5 0 1لاضیر۔ کوئی حرج نہیں یا ہمیں کوئی پرواہ نہیں۔ یعنی اب جو سزا چاہے دے لے، ایمان سے نہیں پھر سکتے۔
قَالُوْا لَا ضَيْرَ ۡ اِنَّآ اِلٰى رَبِّنَا مُنْقَلِبُوْنَ ، یعنی جب فرعون نے جادوگروں کو قبول ایمان پر قتل کی اور ہاتھ پاؤں کاٹنے اور سولی چڑھانے کی دھمکی دی تو جادوگروں نے بڑی بےپروائی سے یہ جواب دیا کہ تم جو کچھ کرسکتے ہو کرلو۔ ہمارا کوئی نقصان نہیں، ہم قتل بھی ہوں گے تو اپنے رب کے پاس چلے جائیں گے جہاں آرام ہی آرام ہے۔- یہاں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ یہ جادوگر جو عمر بھر جادوگری کے کفر میں مبتلا، اس پر مزید فرعون کے دعویٰ خدائی کو ماننے والے اور اس کی پرستش کرنے والے تھے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا معجزہ دیکھ کر اپنی پوری قوم کے خلاف، فرعون جیسے ظالم جابر بادشاہ کے خلاف ایمان کا اعلان کردیں یہی ایک حیرت انگیز چیز تھی مگر یہاں تو صرف ایمان کا اعلان ہی نہیں بلکہ ایمان کا وہ گہرا رنگ چڑھ جانے کا مظاہرہ ہے کہ قیامت و آخرت گویا ان کے سامنے نظر آنے لگی۔ آخرت کی نعمتوں کا مشاہدہ ہونے لگا ہے جس کے مقابلے میں دنیا کی ہر سزا اور مصیبت سے بےنیاز ہو کر (فَاقْضِ مَآ اَنْتَ قَاضٍ ) کہہ دیا یعنی جو تیرا جی چاہے کرلے ہم تو ایمان سے پھرنے والے نہیں۔ یہ بھی درحقیقت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ہی کا معجزہ ہے جو معجزہ عصا اور ید بیضاء سے کم نہیں، اسی طرح کے بہت سے واقعات ہمارے رسول محمد مصطفے ٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھوں ظاہر ہوئے ہیں کہ ایک منٹ میں ستر برس کے کافر میں ایسا انقلاب آ گیا کہ صرف مومن ہی نہیں ہوگیا بلکہ غازی بن کر شہید ہونے کی تمنا کرنے لگا۔
قَالُوْا لَا ضَيْرَ ٠ۡاِنَّآ اِلٰى رَبِّنَا مُنْقَلِبُوْنَ ٥٠ۚ- ضير - الضَّيْرُ : المَضَرَّةُ ، يقال : ضارّه وضرّه . قال تعالی: لا ضَيْرَ إِنَّا إِلى رَبِّنا مُنْقَلِبُونَ- [ الشعراء 50] ، وقوله : لا يَضُرُّكُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئاً [ آل عمران 120] .- ( ض ی ر ) الضیر ( ض ) کے معنی مضرت اور گزند کے ہیں اور ضارہ وضرہ کے ایک ہی معنی ہیں یعنی کسی کو نقصان اور تکلیف پہنچانا۔ قرآن میں ہے ؛ لا ضَيْرَ إِنَّا إِلى رَبِّنا مُنْقَلِبُونَ [ الشعراء 50] کچھ نقصان ( کی بات ) نہیں ہم اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں ۔ اور فرمایا ؛ لا يَضُرُّكُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئاً [ آل عمران 120] ان کا فریب تمہیں کچھ بھی نقصان نہ پہنچا سکے گا ۔- انقلاب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، - والِانْقِلابُ : الانصراف، قال : انْقَلَبْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَيْهِ [ آل عمران 144] ، وقال : إِنَّا إِلى رَبِّنا مُنْقَلِبُونَ [ الأعراف 125] - ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں - الانقلاب - کے معنی پھرجانے کے ہیں ارشاد ہے ۔ انْقَلَبْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَيْهِ [ آل عمران 144] تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ ( یعنی مرتد ہوجاؤ ) وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَيْهِ [ آل عمران 144] اور جو الٹے - پاؤں پھر جائے گا ۔إِنَّا إِلى رَبِّنا مُنْقَلِبُونَ [ الأعراف 125] ہم اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں ۔
(٥٠) انھوں نے جواب دیا جو دنیا میں ہمارے ساتھ برتاؤ کرے گا اس سے ہمارا آخرت میں کوئی نقصان نہیں ہوگا ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے عطا کردہ ثواب کے پاس جا پہنچیں گے۔