Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

511أوَّلُ الْمُئْومِنِیْنَ اس اعتبار سے کہا کہ فرعون کی قوم مسلمان نہیں ہوئی اور انہوں نے قبول ایمان میں سبقت کی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٨] مقابلہ سے پہلے جادوگروں کی یہ حالت تھی کہ وہ فرعون سے انعام و اکرام حاصل کرنے کے لئے التجا کر رہے تھے لیکن جب وہ علی وجہ البصبرت صدق دل سے ایمان لے آئے تو ان کے ذہن میں یک لخت انقلاب آگیا۔ جیسے یکدم کسی کی آنکھیں کھل جائیں۔ ان کے ایمان نے ان میں اتنی جرات پیدا کردی تھی کہ اب وہ اسی جابر اور ظالم فرعون کی سولی کی دھمکی کو بھی خاطر میں نہیں لا رہے تھے وہ یک زبان ہو کو بول اٹھے تم جتنا بڑا سلوک ہم سے کرسکتے ہو اس میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھو۔ زیادہ سے زیادہ تم ہمیں مار ہی سکتے ہو۔ اس سے زیادہ تو ہمارا کچھ بگاڑ سکو گے مگر ہمیں جو دولت ایمان میسرآئی ہے وہ ان تکلیفوں کے مقابلہ میں ہزار درجہ بہتر ہے۔ انصاف کا تقاضا تو یہ تھا کہ اس معرکہ حق و باطل میں جادوگروں کی شکست کے بعد جس طرح جادوگروں ایمان لائے تھے اسی طرح فرعون بھی ایمان لے آتا۔ مگر وہ پہلے سے زیادہ اکڑ بیٹھا جس کی وجہ سے محض یہ تھی کہ اگر وہ ایمان لاتا تو اس کی ساری حکومت اور اقتدار ہاتھ سے جاتی تھی اور اسے موسیٰ (علیہ السلام) کا مطیع فرمان بنا کر رہنا پڑتا تھا۔ لیکن جادوگروں کو ایسی کوئی فکر لاحق نہ تھی۔ جس سے ایک واضح نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایمان لانے میں سب سے بڑی رکاوٹ اپنے جاہ، اپنی سرداریوں اور اپنے۔۔ سے دستبرداری ہوتی ہے اور ایسے ہی لوگ انبیاء کے سب سے پہلے اور سب سے بڑے مخالف اور دشمن ہوتے ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَنْ كُنَّآ اَوَّلَ الْمُؤْمِنِيْنَ : یعنی دلیل واضح ہوجانے کے بعد قوم فرعون میں سے سب سے پہلے ہم ایمان لائے۔ - نوٹ آیت (٤١) سے (ا ٥) تک کی تفسیر کے لیے سورة اعراف (١١٣ تا ١٢٦) اور سورة طٰہٰ (٦٥ تا ٧٥) کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّا نَطْمَعُ اَنْ يَّغْفِرَ لَنَا رَبُّنَا خَطٰيٰنَآ اَنْ كُنَّآ اَوَّلَ الْمُؤْمِنِيْنَ۝ ٥ ١ۭۧ- طمع - الطَّمَعُ : نزوعُ النّفسِ إلى الشیء شهوةً له، طَمِعْتُ أَطْمَعُ طَمَعاً وطُمَاعِيَةً ، فهو طَمِعٌ وطَامِعٌ.- قال تعالی: إِنَّا نَطْمَعُ أَنْ يَغْفِرَ لَنا رَبُّنا[ الشعراء 51] ، أَفَتَطْمَعُونَ أَنْ يُؤْمِنُوا لَكُمْ [ البقرة 75] ، خَوْفاً وَطَمَعاً [ الأعراف 56] ،- ( ط م ع ) الطمع - کے معنی ہیں نفس انسانی کا کسی چیز کی طرف خواہش کے ساتھ میلان ۔ طمع ( س ) طمعا وطماعیۃ کسی چیز کی طرف خواہش کے ساتھ مائل ہونا طمع وطامع اس طرح مائل ہونے والا قرآن میں ہے : ۔ - إِنَّا نَطْمَعُ أَنْ يَغْفِرَ لَنا رَبُّنا[ الشعراء 51] ہمین امید ہے کہ ہمارا خدا ہمارے گناہ بخش دیگا ۔- أَفَتَطْمَعُونَ أَنْ يُؤْمِنُوا لَكُمْ [ البقرة 75]( مومنوں ) کیا تم آرزو رکھتے ہو کہ یہ لوگ تمہارے دین کے قائل ہوجائیں گے ۔ خَوْفاً وَطَمَعاً [ الأعراف 56] وڑانے اور امید دلانے کیلئے - غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ - خطأ - الخَطَأ : العدول عن الجهة، وذلک أضرب :- أحدها : أن ترید غير ما تحسن إرادته فتفعله،- وهذا هو الخطأ التامّ المأخوذ به الإنسان، يقال : خَطِئَ يَخْطَأُ ، خِطْأً ، وخِطْأَةً ، قال تعالی: إِنَّ قَتْلَهُمْ كانَ خِطْأً كَبِيراً [ الإسراء 31] ، وقال : وَإِنْ كُنَّا لَخاطِئِينَ [يوسف 91] .- والثاني : أن يريد ما يحسن فعله،- ولکن يقع منه خلاف ما يريد فيقال : أَخْطَأَ إِخْطَاءً فهو مُخْطِئٌ ، وهذا قد أصاب في الإرادة وأخطأ في الفعل، وهذا المعنيّ بقوله عليه السلام : «رفع عن أمّتي الخَطَأ والنسیان» «3» وبقوله : «من اجتهد فأخطأ فله أجر» «4» ، وقوله عزّ وجلّ : وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِناً خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ [ النساء 92] .- والثّالث : أن يريد ما لا يحسن فعله - ويتّفق منه خلافه، فهذا مخطئ في الإرادة ومصیب في الفعل، فهو مذموم بقصده وغیر محمود علی فعله، - والخَطِيئَةُ والسّيّئة يتقاربان،- لکن الخطيئة أكثر ما تقال فيما لا يكون مقصودا إليه في نفسه، بل يكون القصد سببا - لتولّد ذلک الفعل منه - ( خ ط ء ) الخطاء - والخطاء ۃ کے معنی صحیح جہت سے عدول کرنے کے ہیں - اس کی مختلف صورتیں ہیں - ۔ ( 1 ) کوئی ایسا کام بالا رادہ کرے جس کا ارادہ بھی مناسب نہ ہو ۔- یہ خطا تام ہے جس پر مواخزہ ہوگا ا س معنی میں فعل خطئی یخطاء خطاء وخطاء بولا جا تا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ قَتْلَهُمْ كانَ خِطْأً كَبِيراً [ الإسراء 31] کچھ شک نہیں کہ ان کا مار ڈالنا بڑا سخت جرم ہے ۔ وَإِنْ كُنَّا لَخاطِئِينَ [يوسف 91] اور بلا شبہ ہم خطا کار تھے - ۔ ( 2 ) ارادہ تو اچھا کام کرنے کا ہو لیکن غلطی سے برا کام سرزد ہوجائے ۔- کہا جاتا ہے : ۔ اس میں اس کا ارادہ وہ تو درست ہوتا ہے مگر اس کا فعل غلط ہوتا ہے اسی قسم کی خطا کے متعلق آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ : «رفع عن أمّتي الخَطَأ والنسیان» میری امت سے خطا سے خطا اور نسیان اٹھائے گئے ہیں ۔ نیز فرمایا : وبقوله : «من اجتهد فأخطأ فله أجر» جس نے اجتہاد کیا ۔ لیکن اس سے غلطی ہوگئی اسے پھر بھی اجر ملے گا قرآن میں ہے : ۔ اور جو غلطی سے مومن کو مار ڈالے تو ایک تو غلام کو ازاد کردے - ۔ ( 3 ) غیر مستحن فعل کا ارادہ کرے لیکن اتفاق سے مستحن فعل سرزد ہوجائے ۔- اس صورت میں اس کا فعل تو درست ہے مگر ارادہ غلط ہے لہذا اس کا قصد مذموم ہوگا مگر فعل ہے لہذا اس کا قصد مذموم ہوگا مگر فعل بھی قابل ستائس نہیں ہوگا ۔- الخطیتۃ - یہ قریب قریب سیئۃ کے ہم معنی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَحاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ [ البقرة 81] اور اسکے گناہ ہر طرف سے اس کو گھیر لیں گے ۔ لیکن زیادہ تر خطئۃ کا استعمال اس فعل کے متعلق ہوتا ہے جو بزات خود مقصود نہ ہو بلکہ کسی دوسری چیز کا ارادہ اس کے صدر کا سبب بن جائے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥١) اور ہم امید رکھتے ہیں کہ ہمارا پروردگار ہمارے سابقہ شرک کو معاف کردے اس وجہ سے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر سب سے پہلے ایمان لائے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥١ (اِنَّا نَطْمَعُ اَنْ یَّغْفِرَ لَنَا رَبُّنَا خَطٰیٰنَآ) ” - اب ہمیں اگر کچھ طمع ہے ‘ تو بس یہی ہے اور ہمارے دل میں اگر کوئی خواہش ‘ کوئی آرزو اور تمنا ہے تو ایک ہی ہے ‘ کہ ہمارا رب ہماری پچھلی خطاؤں سے درگزر فرمائے۔- (اَنْ کُنَّآ اَوَّلَ الْمُؤْمِنِیْنَ ) ” - کہ ہم نے سب سے پہلے اللہ کے رسول ( علیہ السلام) کی تصدیق کی ہے اور کوئی دوسرا اس معاملے میں ہم پر سبقت نہیں لے جاسکا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :40 یعنی ہمیں اپنے رب کی طرف پلٹنا تو بہرحال ایک نہ ایک دن ضرور ہے ۔ اب اگر تو قتل کر دے گا تو اس سے زیادہ کچھ نہ ہو گا کہ وہ دن جو کبھی آنا تھا ، آج آ جائے گا ۔ اس صورت میں ڈرنے کا کیا سوال؟ ہمیں تو الٹی مغفرت اور خطا بخشی کی امید ہے کیونکہ آج اس جگہ حقیقت کھلتے ہی ہم نے مان لینے میں ایک لمحے کی تاخیر بھی نہ کی اور اس پورے مجمع میں سب سے پہلے پیش قدمی کر کے ہم ایمان لے آئے ۔ جادوگروں کے اس جواب نے دو باتیں تمام اس خلقت کے سامنے واضح کر دیں جسے فرعون نے ڈھنڈورے پیٹ پیٹ کر جمع کیا تھا ۔ اول یہ کہ فرعون نہایت جھوٹا ، ہٹ دھرم اور مکار ہے ۔ جو مقابلہ اس نے خود فیصلے کے لیے کرایا تھا اس میں موسیٰ علیہ السلام کی کھلی کھلی فتح کو سیدھی طرح مان لینے کے بجائے اور اس نے فوراً ایک جھوٹی سازش کا افسانہ گھڑ لیا اور قتل و تعصیب کی دھمکی دے کر زبر دستی اس کا اقرار کرانے کی کوشش کی ۔ اس افسانے میں ذرہ برابر بھی کوئی صداقت ہوتی تو ممکن نہ تھا کہ جادوگر ہاتھ پاؤں کٹوانے اور سولی پر چڑھ جانے کے لیے یوں تیار ہو جاتے ۔ ایسی کسی سازش سے اگر کوئی سلطنت مل جانے کا لالچ تھا تو اب اس کے لیے کوئی گنجائش باقی نہیں رہی ، کیونکہ سلطنت کے مزے تو جو لوٹے گا سو لوٹے گا ، ان غریبوں کے حصے میں تو صرف کٹ کٹ کر جان دینا ہی رہ گیا ہے ۔ اس ہولناک خطرے کو انگیز کر کے بھی ان جادوگروں کا اپنے ایمان پر قائم رہنا اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ سازش کا الزام سراسر جھوٹا ہے اور سچی بات یہی ہے کہ جادوگر اپنے فن میں ماہر ہونے کی وجہ سے ٹھیک ٹھیک جان گئے ہیں کہ جو کچھ موسیٰ علیہ السلام نے دکھایا ہے وہ ہرگز جادو نہیں ہے بلکہ واقعی اللہ رب العالمین ہی کی قدرت کا کرشمہ ہے ۔ دوسری بات جو اس وقت ملک کے گوشے گوشے سے سمٹ کر آئے ہوئے ہزارہا آدمیوں کے سامنے کھل کر آ گئی وہ یہ تھی کہ اللہ رب العالمین پر ایمان لاتے ہی ان جادوگروں میں کیسا زبردست اخلاقی انقلاب واقع ہو گیا ۔ کہاں تو ان کی پستی ذہن و فکر کا یہ حال تھا کہ دین آبائی کی نصرت کے لیے آئے تھے اور فرعون کے آگے ہاتھ جوڑ جوڑ کر انعام مانگ رہے تھے ، اور کہاں اب آن کی آن میں ان کی بلندی ہمت و عزم اس درجے کو پہنچ گئی کہ وہی فرعون ان کی نگاہ میں ہیچ ہو گیا ، اس کی بادشاہی کی ساری طاقت کو انہوں نے ٹھوکر مار دی اور اپنے ایمان کی خاطر وہ موت اور بد ترین جسمانی تعذیب تک برداشت کرنے کے لیے تیار ہو گئے ۔ اس سے بڑھ کر مصریوں کے دین شرک کی تذلیل اور موسیٰ علیہ السلام کے لائے ہوئے دین حق کی مؤثر تبلیغ اس نازک نفسیاتی موقع پر شاید ہی کوئی اور ہو سکتی تھی ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani