4 3 1حضرت موسیٰ علیہ کی طرف سے جادوگروں کو پہلے اپنے کرتب دکھانے کے لئے کہنے میں یہ حکمت معلوم ہوتی ہے کہ ایک تو ان پر یہ واضح ہوجائے کہ اللہ کے پیغمبر اتنی بڑی تعداد میں نامی گرامی جادوگروں کے اجتماع اور ان کی ساحرانہ شعبدہ بازیوں سے خوف زدہ نہیں ہے۔ دوسرا یہ مقصد بھی ہوسکتا ہے کہ جب اللہ کے حکم سے یہ ساری شعبدہ بازیاں آن واحد میں ختم ہوجائیں گی تو دیکھنے والوں پر اس کے اچھے اثرات مرتب ہونگے اور شاید اس طرح زیادہ لوگ اللہ پر ایمان لے آئیں۔ چناچہ ایسا ہی ہوا، بلکہ جادوگر ہی سب سے پہلے ایمان لے آئے، جیسا کہ آگے آرہا ہے۔
[٣٣] فرعون کے اس جواب پر جادوگر بہت خوش ہوگئے۔ میدان مقابلہ میں آئے تو موسیٰ (علیہ السلام) سے مقابلہ کے عام دستور کے مطابق پوچھا : پہلے آپ اپنا شعبدہ دکھلائیں گے، یا ہم پہل کریں ؟ موسیٰ (علیہ السلام) نے فوراً جواب دیا : نہیں پہلے تم ہی اپنا شعبدہ دکھلاؤ گے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ جواب محض رسماً یا رواجاً یا ان کی عزت افزائی کے طور پر نہیں دیا بلکہ آپ چاہتے ہی یہ تھے کہ باطل پوری طرح پہلے اپنا مظاہرہ کرلے۔ اس کے بعد ہی حق کی فتح پوری طرح واضح ہوسکے گی۔
معارف و مسائل - اَلْقُوْا مَآ اَنْتُمْ مُّلْقُوْنَ ، یعنی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جادوگروں سے کہا کہ آپ جو کچھ جادو دکھانا چاہتے ہو وہ دکھاؤ۔ اس پر سرسری نظر ڈالنے سے یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ان کو جادو کا حکم دے رہے ہیں لیکن ذرا سے غور سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف سے جادو دکھانے کا حکم نہیں تھا بلکہ جو کچھ وہ کرنے والے تھے اس کا ابطال مقصود تھا لیکن اس کا باطل ہونا بغیر اس کے ظاہر کرنے کے ناممکن تھا اس لئے آپ نے ان کو اظہار جادو کا حکم دیا جیسے کہ ایک زندیق کو کہا جائے کہ تم اپنے زندقہ اور بےدینی کے دلائل پیش کرو تاکہ میں ان کو باطل ثابت کرسکوں ظاہر ہے کہ اسے کفر پر رضامندی نہیں کہا جاسکتا۔
قَالَ لَہُمْ مُّوْسٰٓي اَلْقُوْا مَآ اَنْتُمْ مُّلْقُوْنَ ٤٣- موسی - مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته .- لقی( افعال)- والإِلْقَاءُ : طرح الشیء حيث تلقاه، أي : تراه، ثم صار في التّعارف اسما لكلّ طرح . قال : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] ، قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ- [ الأعراف 115] ،- ( ل ق ی ) لقیہ ( س)- الالقآء ( افعال) کے معنی کسی چیز کو اس طرح ڈال دیناکے ہیں کہ وہ دوسرے کو سمانے نظر آئے پھر عرف میں مطلق کس چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا ۔ قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف 115] تو جادو گروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں ۔ موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو۔
(٤٣) غرض کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جادوگروں سے کہا جو کچھ تمہیں ڈالنا ہو ڈالو۔