات کے لیے مختص کیا گیا ہے۔ اگرچہ ” نہج البلاغہ “ میں خطبہ کے متن کے ساتھ کسی قسم کی صراحت موجود نہیں کہ یہ خطبہ کس موقع پر ارشاد فرمایا گیا مگر خطبے کے متن اور اسلوب کی بنا پر مجھے یقین ہے کہ یہ وہی خطبہ ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو ہاشم کی مذکورہ ضیافت کے موقع پر ارشاد فرمایا تھا۔ میرے کتابچے ” دعوت الی اللہ “ اور اس کتابچے کے انگلش ترجمے ” “ میں اس خطبے کا پورا متن موجود ہے۔ بہر حال ” دعوت حق “ کے حوالے سے یہ بہت اہم خطبہ ہے ۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :135 یعنی خدا کے اس بے لاگ دین میں جس طرح نبی کی ذات کے لیے کوئی رعایت نہیں اسی طرح نبی کے خاندان اور اس کے قریب ترین عزیزوں کے لیے بھی کسی رعایت کی گنجائش نہیں ہے ۔ یہاں جس کے ساتھ بھی کوئی معاملہ ہے اس کے اوصاف ( ) کے لحاظ سے ہے ۔ کسی کا نسب اور کسی کے ساتھ آدمی کا تعلق کوئی نفع نہیں پہنچا سکتا ۔ گمراہی و بد عملی پر خدا کے عذاب کا خوف سب کے لیے یکساں ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ اور سب تو ان چیزوں پر پکڑے جائیں ، مگر نبی کے رشتہ دار بچے رہ جائیں ۔ اس لیے حکم ہوا کہ اپنے قریب ترین رشتہ داروں کو بھی صاف صاف متنبہ کر دو ۔ اگر وہ اپنا عقیدہ اور عمل درست نہ رکھیں گے تو یہ بات ان کے کسی کام نہ آ سکے گی کہ وہ نبی کے رشتہ دار ہیں ۔ معتبر روایات میں آیا ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے اپنے دادا کی اولاد کو خطاب فرمایا اور ایک ایک کو پکار کر صاف صاف کہہ دیا کہ یا بنی عبد المطلب ، یا عباس ، یا صفیۃ عمۃ رسول اللہ ، یا فاطمۃ بنت محمد ، انقذوا انفسکم من النار ، فانی لا املک لکم من اللہ شیئاً ، سلونی من مالی ماشئتم ۔ اے بنی عبد المطلب ، اے عباس ، اے صفیہ رسول اللہ کی پھوپھی ، اے فاطمہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی ، تم لوگ آگ کے عذاب سے اپنے آپ کو بچانے کی فکر کر لو ، میں خدا کی پکڑ سے تم کو نہیں بچا سکتا ، البتہ میرے مال میں سے تم لوگ جو کچھ چاہو مانگ سکتے ہو ۔ پھر آپ نے صبح سویرے صفا کے سب سے اونچے مقام پر کھڑے ہو کر پکارا یا صباحاہ ( ہائے صبح کا خطرہ ) ، اے قریش کے لوگو ، اے بنی کعب بن لُؤَیّ ، اے بنی مرّہ ، اے آل قُصَیّ ، اے بنی عبد مَناف ، اے بنی عبد شمس ، اے بنی ہاشم ، اے آل عبد المطلب ۔ اس طرح قریش کے ایک ایک قبیلے اور خاندان کا نام لے لے کر آپ نے آواز دی ۔ عرب میں قاعدہ تھا کہ جب صبح تڑکے کسی اچانک حملے کا خطرہ ہوتا تو جس شخص کو بھی اس کا پتہ چل جاتا وہ اسی طرح پکارنا شروع کر دیتا اور لوگ اس کی آواز سنتے ہی ہر طرف سے دوڑ پڑتے ۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس آواز پر سب لوگ گھروں سے نکل آئے ، اور جو خود نہ آ سکا اس نے اپنی طرف سے کسی کو خبر لانے کے لیے بھیج دیا ۔ جب سب لوگ جمع ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لوگو ، اگر میں تمہیں بتاؤں کہ اس پہاڑ کے دوسری طرف ایک بھاری لشکر ہے جو تم پر ٹوٹ پڑنا چاہتا ہے تو تم میری بات سچ مانو گے ؟ سب نے کہا ہاں ، ہمارے تجربے میں تم کبھی جھوٹ بولنے والے نہیں رہے ہو ۔ آپ نے فرمایا ، اچھا تو میں خدا کا سخت عذاب آنے سے پہلے تم کو خبردار کرتا ہوں ۔ اپنی جانوں کو اس کی پکڑ سے بچانے کی فکر کرو ۔ میں خدا کے مقابلے میں تمہارے کسی کام نہیں آ سکتا ۔ قیامت میں میرے رشتہ دار صرف متقی ہوں گے ۔ ایسا نہ ہو کہ دوسرے لوگ نیک اعمال لے کر آئیں اور تم لوگ دنیا کا وبال سر پر اٹھائے ہوئے آؤ ۔ اس وقت تم پکارو گے یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، مگر میں مجبور ہوں گا کہ تمہاری طرف سے منہ پھیر لوں ۔ البتہ دنیا میں میرا اور تمہارا خون کا رشتہ ہے اور یہاں میں تمہارے ساتھ ہر طرح کی صلہ رحمی کروں گا ۔ ( اس مضمون کی متعدد روایات بخاری ، مسلم ، مسند احمد ، ترمذی ، نسائی اور تفسیر ابن جریر میں حضرت عائشہ ، حضرت ابو ہریرہ ، حضرت عبداللہ بن عباس ، حضرت زہیر بن عمرو اور حضرت قبیصہ بن مخارق سے مروی ہیں ) ۔ یہ معاملہ صرف اس حد تک نہ تھا کہ قرآن میں اَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ کا حکم آیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رشتہ داروں کو جمع کر کے بس اس کی تعمیل کر دی ۔ دراصل اس میں جو اصول واضح کیا گیا تھا وہ یہ تھا کہ دین میں نبی اور اس کے خاندان کے لیے کوئی امتیازی مراعات نہیں ہیں جن سے دوسرے محروم ہوں ۔ جو چیز زہر قاتل ہے وہ سب ہی کے لیے قاتل ہے ، نبی کا کام یہ ہے کہ سب سے پہلے اس سے خود بچے اور اپنے قریبی لوگوں کو اس سے ڈرائے ، پھر ہر خاص و عام کو متنبہ کر دے کہ جو بھی اسے کھائے گا ، ہلاک ہو جائے گا ۔ اور جو چیز نافع ہے وہ سب ہی کے لیے نافع ہے ، نبی کا منصب یہ ہے کہ سب سے پہلے اسے خود اختیار کرے اور اپنے عزیزوں کو اس کی تلقین کرے ، تاکہ ہر شخص دیکھ لے کہ یہ وعظ و نصیحت دوسروں ہی کے لیے نہیں ہے ، بلکہ نبی اپنی دعوت میں مخلص ہے ۔ اسی طریقے پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم زندگی بھر عامل رہے ۔ فتح مکہ کے روز جب آپ شہر میں داخل ہوئے تو آپ نے اعلان کیا کہ کل ربا فی الجاھلیۃ موضوع تحت قدمی ھاتین و اول ما اضعہ ربا العباس ۔ زمانہ جاہلیت کا ہر سود جو لوگوں کے ذمے تھا میرے ان قدموں تلے روند ڈالا گیا ۔ اور سب سے پہلے جس سود کو میں ساقط کرتا ہوں وہ میرے چچا عباس رضی اللہ عنہ کا ہے ( واضح رہے کہ سود کی حرمت کا حکم آنے سے پہلے حضرت عباس سود پر روپیہ چلاتے تھے اور ان کا بہت سا سود اس وقت لوگوں کے ذمے وصول طلب تھا ) ۔ ایک مرتبہ چوری کے جرم میں قریش کی ایک عورت فاطمہ نامی کا ہاتھ کاٹنے کا آپ نے حکم دیا ۔ حضرت اسامہ بن زید نے اس کے حق میں سفارش کی ۔ اس پر آپ نے فرمایا خدا کی قسم ، اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

50: یہ وہ آیت ہے جس کے ذریعے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سب سے پہلی بار تبلیغ کا حکم ہوا اور یہ ہدایت دی گئی کہ تبلیغ کا آغاز اپنے قریبی خاندان کے لوگوں سے فرمائیں، چنانچہ اسی آیت کے نازل ہونے کے بعد آپ نے اپنے خاندان کے قریبی لوگوں کو جمع کرکے ان کو دین حق کی دعوت دی، اس میں یہ سبق بھی دیا گیا ہے کہ اصلاح کرنے والے کو سب سے پہلے اپنے گھر اور اپنے خاندان سے شروع کرنا چاہئیے۔