[٣٢] مقررہ وقت سے پہلے جب تمام جادوگر اطراف و اکناف سے دارالخلافہ پہنچ گئے تو انہوں نے مل کر فرعون سے سوال کیا کہ اگر ہم کامیاب ہوگئے تو ہمیں کچھ معاوضہ یا انعام و اکرام بھی ملے گا ؟ جادوگروں کے اس سوال سے ان کی ذہنیت سامنے آجاتی ہے کہ وہ جو کچھ کرتے ہیں۔ پیٹ کے دھندے کے طور پر کرتے ہیں۔ اس سے بلند ان کا کوئی مطمع نظر ہوتا ہی نہیں۔ جبکہ نبی لوگوں کے معاوضہ سے مطلقاً بےنیاز ہوتا ہے وہ بےلوث ہو کر محض اللہ کی رضا مندی کی خاطر اپنا فریضہ سرانجام دیتا ہے۔- فرعون کی اس وقت جان پر بنی ہوئی تھی۔ جادوگروں کے اس وال پر فوراً کہنے لگا۔ محض انعام و کرام کی کیا بات کرتے ہو اگر تم کامیاب ہوگئے میں انعام و اکرام کے بدلہ تمہیں بلند مناصب بھی دوں گا اور تم میرے مقربین میں سے ہو گے۔
قَالَ نَعَمْ وَاِنَّكُمْ اِذًا لَّمِنَ الْمُقَرَّبِيْنَ ٤٢- نعم (هاں)- و «نَعَمْ» كلمةٌ للإيجابِ من لفظ النِّعْمَة، تقول : نَعَمْ ونُعْمَةُ عَيْنٍ ونُعْمَى عَيْنٍ ونُعَامُ عَيْنٍ ، ويصحُّ أن يكون من لفظ أَنْعَمَ منه، أي : أَلْيَنَ وأَسْهَلَ.- نعم یہ کلمہ ایجاب ہے اور لفظ نعمت سے مشتق ہے ۔ اور نعم ونعمۃ عین ونعمیٰ عین ونعام عین وغیرہ ان سب کا ماخز نعمت ہی ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ تمام مرکبات انعم سے ماخوذ ہوں جس کے معنی نرم اور سہل بنانے کے ہیں ۔- قرب - الْقُرْبُ والبعد يتقابلان . يقال : قَرُبْتُ منه أَقْرُبُ «3» ، وقَرَّبْتُهُ أُقَرِّبُهُ قُرْباً وقُرْبَاناً ، ويستعمل ذلک في المکان، وفي الزمان، وفي النّسبة، وفي الحظوة، والرّعاية، والقدرة .- نحو : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] - ( ق ر ب ) القرب - والبعد یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلہ میں استعمال ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قربت منہ اقرب وقربتہ اقربہ قربا قربانا کسی کے قریب جانا اور مکان زمان ، نسبی تعلق مرتبہ حفاظت اور قدرت سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے جنانچہ قرب مکانی کے متعلق فرمایا : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں داخل ہوجاؤ گے
(٤٢) فرعون نے کہا ہاں تمہیں بڑا انعام ملے گا اور مزید یہ کہ تم میرے خصوصی مقرب بن جاؤگے۔
آیت ٤٢ (قَالَ نَعَمْ وَاِنَّکُمْ اِذًا لَّمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ ) ” - خلعتیں اور انعامات بھی ملیں گے اور اس کے علاوہ تم لوگوں کو دربار میں اعلیٰ مناصب عطا کر کے میں اپنے مقرب مصاحبین میں بھی شامل کرلوں گا۔
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :35 اور یہ تھا وہ بڑے سے بڑا اجر جو ان خادمان دین و ملت کو بادشاہ وقت کے ہاں سے مل سکتا تھا ۔ یعنی روپیہ پیسہ ہی نہیں ملے گا ، دربار میں کرسی بھی نصیب ہو جائے گی ۔ اس طرح فرعون اور اس کے ساحروں نے پہلے ہی مرحلے پر نبی اور جادوگر کا عظیم اخلاقی فرق خود کھول کر رکھ دیا ۔ ایک طرف وہ حوصلہ تھا کہ بنی اسرائیل جیسی پسی ہوئی قوم کا ایک فرد دس سال تک قتل کے الزام میں روپوش رہنے کے بعد فرعون کے دربار میں درّانہ آ کھڑا ہوتا ہے اور دھڑلّے کے ساتھ کہتا ہے کہ میں اللہ رب العالمین کا بھیجا ہوا ہوں ، بنی اسرائیل کو میرے حوالے کر ۔ فرعون سے دو بدو بحث کرنے میں ادنیٰ سی جھجک بھی محسوس نہیں کرتا ۔ اس کی دھمکیوں کو وہ پر کاہ کے برابر بھی وقعت نہیں دیتا ۔ دوسری طرف یہ کم حوصلگی ہے کہ اسی فرعون کے ہاں باپ دادا کے دین کو بچانے کی خدمت پر بلائے جا رہے ہیں ، پھر بھی ہاتھ جوڑ کر کہتے ہیں کہ سرکار ، کچھ انعام تو مل جائے گا نا ؟ اور جواب میں یہ سن کر پھولے نہیں سماتے کہ پیسہ بھی ملے گا اور قرب شاہی سے بھی سرفراز کیے جائیں گے ۔ یہ دو مقابل کے کردار آپ سے آپ ظاہر کر رہے تھے کہ نبی کس شان کا انسان ہوتا ہے اور اس کے مقابلے میں جادوگروں کی کیا ہستی ہوتی ہے ۔ جب تک کوئی شخص بے حیائی کی ساری حدوں کو نہ پھاند جائے ، وہ نبی کو جادوگر کہنے کی جسارت نہیں کر سکتا ۔