21 9 1یعنی جب تو تنہا ہوتا ہے، تب بھی اللہ دیکھتا ہے اور جب لوگوں میں ہوتا ہے تب بھی۔
[١٣١] اس آیت کے دو مطلب ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ جب آپ نماز باجماعت میں اپنے مقتدیوں کے ساتھ رکوع و سجود کرتے ہیں، اس وقت اللہ تعالیٰ آپ کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔ دوسرا یہ کہ جب آپ رات کو اٹھ کر گشت کرتے ہیں کہ کون کون سے عبادت گزار اس وقت اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول ہیں اور کون کون سے غافل ہیں۔ اس وقت بھی اللہ آپ کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔ تیسرا یہ کہ سجدہ گزار لوگوں کے ساتھ مل کر آپ جو بھی اعلائے کلمہ ن الحق کی سربلندی کے لئے تنگ و دو کرتے ہیں۔ اللہ آپ لوگوں کی ایک ایک نقل و حرکت سے واقف ہوتا ہے۔
وَتَقَلُّبَكَ فِي السّٰجِدِيْنَ ٢١٩- تَقْلِيبُ- الشیء : تغييره من حال إلى حال نحو : يَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوهُهُمْ فِي النَّارِ [ الأحزاب 66] وتَقْلِيبُ الأمور : تدبیرها والنّظر فيها، قال : وَقَلَّبُوا لَكَ الْأُمُورَ [ التوبة 48] . وتَقْلِيبُ اللہ القلوب والبصائر : صرفها من رأي إلى رأي، قال : وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ وَأَبْصارَهُمْ [ الأنعام 110] ، وتَقْلِيبُ الید : عبارة عن النّدم ذکرا لحال ما يوجد عليه النادم . قال : فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ [ الكهف 42] أي : يصفّق ندامة .- قال الشاعر کمغبون يعضّ علی يديه ... تبيّن غبنه بعد البیاع - والتَّقَلُّبُ : التّصرّف، قال تعالی: وَتَقَلُّبَكَ فِي السَّاجِدِينَ [ الشعراء 219] ، وقال : أَوْ يَأْخُذَهُمْ فِي تَقَلُّبِهِمْ فَما هُمْ بِمُعْجِزِينَ [ النحل 46] . ورجل قُلَّبٌ حُوَّلٌ: كثير التّقلّب والحیلة «2» ، والْقُلَابُ : داء يصيب القلب، وما به قَلَبَةٌ «3» : علّة يُقَلِّبُ لأجلها، والْقَلِيبُ. البئر التي لم تطو، والقُلْبُ : الْمَقْلُوبُ من الأسورة .- تقلیب الشئی کے معنی کسی چیز کسی چیز کو متغیر کردینے کے ہیں جیسے فرمایا : يَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوهُهُمْ فِي النَّارِ [ الأحزاب 66] جس دن ان کے منہ آگ میں الٹائیں جائیں گے۔ اور تقلیب الامور کے معنی کسی کام کی تدبیر اور اس میں غوروفکر کرنے کے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : وَقَلَّبُوا لَكَ الْأُمُورَ [ التوبة 48] اور بہت سی باتوں میں تمہارے لئے الٹ پھیر کرتے رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے دلوں اور بصیرتوں کی پھیر دینے سے ان کے آراء کو تبدیل کردینا مراد ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ وَأَبْصارَهُمْ [ الأنعام 110] اور ہم ان کے دلوں اور آنکھوں کو الٹ دیں گے ۔ اور تقلیب الید پشیمانی سے کنایہ ہوتا ہے ۔ کیونکہ عام طور پر نادم آدمی کا یہی حال ہوتا ہے ( کہ وہ اظہار ندامت کے لئے اپنے ہاتھ ملنے لگ جاتا ہے ) قرآن پاک میں ہے : فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ [ الكهف 42] تو ۔۔۔۔۔ و حسرت سے ) ہاتھ ملنے لگا ۔ شاعر نے کہا ہے ( 358) کمغبون یعض علی یدیہ تبین غبتہ بعدالبیاع جیسے خسارہ اٹھانے والا آدمی تجارت میں خسارہ معلوم کرلینے کے بعد اپنے ہاتھ کاٹنے لگتا ہے ۔ اور تقلب ( تفعل ) کے معنی پھرنے کے ہیں ۔ ارشاد ہے : وَتَقَلُّبَكَ فِي السَّاجِدِينَ [ الشعراء 219] اور نمازیوں میں تمہارے پھرنے کو بھی ۔ أَوْ يَأْخُذَهُمْ فِي تَقَلُّبِهِمْ فَما هُمْ بِمُعْجِزِينَ [ النحل 46] یان کو چلتے پھرتے پکڑلے وہ ( خدا کو ) عاجز نہیں کرسکتے۔ رجل قلب بہت زیادہ حیلہ گر اور ہوشیار آدمی جو معاملات میں الٹ پھیر کرنے کا ماہر ہو ۔ القلاب دل کی ایک بیماری ( جو اونٹ کو لگ جاتی ہے) مابہ قلبہ : یعنی وہ تندرست ہے اسے کسی قسم کا عارضہ نہیں ہے جو پریشانی کا موجب ہو القلیب۔ پراناکنواں جو صاف نہ کیا گیا ہو ۔ القلب ایک خاص قسم کا کنگن ۔- سجد - السُّجُودُ أصله : التّطامن «3» والتّذلّل، وجعل ذلک عبارة عن التّذلّل لله وعبادته، وهو عامّ في الإنسان، والحیوانات، والجمادات،- وذلک ضربان : سجود باختیار،- ولیس ذلک إلا للإنسان، وبه يستحقّ الثواب، نحو قوله : فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم 62] ، أي : تذللوا له، - وسجود تسخیر،- وهو للإنسان، والحیوانات، والنّبات، وعلی ذلک قوله : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد 15] - ( س ج د ) السجود - ( ن ) اسکے اصل معنی فرو تنی اور عاجزی کرنے کے ہیں اور اللہ کے سامنے عاجزی اور اس کی عبادت کرنے کو سجود کہا جاتا ہے اور یہ انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ( کیونکہ )- سجود کی دو قسمیں ہیں ۔ سجود اختیاری - جو انسان کے ساتھ خاص ہے اور اسی سے وہ ثواب الہی کا مستحق ہوتا ہے جیسے فرمایا :- ۔ فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم 62] سو اللہ کے لئے سجدہ کرو اور اسی کی ) عبادت کرو ۔- سجود تسخیر ی - جو انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد 15]- اور فرشتے ) جو آسمانوں میں ہیں اور جو ( انسان ) زمین میں ہیں ۔ چار ونا چار اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں )
آیت ٢١٩ (وَتَقَلُّبَکَ فِی السّٰجِدِیْنَ ) ” - حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معمول تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تہجد کی نماز پڑھنے والے مسلمانوں کے گھروں کے پاس سے رات کو گزرتے اور ان کو دیکھتے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اسی معمول کا یہاں ذکر فرمایا گیا ہے۔
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :139 اس سے کئی معنی مراد ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ آپ جب نماز با جماعت میں اپنے مقتدیوں کے ساتھ اٹھتے اور بیٹھتے اور رکوع و سجود کرتے ہیں اس وقت اللہ تعالیٰ آپ کو دیکھ رہا ہوتا ہے ۔ دوسرے جب راتوں کو اٹھ کر آپ اپنے ساتھیوں کو ( جن کے لیے سجدہ گزار کا لفظ امتیازی صفت کے طور پر استعمال ہوا ہے ) دیکھتے پھرتے ہیں کہ وہ اپنی عاقبت سنوارنے کے لیے کیا کچھ کر رہے ہیں ، اس وقت آپ اللہ کی نگاہ سے پوشیدہ نہیں ہوتے ۔ تیسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ اس تمام دوڑ دھوپ اور تگ و دو سے واقف ہے جو آپ اپنے سجدہ گزار ساتھیوں کی معیت میں اس کے بندوں کی اصلاح کے لیے کر رہے ہیں چوتھے یہ کہ سجدہ گزار لوگوں کے گروہ میں آپ کے تمام تصرفات اللہ کی نگاہ میں ہیں ۔ وہ جانتا ہے کہ آپ کس طرح ان کی تربیت کر رہے ہیں ، کیسا کچھ ان کا تزکیہ آپ نے کیا ہے اور کس طرح مس خام کو کندن بنا کر رکھ دیا ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام کی ان صفات کا ذکر یہاں جس غرض کے لیے کیا گیا ہے اس کا تعلق اوپر کے مضمون سے بھی ہے اور آگے کے مضمون سے بھی ، اوپر کے مضمون سے اس کا تعلق یہ ہے کہ آپ حقیقت میں اللہ کی رحمت اور اس کی زبردست تائید کے مستحق ہیں ، اس لیے کہ اللہ کوئی اندھا بہرا معبود نہیں ہے ، دیکھنے اور سننے والا فرمانروا ہے ، اس کی راہ میں آپ کی دوڑ دھوپ اور اپنے سجدہ گزار ساتھیوں میں آپ کی سرگرمیاں ، سب کچھ اس کی نگاہ میں ہیں ۔ بعد کے مضمون سے اس کا تعلق یہ ہے کہ جس شخص کی زندگی یہ کچھ ہو جیسی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے ، اور جس کے ساتھیوں کی صفات وہ کچھ ہوں جیسی کہ اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہیں اس کے متعلق کوئی عقل کا اندھا ہی یہ کہہ سکتا ہے کہ اس پر شیاطین اترتے ہیں یا وہ شاعر ہے ۔ شیطان جن کاہنوں پر اترتے ہیں اور شعراء اور ان کے ساتھ لگے رہنے والوں کے جیسے کچھ رنگ ڈھنگ ہیں ، وہ آخر کس سے پوشیدہ ہیں ۔ تمہارے اپنے معاشرے میں ایسے لوگ کثرت سے پائے ہی جاتے ہیں ۔ کیا کوئی آنکھوں والا ایمانداری کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہے کہ اسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کی زندگی میں اور شاعروں اور کاہنوں کی زندگی میں کوئی فرق نظر نہیں آتا ؟ اب یہ کیسی ڈھٹائی ہے کہ ان خدا کے بندوں پر کھلم کھلا کہانت اور شاعری کی پھبتی کسی جاتی ہے اور کسی کو اس پر شرم بھی نہیں آتی ۔