Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

341فرعون بجائے اس کے کہ ان معجزات کو دیکھ کر، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی تصدیق کرتا اور ایمان لاتا، اس نے جھٹلانے اور عناد کا راستہ اختیار کیا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بابت کہا کہ یہ کوئی بڑا فنکار جادوگر ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قَالَ لِلْمَلَاِ حَوْلَهٗٓ ۔۔ : ابھی خدائی کے دعوے تھے اور ابھی اپنے وزیروں اور درباریوں سے پوچھنے پر اتر آیا کہ بتاؤ کیا کیا جائے، اس آئی بلا کو کیونکر ٹالا جائے ؟ اس نے اپنے اقتدار کا سورج غروب ہوتے دیکھ کر یہ رویہ اختیار کیا۔ یہاں یہ ذکر ہے کہ یہ بات فرعون نے کہی، جب کہ سورة اعراف (١٠٩، ١١٠) میں ہے کہ یہ بات فرعون کے سرداروں نے کہی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ بات فرعون نے کہی تو اس کے سرداروں نے بھی وہی بات دہرا دی۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - (حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے جو یہ معجزات ظاہر ہوئے تو) فرعون نے اہل دربار سے جو اس کے آس پاس (بیٹھے) تھے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بڑا ماہر جادوگر ہے اس کا (اصل) مطلب یہ ہے کہ اپنے جادو (کے زور) سے (خود رئیس ہوجاوے اور) تم کو تمہاری زمین سے باہر کر دے (تاکہ بلا مزاحمت غیر اپنی قوم کو لے کر ریاست کرے) سو تم لوگ کیا مشورہ دیتے ہو ؟ درباریوں نے کہا کہ آپ ان کو اور ان کے بھائی کو (چندے) مہلت دیجئے اور (اپنے ملک کے حدود کے) شہروں میں (گرد اوروں کو یعنی) چپراسیوں کو (حکمنامے دے کر) بھیج دیجئے کہ وہ (سب شہروں سے) سب ماہر جادوگروں کو (جمع کر کے) آپ کے پاس لا کر حاضر کردیں، غرض وہ جادوگر ایک معین دن کے خاص وقت پر جمع کر لئے گئے (معین دن سے مراد یوم الزینت ہے اور خاص وقت سے مراد وقت چاشت ہے جیسے سورة طہ کے شروع رکوع سوم میں مذکور ہے، یعنی اس وقت کے قریب تک سب لوگ جمع کر لئے گئے اور فرعون کو جمع ہونے کی اطلاع دے دیگئی) اور (فرعون کی جانب سے بطور اعلان عام کے) لوگوں کو یہ اشتہار دیا گیا کہ کیا تم لوگ (فلاں موقع پر واقعہ دیکھنے کے لئے) جمع ہوگے (یعنی جمع ہوجاؤ) تاکہ اگر جادوگر غالب آ جاویں (جیسا کہ غالب توقع ہے) تو ہم انہیں کی راہ پر رہیں (یعنی وہی راہ جس پر فرعون تھا اور دوسروں کو بھی اس پر رکھنا چاہتا تھا۔ مطلب یہ کہ جمع ہو کر دیکھو، امید ہے کہ جادوگر غالب رہیں گے تو ہم لوگوں کے طریق کا حق ہونا حجت سے ثابت ہوجائے گا) پھر جب وہ جادوگر (فرعون کی پیشی میں) آئے تو فرعون سے کہنے لگے کہ اگر ( موسیٰ (علیہ السلام) پر ہم غالب آگئے تو کیا ہم کو کوئی بڑا صلہ (اور انعام) ملے گا، فرعون نے کہا ہاں (انعام مالی بھی بڑا ملے گا) اور (مزید برآں یہ مرتبہ ملے گا کہ) تم اس صورت میں (ہمارے) مقرب لوگوں میں داخل ہوجاؤ گے (غرض اس گفتگو کے بعد عین موقعہ مقابلہ پر آئے اور دوسری طرف موسیٰ (علیہ السلام) تشریف لائے اور مقابلہ شروع ہوا اور ساحروں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے عرض کیا کہ آپ اپنا عصا پہلے ڈالئے گا یا ہم ڈالیں) موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا کہ تم کو جو کچھ ڈالنا (منظور) ہو (میدان میں) ڈالو، سو انہوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں ڈالیں (جو جادو کے اثر سے سانپ معلوم ہوتے تھے) اور کہنے لگے کہ فرعون کے نصیب کی قسم بیشک ہم ہی غالب آویں گے، پھر موسیٰ (علیہ السلام) نے (بحکم خداوندی) اپنا عصا ڈالا، ڈالنے کے ساتھ ہی (اژدھا بن کر) ان کے تمام تر بنے بنائے دھندے کو نگلنا شروع کردیا سو (یہ دیکھ کر) جادوگر (ایسے متاثر ہوئے کہ) سب سجدہ میں گر پڑے (اور پکار پکار کر) کہنے لگے کہ ہم ایمان لے آئے رب العالمین پر جو موسیٰ اور و ہارون (علیہما السلام) کا بھی رب ہے، (فرعون بڑا گھبرایا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ساری رعایا ہی مسلمان ہوجاوے تو ایک مضمون گھڑ کر بصورت عتاب ساحروں سے) کہنے لگا کہ ہاں تم موسیٰ پر ایمان لے آئے بغیر اس کے کہ میں تم کو اجازت دوں ضرور (معلوم ہوتا ہے کہ) یہ (جادو میں) تم سب کا استاد ہے جس نے تم کو جادو سکھایا ہے (اور تم اس کے شاگرد ہو اس لئے باہم خفیہ سازش کرلی ہے کہ تم یوں کرنا ہم یوں کریں گے پھر اس طرح ہار جیت ظاہر کریں گے تاکہ قبطیوں سے سلطنت لے کر بفراغ خاطر خود ریاست کرو کقولہ تعالیٰ (اِنَّ هٰذَا لَمَكْرٌ مَّكَرْتُمُوْهُ فِي الْمَدِيْنَةِ لِتُخْرِجُوْا مِنْهَآ اَهْلَهَا) سو اب تم کو حقیقت معلوم ہوئی جاتی ہے (اور وہ یہ ہے کہ) میں تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کاٹوں گا اور تم سب کو سولی پر ٹانگ دوں گا (تاکہ اور عبرت ہو) انہوں نے جواب دیا کہ کچھ حرج نہیں ہم اپنے مالک کے پاس جا پہنچیں گے (جہاں ہر طرح امن و راحت ہے پھر ایسے مرنے سے نقصان ہی کیا اور) ہم امید رکھتے ہیں کہ ہمارا پروردگار ہماری خطاؤں کو معاف کر دے اس وجہ سے کہ ہم (اس موقع پر حاضرین میں سے) سب سے پہلے ایمان لائے (پس اس پر یہ شبہ نہیں ہوسکتا کہ ان سے پہلے بعضے ایمان لا چکے تھے جیسے آسیہ اور مومن آل فرعون اور بنی اسرائیل)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالَ لِلْمَلَاِ حَوْلَہٗٓ اِنَّ ھٰذَا لَسٰحِرٌ عَلِيْمٌ۝ ٣٤ۙ- ملأ - المَلَأُ : جماعة يجتمعون علی رأي، فيملئون العیون رواء ومنظرا، والنّفوس بهاء وجلالا . قال تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرائِيلَ [ البقرة 246] ،- ( م ل ء ) الملاء - ۔ وی جماعت جو کسی امر پر مجتمع ہو تو مظروں کو ظاہری حسن و جمال اور نفوس کو ہیبت و جلال سے بھردے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرائِيلَ [ البقرة 246] نھلا تم نے بنی اسرائیل کی ایک جماعت کو نہیں دیکھا ۔- سحر - والسِّحْرُ يقال علی معان :- الأوّل : الخداع وتخييلات لا حقیقة لها، نحو ما يفعله المشعبذ بصرف الأبصار عمّا يفعله لخفّة يد، وما يفعله النمّام بقول مزخرف عائق للأسماع، وعلی ذلک قوله تعالی:- سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف 116] - والثاني :- استجلاب معاونة الشّيطان بضرب من التّقرّب إليه، کقوله تعالی:- هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء 221- 222] ، - والثالث :- ما يذهب إليه الأغتام «1» ، وهو اسم لفعل يزعمون أنه من قوّته يغيّر الصّور والطّبائع، فيجعل الإنسان حمارا، ولا حقیقة لذلک عند المحصّلين . وقد تصوّر من السّحر تارة حسنه، فقیل : «إنّ من البیان لسحرا» «2» ، وتارة دقّة فعله حتی قالت الأطباء : الطّبيعية ساحرة، وسمّوا الغذاء سِحْراً من حيث إنه يدقّ ويلطف تأثيره، قال تعالی: بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر 15] ، - ( س ح ر) السحر - اور سحر کا لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے اول دھوکا اور بےحقیقت تخیلات پر بولاجاتا ہے - جیسا کہ شعبدہ باز اپنے ہاتھ کی صفائی سے نظرون کو حقیقت سے پھیر دیتا ہے یانمام ملمع سازی کی باتین کرکے کانو کو صحیح بات سننے سے روک دیتا ہے چناچہ آیات :۔ سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف 116] تو انہوں نے جادو کے زور سے لوگوں کی نظر بندی کردی اور ان سب کو دہشت میں ڈال دیا ۔ - دوم شیطان سے کسی طرح کا تقرب حاصل کرکے اس سے مدد چاہنا - جیسا کہ قرآن میں ہے : هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء 221- 222] ( کہ ) کیا تمہیں بتاؤں گس پر شیطان اترا کرتے ہیں ( ہاں تو وہ اترا کرتے ہیں ہر جھوٹے بدکردار پر ۔- اور اس کے تیسرے معنی وہ ہیں جو عوام مراد لیتے ہیں - یعنی سحر وہ علم ہے جس کی قوت سے صور اور طبائع کو بدلا جاسکتا ہے ( مثلا ) انسان کو گدھا بنا دیا جاتا ہے ۔ لیکن حقیقت شناس علماء کے نزدیک ایسے علم کی کچھ حقیقت نہیں ہے ۔ پھر کسی چیز کو سحر کہنے سے کبھی اس شے کی تعریف مقصود ہوتی ہے جیسے کہا گیا ہے (174)- ان من البیان لسحرا ( کہ بعض بیان جادو اثر ہوتا ہے ) اور کبھی اس کے عمل کی لطافت مراد ہوتی ہے چناچہ اطباء طبیعت کو ، ، ساحرۃ کہتے ہیں اور غذا کو سحر سے موسوم کرتے ہیں کیونکہ اس کی تاثیر نہایت ہی لطیف ادرباریک ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر 15]( یا ) یہ تو نہیں کہ ہم پر کسی نے جادو کردیا ہے ۔ یعنی سحر کے ذریعہ ہمیں اس کی معرفت سے پھیر دیا گیا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٤۔ ٣٥) اس پر فرعون نے اہل دربار سے کہا کہ یہ رسول ماہر جادوگر ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ سرزمین مصر سے تمہیں نکال باہر کرے تم اس بارے میں مجھے کیا مشورہ دیتے ہو۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٤ (قَالَ لِلْمَلَاِ حَوْلَہٓٗ اِنَّ ہٰذَا لَسٰحِرٌ عَلِیْمٌ ) ” - کہ یہ اتنا عرصہ جہاں کہیں بھی رہا ہے ‘ جادو سیکھتا رہا ہے اور لگتا ہے کہ اس فن میں اس نے خوب مہارت حاصل کرلی ہے ۔۔ اور اب :

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani