فرعونیوں کا انجام موسیٰ علیہ السلام نے اپنی نبوت کا بہت سارا زمانہ ان میں گزارا ۔ اللہ کی آیتیں ان پر واضح کردیں لیکن ان کا سر نیچا نہ ہوا ان کا تکبر نہ ٹوٹا ان کی بد دماغی میں کوئی فرق نہ آیا ۔ تو اب سوا اس کے کے کوئی چیز باقی نہ رہی کہ ان پر عذاب الہٰی آجائے اور یہ غارت ہوں ۔ موسیٰ علیہ السلام کو اللہ کی وحی آئی کہ راتوں رات بنی اسرائیلیوں کو لے کر میرے حکم کے مطابق چل دو ۔ بنو اسرائیل نے اس موقع پر قبطیوں سے بہت سے زیور بطور عاریت کے لئے اور چاند چڑھنے کے وقت چپ چاپ چل دئیے ۔ مجاہد رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ اس رات چاند گہن تھا ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے راستے میں دریافت فرمایا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی قبر کہاں ہے؟ بنو اسرائیل کی ایک بڑھیا نے قبر بتلادی ۔ آپ نے تابوت یوسف اپنے ساتھ اٹھالیا ۔ کہا گیا کہ خود آپ نے ہی اسے اٹھایا تھا ۔ حضرت یوسف علیہ السلام کی وصیت تھی کہ بنی اسرائیل جب یہاں سے جانے لگیں تو آپ کا تابوت اپنے ہمراہ لیتے جائیں ۔ ابن ابی حاتم کی ایک حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کسی اعرابی کے ہاں مہمان ہوئے اس نے آپ کی بڑی خاطر تواضع کی واپسی میں آپ نے فرمایا کبھی ہم سے مدینے میں بھی مل لینا کچھ دنوں بعد اعرابی آپ کے پاس آیا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کچھ چاہئے؟ اس نے کہاں ہاں ایک تو اونٹنی دیجئے مع ہودج کے اور ایک بکری دیئجے جو دودھ دیتی ہو آپ نے فرمایا افسوس تو نے بنی اسرائیل کی بڑھیا جیسا سوال نہ کیا ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا ۔ وہ واقعہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا جب حضرت کلیم اللہ بنی اسرائیل کو لے کر چلے تو راستہ بھول گئے ہزار کوشش کی لیکن راہ نہیں ملتی ۔ آپ نے لوگوں کو جمع کرکے پوچھایہ کیا اندھیر ہے؟ تو علمائے بنی اسرائیل نے کہا بات یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے آخری وقت ہم سے عہد لیا تھا کہ جب ہم مصر سے چلیں تو آپ کے تابوت کو بھی یہاں سے اپنے ساتھ لیتے جائیں ۔ حضرت موسیٰ کلیم اللہ نے دریافت فرمایا کہ تم میں سے کون جانتا ہے کہ یوسف علیہ السلام کی تربت کہاں ہے؟ سب نے انکار کردیا ہم نہیں جانتے ہم میں سوائے ایک بڑھیا کے اور کوئی بھی آپ کی قبر سے واقف نہیں آپ نے اس بڑھیا کے پاس آدمی بھیج کر اس سے کہلوایا کہ مجھے حضرت یوسف علیہ السلام کی قبر دکھا ۔ بڑھیا نے کہا ہاں دکھاؤں گی لیکن پہلے اپنے حق لے لوں ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا تو کیا چاہتی ہے؟ اس نے جواب دیا کہ جنت میں آپ کا ساتھ مجھے میسر ہو ۔ آپ پر اس کا یہ سوال بھاری پڑا اسی وقت وحی آئی کہ اس کی بات مان لو اور اسکی شرط منظور کرلو اب وہ آپ کو ایک جھیل کے پاس لے گئی جس کے پانی کا رنگ بھی متغیر ہوگیا تھا کہا کہ اس کا پانی نکال ڈالو جب پانی نکال ڈالا اور زمین نظر آنے لگی تو کہا اب یہاں کھودو ۔ کھودنا شروع ہوا تو قبر ظاہر ہوگئی اسے ساتھ رکھ لیا اب جو چلنے لگے تو راستہ صاف نظر آنے لگا اور سیدھی راہ لگ گئے ۔ لیکن یہ حدیث بہت ہی غریب ہے بلکہ زیادہ قریب تو یہ ہے کہ یہ موقوف ہے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نہیں ۔ واللہ اعلم ۔ یہ لوگ تو اپنے راستے لگ گئے ادھر فرعون اور فرعونیوں کی صبح کے وقت جو آنکھ کھلتی ہے تو چوکیدار غلام وغیرہ کوئی نہیں ۔ سخت پیچ وتاب کھانے لگے اور مارے غصے کے سرخ ہوگئے جب یہ معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل رات کو سب کے سب فرار ہوگئے ہیں تو اور بھی سناٹا چھا گیا ۔ اسی وقت اپنے لشکر جمع کرنے لگا ۔ سب کو جمع کرکے ان سے کہنے لگا ۔ کہ یہ بنی اسرائیل کا ایک چھوٹا سا گروہ ہے محض ذلیل کمین اور قلیل لوگ ہیں ہر وقت ان سے ہمیں کوفت ہوتی رہتی ہے تکلیف پہنچتی رہتی ہے ۔ اور پھر ہر وقت ہمیں ان کی طرف سے دغدغہ ہی لگا رہتا ہے یہ معنی حاذرون کی قرأت پر ہیں سلف کی ایک جماعت نے اسے حذرون بھی پڑھا ہے یعنی ہم ہتھیار بند ہیں میں ارادہ کر چکا ہوں کہ اب انہیں ان کی سرکشی کا مزہ چکھا دوں ۔ ان سب کو ایک ساتھ گھیر گھار کر گاجر مولی کی طرح کاٹ ڈال دوں ۔ اللہ کی شان یہی بات اسی پر لوٹ پڑی اور وہ مع اپنی قوم اور لاؤ لشکر کے یہ یک وقت ہلاک ہوا ۔ لعنۃ اللہ علیہ وعلی من تبعہ ۔ جناب باری کا ارشاد ہے کہ یہ لوگ اپنی طاقت اور اکثریت کے گھمنڈ پر بنی اسرائیل کے تعاقب میں انہیں نیست ونابود کرنے کے ارادے سے نکل کھڑے ہوئے اس بہانے ہم نے انہیں ان کے باغات چشموں نہروں خزانوں اور بارونق مکانوں سے خارج کیا اور جہنم واصل کیا ۔ وہ اپنے بلند وبالا شوکت وشان والے محلات ہرے بھرے باغات جاری نہریں خزانے سلطنت ملک تخت وتاج جاہو مال سے چھوڑ کر بنی اسرائیل کے پیچھے مصر سے نکلے ۔ اور ہم نے ان کی یہ تمام چیزیں بنی اسرائیل کو دلوادیں جو آج تک پست حال تھے ذلیل ونادار تھے ۔ چونکہ ہمار ارادہ ہوچکا تھا کہ ہم ان کمزوروں کو ابھاریں اور ان گرے پڑے لوگوں کو برسر ترقی لائیں اور انہیں پیشوا اور وارث بنادیں اور ارادہ ہم نے پورا کیا ۔
5 2 1جب مصر میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا قیام لمبا ہوگیا اور ہر طرح سے انہوں نے فرعون اور اس کے درباریوں پر حجت قائم کردی۔ لیکن اس کے باوجود وہ ایمان لانے پر تیار نہیں ہوئے، تو اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ گیا تھا کہ انھیں عذاب سے دوچار کر کے سامان عبرت بنادیا جائے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ راتوں رات بنی اسرائیل کو لے کر یہاں سے نکل جائیں، اور فرمایا کہ فرعون تمہارے پیچھے آئے گا، گھبرانا نہیں۔
وَاَوْحَيْنَآ اِلٰى مُوْسٰٓي اَنْ اَسْرِ بِعِبَادِيْٓ۔۔ : اوپر کے واقعات کے بعد بنی اسرائیل کی ہجرت کا ذکر شروع ہوتا ہے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کے بعد فوراً ہی موسیٰ (علیہ السلام) کو بنی اسرائیل سمیت مصر سے نکل جانے کا حکم دے دیا گیا، بلکہ یہاں کئی سال کی تاریخ چھوڑ دی گئی ہے، جس کا ذکر سورة اعراف (١٢٧ تا ١٣٥) اور سورة یونس (٨٣ تا ٨٩) میں گزر چکا ہے اور جس کا ایک حصہ آگے سورة مؤمن (٢٣ تا ٤٦) اور سورة زخرف (٤٦ تا ٥٦) میں آ رہا ہے۔ یہاں چونکہ سلسلہ کلام کی مناسبت سے صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ جس فرعون نے صریح نشانیاں دیکھ لینے کے باوجود یہ ہٹ دھرمی دکھائی تھی اس کا انجام آخر کار کیا ہوا۔ - 3 ان آیات میں ایک بہت بڑی عبرت یہ ہے کہ حق واضح ہونے کے بعد اسے تسلیم کرنے میں ایک طرف جادوگر ہیں، جنھوں نے ایمان لانے میں ایک لمحہ کی تاخیر نہیں کی اور ہاتھ پاؤں کاٹنے اور سولی پر چڑھانے کی دھمکیاں بھی انھیں حق سے برگشتہ نہیں کرسکیں، دوسری طرف فرعون اور اس کی قوم ہے، جو سالہا سال تک ان معجزوں کے علاوہ مزید نشانیاں دیکھتے رہے اور بار بار ایمان لانے اور بنی اسرائیل کو آزادی دینے کا وعدہ کرتے رہے، اس کے باوجود غرق ہونے تک ایمان سے محروم رہے۔ سچ فرمایا موسیٰ (علیہ السلام) نے : (اِنْ هِىَ اِلَّا فِتْنَتُكَ ۭ تُضِلُّ بِهَا مَنْ تَشَاۗءُ وَتَهْدِيْ مَنْ تَشَاۗءُ ) [ الأعراف : ١٥٥ ] ” یہ نہیں ہے مگر تیری آزمائش، جس کے ساتھ تو گمراہ کرتا ہے جسے چاہتا ہے اور ہدایت بخشتا ہے جسے چاہتا ہے۔ “ سورت کے آغاز میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کفار کے ایمان نہ لانے پر تسلی دیتے ہوئے اسی حقیقت کی طرف توجہ دلائی ہے۔ دیکھیے اسی سورت کی آیات (٣ تا ٩) ۔- 3 جب فرعون کا ظلم و ستم حد سے بڑھ گیا تو موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون اور اس کی قوم کے خلاف اللہ تعالیٰ سے دعا کی۔ (دیکھیے یونس : ٨٨) اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور حکم دیا کہ میرے (مسلم) بندوں کو (بنی اسرائیلی ہوں یا کوئی اور) لے کر راتوں رات نکل جاؤ اور یاد رکھو تمہارا تعاقب کیا جائے گا، اس لیے اتنا فاصلہ طے کرلو کہ تعاقب کرنے والے جلدی تم تک نہ پہنچ سکیں۔ چناچہ ایسے موقع پر معروف طریقے کے مطابق پورے مصر کے بنی اسرائیل کے لیے ایک وقت اور ایک جگہ مقرر کردی گئی، جس پر وہ موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ جلد از جلد فرعون کی سلطنت (مصر) سے نکل جانے کے لیے رات کو روانہ ہوگئے۔ بعض تفاسیر میں ہے کہ ان میں سے ہر ایک نے قبطیوں سے عاریتاً زیور مانگ لیے تھے جنھیں وہ ساتھ لے کر ہی روانہ ہوگئے، مگر یہ بات درست نہیں۔ دیکھیے سورة طٰہٰ (٨٧) کی تفسیر۔
خلاصہ تفسیر - اور (جب فرعون کو اس واقعہ سے بھی ہدایت نہ ہوئی اور اس نے بنی اسرائیل کی آزار دہی نہ چھوڑی تو) ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم بھیجا کہ میرے (ان) بندوں کو (یعنی بنی اسرائیل کو) شبا شب (مصر سے باہر) نکال لے جاؤ (اور فرعون کی جانب سے) تم لوگوں کا تعاقب (بھی) کیا جاوے گا (چنانچہ وہ موافق حکم کے بنی اسرائیل کو لے کر رات کو چل دیئے صبح یہ خبر مشہور ہوئی تو) فرعون نے (تعاقب کی تدبیر کرنے کے لئے جا بجا آس پاس کے) شہروں میں چپراسی دوڑا دیئے (اور یہ کہلا بھیجا) کہ یہ لوگ (یعنی بنی اسرائیل ہماری نسبت) تھوڑی سی جماعت ہے (ان کے مقابلہ سے کوئی اندیشہ نہ کرے) اور انہوں نے (اپنی کارروائی سے) ہم کو بہت غصہ دلایا ہے (وہ کارروائی یہ ہے کہ خفیہ چالاکی سے نکل گئے یا یہ کہ زیور بھی ہمارا بہت سا عاریت کے بہانے سے لے گئے غرض ہم کو احمق بنا کر گئے ضرور ان کا تدارک کرنا چاہئے) اور ہم سب ایک مسلح جماعت (اور باقاعدہ فوج) ہیں، غرض (دو چار روز میں جب سامان اور فوج سے درست ہوگیا تو لاؤ لشکر لے کر بنی اسرائیل کے تعاقب میں چلا اور یہ خبر نہ تھی کہ اب لوٹنا نصیب نہ ہوگا تو اس حساب سے گویا) ہم نے ان کو باغوں سے اور چشموں سے اور خزانوں سے اور عمدہ مکانات سے نکال باہر کیا (ہم نے ان کے ساتھ تو) یوں کیا اور ان کے بعد بنی اسرائیل کو ان کا مالک بنادیا (یہ جملہ معترضہ تھا آگے قصہ ہے ( غرض ایک روز) سورج نکلنے کے وقت ان کو پیچھے سے جا لیا (یعنی قریب پہنچ گئے اس وقت بنی اسرائیل دریائے قلزم سے اترنے کی فکر میں تھے کہ کیا سامان کریں) پھر جب دونوں جماعتیں (باہم ایسی قریب ہوئیں کہ) ایک دسرے کو دیکھنے لگیں تو موسیٰ (علیہ السلام) کے ہمراہی (گھبرا کر) کہنے لگے کہ (اے موسی) بس ہم تو ان کے ہاتھ آگئے، موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ ہرگز نہیں کیونکہ میرے ہمراہ میرا پروردگار ہے وہ مجھ کو ابھی (دریا سے نکلنے کا) رستہ بتلا دے گا (کیونکہ موسیٰ (علیہ السلام) کو روانگی کے وقت ہی کہہ ددیا گیا تھا کہ سمندر میں خشک راستہ پیدا ہوجائے گا۔ فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيْقًا فِي الْبَحْرِ يَبَسًا ۙ لَّا تَخٰفُ دَرَكًا وَّلَا تَخْشٰى گو خشک ہونے کی کیفیت اس وقت نہ بتلائی تھی، پس موسیٰ (علیہ السلام) اس وعدہ پر مطمئن تھے اور بنی اسرائیل کیفیت معلوم نہ ہونے سے مضطرب تھے) پھر ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ اپنی عصا کو دریا پر مارو چناچہ (انہوں نے اس پر عصا مارا جس سے) وہ (دریا) پھٹ (کر کئی حصے ہو) گیا (یعنی پانی کئی جگہ سے ادھر ادھر ہٹ کر بیچ میں متعدد سڑکیں کھل گئیں) اور ہر حصہ اتنا (بڑا) تھا جیسا بڑا پہاڑ (یہ لوگ دربار میں امن و اطمینان سے پار ہوگئے، اور ہم نے دوسرے فریق کو بھی اس موقع کے قریب پہنچا دیا (یعنی فرعون اور فرعونی بھی دریا کے نزدیک پہنچے اور موافق پیشنگوئی سابق واتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْوًا دریا اس وقت تک اسی حال پر ٹھہرا ہوا تھا، اس لئے کھلے رستہ کو غنیمت سمجھا اور آگا پیچھا کچھ سوچا نہیں، سارا لشکر اندر گھس گیا اور چاروں طرف سے پانی سمٹنا شروع ہوا اور سارے لشکر کا کام تمام ہوا) اور (انجام قصہ کا یہ ہوا کہ) ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اور ان کے ساتھ والوں سب کو (غرق ہونے سے) بچا لیا، پھر دوسروں کو (یعنی ان کے مخالفوں کو) غرق کردیا (اور) اس واقعہ میں بھی بڑی عبرت ہے (یعنی اس قابل ہے کہ کفار اس سے استدلال کریں کہ مخالفت احکام و رسول موجب عذاب خداوندی ہے اور اس کو سمجھ کر مخالفت سے بچیں) اور (باوجود اس کے) ان (کفار مکہ) میں اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے اور آپ کا رب بڑا زبردست ہی (اگر چاہتا دنیا میں ہی ان کو عذاب دیتا لیکن) بڑا مہربان (بھی) ہے (اس لئے اپنی رحمت عامہ سے عذاب کی مہلت مقرر کردی ہے، پس تعجیل عذاب سے بےفکر نہ ہونا چاہئے۔ )
وَاَوْحَيْنَآ اِلٰى مُوْسٰٓي اَنْ اَسْرِ بِعِبَادِيْٓ اِنَّكُمْ مُّتَّبَعُوْنَ ٥٢- وحی - أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی،- ( و ح ی ) الوحی - کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔- اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے - موسی - مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته .- سری - السُّرَى: سير اللّيل، يقال : سَرَى وأَسْرَى. قال تعالی: فَأَسْرِ بِأَهْلِكَ [هود 81] ، وقال تعالی: سُبْحانَ الَّذِي أَسْرى بِعَبْدِهِ لَيْلًا [ الإسراء 1] 232-- بسرو حمیر أبوال البغال به - «1» فأسری نحو أجبل وأتهم، وقوله تعالی:- سُبْحانَ الَّذِي أَسْرى بِعَبْدِهِ- [ الإسراء 1] ، أي : ذهب به في سراة من الأرض، وسَرَاةُ كلّ شيء : أعلاه، ومنه : سَرَاةُ النهار، أي : ارتفاعه، وقوله تعالی: قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سَرِيًّا[ مریم 24] أي : نهرا يسري «2» ، وقیل : بل ذلک من السّرو، أي : الرّفعة . يقال، رجل سَرْوٌ. قال : وأشار بذلک إلى عيسى عليه السلام وما خصّه به من سروه، يقال : سَرَوْتُ الثوبَ عنّي، أي : نزعته، وسَرَوْتُ الجُلَّ عن الفرس «3» ، وقیل : ومنه : رجل سَرِيٌّ ، كأنه سَرَى ثوبه بخلاف المتدثّر، والمتزمّل، والزّمّيل «4» ، وقوله : وأَسَرُّوهُ بِضاعَةً [يوسف 19] ، أي : خمّنوا في أنفسهم أن يحصّلوا من بيعه بضاعة، والسَّارِيَةُ يقال للقوم الذین يَسْرُونَ باللیل، وللسّحابة التي تسري، وللأسطوانة .- ( س ر ی و ) السریٰ- کے معنی رات کو سفر کرنے کے ہیں اور اس معنی میں سریٰ ( ض ) واسریٰ ( افعال ) دونوں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَأَسْرِ بِأَهْلِكَ [هود 81] تو کچھ رات رہے سے اپنے گھر والوں کو لے کر چل دو ۔ سُبْحانَ الَّذِي أَسْرى بِعَبْدِهِ لَيْلًا [ الإسراء 1] ( وہ ذات ) پاک ) ہے جو ایک رات اپنے بندے کو لے گیا ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ اسریٰ ( باب افعال ) سریٰ یسری سے نہیں ہے ۔ جس کے معنی رات کو سفر کرنے کے ہیں بلکہ یہ سراۃ سے مشتق ہے جس کے معنی کشادہ زمین کے ہیں ۔ اور اصل میں اس کے لام کلمہ میں واو ہے اور اسی سے شاعر نے کہا ہے ۔ ( البسیط ) بسرو حمیر أبوال البغال بهحمیر کی کشادہ زمین میں جہاں خچروں کا پیشاب یعنی کہ سراب نظر آتے ہیں ۔ پس اسری کے معنی کشادہ زمین چلے جانا ہیں ۔ جیسے اجبل کے معنی ہیں وہ پہاڑ پر چلا گیا اور اتھم کے معنی ، وہ تہامہ میں چلا گیا ۔ لہذا آیت ؛۔ سُبْحانَ الَّذِي أَسْرى بِعَبْدِهِ [ الإسراء 1] کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو وسیع اور کشادہ سر زمین میں لے گیا ۔ نیز سراۃ ہر چیز کے افضل اور اعلیٰ حصہ کو بھی کہتے ہیں ۔ اسی سے سراۃ النھار ہے جس کے معنی دن کی بلندی کے ہیں ۔ اور آیت : قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سَرِيًّا [ مریم 24] تمہارے پروردگار نے تمہارے سے نیچے ایک چشمہ پیدا کردیا ہے میں سری سے نہر جاری مراد ہے بعض نے کہا ہے کہ یہ سرو سے مشتق ہے جس کے معنی رفعت کے ہیں اور بلند قدر آدمی کو رجل سرو ۔ کہا جاتا ہے تو لفظ سری سے عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے اس شرف کی طرف اشارہ ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے انہیں خاص طور پر نوازا تھا ۔ محاورہ ہے : سَرَوْتُ الثوبَ عنّي : میں نے اپنے اوپر سے کپڑا اتار دیا ۔ وسَرَوْتُ الجُلَّ عن الفرس : میں گھوڑے سے جھول اتار دیا ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسی سے رجل سری ۔ ہے کیونکہ بلند قدر آدمی ہوشیار رہتا ہے گویا وہ کپڑے اتارے ہوئے ہے اسکے برعکس کاہل سست اور ناتوان آدمی کو متدثر متزمل اور زمیل وغیرہ کہا جاتا ہے گویا وہ اپنے کپڑوں میں لپٹا پڑا ہے اور الساریۃ اس جماعت کو کہتے ہیں جو رات کو سفر کرتی ہو اور اس کے معنی رات کے بادل اور ستون بھی آتے ہیں ۔- عبد - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - تبع - يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلك - قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] ، - ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ - کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے
(٥٢) اور ہم نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم بھیجا کہ بنی اسرائیل میں سے میرے ان بندوں کو جو کہ آپ پر ایمان لائے ہیں، شباشب (مصر) سے باہر لے جاؤ تم لوگوں کا فرعون اور ان کی قوم تعاقب کرے گی۔
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :41 اوپر کے واقعات کے بعد ہجرت کا ذکر شروع ہو جانے سے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ اس کے بعد بس فوراً ہی حضرت موسیٰ کو بنی اسرائیل سمیت مصر سے نکل جانے کے احکام دے دیے گئے ۔ دراصل یہاں کئی سال کی تاریخ بیچ میں چھوڑ دی گئی ہے جسے سورہ عراف رکوع 15 ۔ 16 ، اور سورہ یونس رکوع 9 میں بیان کیا جا چکا ہے ، اور جس کا ایک حصہ آگے سورہ مومن رکوع 2 ۔ 5 اور الزُّخرف رکوع 5 میں آ رہا ہے ۔ یہاں چونکہ سلسلہ کلام کی مناسبت سے صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ جس فرعون نے صریح نشانیاں دیکھ لینے کے باوجود یہ ہٹ دھرمی دکھائی تھی اس کا انجام آخر کار کیا ہوا ۔ اور جس دعوت کی پشت پر اللہ تعالیٰ کی طاقت تھی وہ کس طرح کامیابی سے ہمکنار ہوئی ، اس لیے فرعون اور حضرت موسیٰ کی کشمکش کے ابتدائی مرحلے کا ذکر کرنے کے بعد اب قصہ مختصر کر کے اس کا آخری منظر دکھایا جا رہا ہے ۔ سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :42 واضح رہے کہ بنی اسرائیل کی آبادی مصر میں کسی ایک جگہ مجتمع نہ تھی بلکہ ملک کے تمام شہروں اور بستیوں میں بٹی ہوئی تھی اور خصوصیت کے ساتھ منف ( ) سے رَعْمَسِیْس تک اس علاقے میں ان کی بڑی تعداد آباد تھی جسے جُشن کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا ( ملاحظہ ہو نقشہ خروج بنی اسرائیل ، تفہیم القرآن جلد دوم ، صفحہ 76 ) ۔ لہٰذا حضرت موسیٰ کو جب حکم دیا گیا ہو گا کہ اب تمہیں بنی اسرائیل کو لے کر مصر سے نکل جانا ہے تو انہوں نے بنی اسرائیل کی تمام بستیوں میں ہدایات بھیج دی ہوں گی کہ سب لوگ اپنی اپنی جگہ ہجرت کے لیے تیار ہو جائیں ، اور ایک خاص رات مقرر کر دی ہو گی کہ اس رات ہر بستی کے مہاجرین نکل کھڑے ہوں ۔ یہ ارشاد کہ تمہارا پیچھا کیا جائے گا اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ہجرت کے لیے رات کو نکلنے کی ہدایت کیوں کی گئی تھی ۔ یعنی قبل اس کے کہ فرعون لشکر لے کر تمہارے تعاقب میں نکلے تم راتوں رات اپنا راستہ اس حد تک طے کر لو کہ اس سے بہت آگے نکل چکے ہو ۔