3 5 1پھر اپنی قوم کو مذید بھڑکانے کے لئے کہا کہ وہ ان شعبدہ بازیوں کے ذریعے سے تمہیں یہاں سے نکال کر خود اس پر قابض ہونا چاہتا ہے۔ اب بتلاؤ تمہاری کیا رائے ہے ؟ یعنی اس کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے۔
[٢٧] فرعون اگرچہ خود بھی ان نشانیوں سے متاثر ہوچکا تھا تاہم اس نے درباریوں کے ذہن سے یہ اثر زائل کرنے کے لئے یوں کہا دیا کہ یہ تو بہت بڑا جادوگر معلوم ہوتا ہے۔ اور چاہتا یہ ہے کہ تمہیں اس طرح مرعوب اور دہشت زدہ کرکے تمہیں تمہارے ملک سے نکال دے اور خود اس ملک پر قبضہ جما لے۔ اب یہ تو ظاہر ہے کہ فرعون کی ان دونوں باتوں میں کھلا تضاد ہے پہلی بات تو اس نے درباریوں اور عام لوگوں کو الو بنانے کے لئے کہی تھی کیونکہ جادوگر تو ہر جگہ پائے جاتے ہیں اور ملک مصر میں بڑی تعداد میں موجود تھے۔ مگر کسی جادوگر میں یہ ہمت نہیں ہوئی کہ وہ جادو کے زور سے کوئی ملک تو بڑی چیز ہے کوئی چھوٹی سی بستی ہی فتح کرکے دکھلا دے۔ وہ خود ایک مانگت اور سوالی قسم کا انسان ہوتا ہے۔ جو شعبدے دکھلانے کے بعد لوگوں سے اس محنت کی اجرت کا مطالبہ کرتا ہے۔ بھلا کسی جادوگر کی یہ ہمت ہوسکتی ہے کہ وہ فرعون جیسے جابر حکمران کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس سے بات چیت کرے۔ اور دوسری بات فی الواقعہ حقیقت کے قریب تھی۔ جو فرعون کے منہ سے بےساختہ نکل گئی تھی۔ اسے فی الواقعہ یہ محسوس ہونے لگا تھا کہ یہ شخص واقعی اللہ رب العالمین کا رسول ہے۔ اور اگر میں نے اس کی دعوت کو جھٹلا دیا تو اس کا لازمی نتیجہ یہی ہوگا کہ موسیٰ غالب آئے گا اور میں مغلوب ہوجاؤں گا مگر یہ بات وہ اپنے درباریوں پر ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا۔- [٢٨] تاموون کا ترجمہ یہاں عموماً کیا حکم دیتے ہو یا کیا حکم کرتے ہو ؟ کیا جاتا ہے جو میرے خیال میں درست نہیں۔ بھلا فرعون جیسا خود سر اور اپنے آپ کو رب کہلانے والا فرمانروا بھلا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے سامنے اپنے درباریوں سے ایسا کہہ سکتا تھا امر کا لفظ مشورہ دینے کے معنوں میں بھی آتا ہے۔ امرتژ عن امری کا معنی ہوگا۔ میں نے اپنے کام کے متعلق اس سے مشورہ کیا) منتہی الادب نیز مفردات امام راغب ( چناچہ اسی بدحواسی کے عالم میں فرعون نے اپنے درباریوں سے پوچھا کہ اس صورت حال میں اب ہمیں کیا کرنا چاہئے ؟
يُّرِيْدُ اَنْ يُّخْرِجَكُمْ مِّنْ اَرْضِكُمْ بِسِحْرِہٖ ٠ۤۖ فَمَاذَا تَاْمُرُوْنَ ٣٥- رود - والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17]- ( ر و د ) الرود - الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ - خرج - خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] ،- ( خ رج ) خرج ۔ ( ن)- خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ - أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - أمر - الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :- إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود 123] - ( ا م ر ) الامر - ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔- وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے
آیت ٣٥ (یُّرِیْدُ اَنْ یُّخْرِجَکُمْ مِّنْ اَرْضِکُمْ بِسِحْرِہٖق فَمَاذَا تَاْمُرُوْنَ ) ” - لغوی اعتبار سے ” امر “ کے معنی حکم کے بھی ہیں اور مشورہ کے بھی ‘ مگر یہاں یہ لفظ مشورہ کے معنی دے رہا ہے۔ فرعون کے اس فقرے سے اس کی تشویش صاف ظاہر ہو رہی ہے۔ گویا صورت حال اس کے اندازے سے کہیں بڑھ کر پیچیدہ اور گھمبیر تھی۔
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :29 دونوں معجزوں کی عظمت کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ یا تو ایک لمحہ پہلے وہ اپنی رعیت کے ایک فرد کو برسر دربار رسالت کی باتیں اور بنی اسرائیل کی رہائی کا مطالبہ کرتے دیکھ کر پاگل قرار دے رہا تھا ( کیونکہ اس کے نزدیک ایک غلام قوم کے فرد کا اس جیسے با جبروت بادشاہ کے حضور ایسی جسارت کرنا پاگل پن کے سوا اور کچھ نہ ہو سکتا تھا ) اور اسے دھمکی دے رہا تھا کہ اگر تو نے میرے سوا کسی کو معبود مانا تو جیل میں سڑا سڑا کر مار دوں گا ، یا اب ان نشانیوں کو دیکھتے ہی اس پر ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ اسے اپنی بادشاہی اور اپنا ملک چھننے کا خطرہ لاحق ہو گیا اور بد حواسی میں اسے یہ بھی احساس نہ رہا کہ میں بھرے دربار میں اپنے نوکروں کے سامنے کیسی بے تکی باتیں کر رہا ہوں ۔ بنی اسرائیل جیسی دبی ہوئی قوم کے دو افراد وقت کے سب سے بڑے طاقتور بادشاہ کے سامنے کھڑے تھے ۔ کوئی لاؤ لشکر ان کے ساتھ نہ تھا ۔ کوئی جان ان کی قوم میں نہ تھی ۔ کسی بغاوت کا نام و نشان تک ملک کے کسی گوشے میں نہ تھا ۔ ملک سے باہر کسی دوسری حکومت کی طاقت بھی ان کی پشت پر نہ تھی ۔ اس حالت میں صرف ایک لاٹھی کا اژدہا بنتے دیکھ کر اور ایک ہاتھ کو چمکتے دیکھ کر یکایک اس کا چیخ اٹھنا کہ یہ دو بے سرو سامان آدمی میری سلطنت کا تختہ الٹ دیں گے اور پورے حکمران طبقے کو اقتدار سے بے دخل کر دیں گے ، آخر کیا معنی رکھتا ہے ؟ اس کا یہ کہنا کہ یہ شخص جادو کے زور سے ایسا کر ڈالے گا ، مزید بد حواسی کی دلیل ہے ۔ جادو کے زور سے دنیا میں کبھی کوئی سیاسی انقلاب نہیں ہوا ، کوئی ملک فتح نہیں ہوا ، کوئی جنگ نہیں جیتی گئی ۔ جادوگر تو اس کے اپنی ملک میں موجود تھے اور بڑے بڑے کرشمے دکھا سکتے تھے ۔ مگر وہ خود جانتا تھا کہ تماشا کر کے انعام لینے سے بڑھ کر ان کی کوئی اوقات نہیں ہے ۔ سلطنت تو کجا ، وہ بیچارے تو سلطنت کے کسی پولیس کانسٹیبل کو بھی چیلنج کرنے کی ہمت نہ کر سکتے تھے ۔ سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :30 یہ فقرہ فرعون کی مزید بدحواسی کو ظاہر کرتا ہے ۔ کہاں تو وہ الٰہ بنا ہوا تھا اور یہ سب اس کے بندے تھے ۔ کہاں اب الٰہ صاحب مارے خوف کے بندوں سے پوچھ رہے ہیں کہ تمہارا حکم کیا ہے ۔ دوسرے الفاظ میں گویا وہ یہ کہہ رہا تھا کہ میری عقل تو اب کچھ کام نہیں کرتی ، تم بتاؤ کہ اس خطرے کا مقابلہ میں کیسے کروں ۔