6 2 1حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے تسلی دی کہ تمہارا اندیشہ صحیح نہیں، اب دوبارہ تم فرعون کی گرفت میں نہیں جاؤ گے۔ میرا رب یقینا نجات کے راستے کی نشاندہی فرمائے گا۔
[٤٣] لیکن موسیٰ (علیہ السلام) پر اس صورت حال کا کچھ بھی اثر نہ ہوا۔ انھیں اس بات کا یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے جو فتح و نصرت کے وعدے کر رکھے ہیں وہ یقیناً پورے ہوں گے۔ اور اس مصیبت سے نجات کے لئے بھی اللہ ضرور کوئی راہ نکال دے گا۔ لہذا انہوں نے گھبرائے ہوئے بنی اسرائیل کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ فرعون تمہلارا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی مدد ہمارے شامل حال ہے وہ ان حالات میں بھی ضرور ہماری رہنمائی فرمائے گا۔
قَالَ كَلَّا ۚ اِنَّ مَعِيَ رَبِّيْ سَيَهْدِيْنِ : فرمایا، ایسا ہرگز نہیں ہوگا، بلکہ میرا رب میرے ساتھ ہے، اس نے فرعون کی طرف روانہ کرتے ہوئے خود مجھ سے وعدہ کیا ہے : (اِنَّا مَعَكُمْ مُّسْتَمِعُوْنَ ) [ الشعراء : ١٥ ] ” بیشک ہم تمہارے ساتھ خوب سننے والے ہیں۔ “ اسی کے حکم سے میں یہاں آیا ہوں، یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ اب وہ مجھے بےیارو مددگار چھوڑ دے، وہ مجھے ضرور ان سے نجات کا راستہ بتائے گا۔
اور وجہ یہ بتلاتے ہیں کہ اِنَّ مَعِيَ رَبِّيْ سَيَهْدِيْنِ میرے ساتھ میرا پروردگار ہے جو مجھے راستہ دے گا۔ ایمان کا امتحان ایسے ہی مواقع میں ہوتا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) پر ذرا ہراس نہیں تھا، وہ گویا راستہ بچنے کا آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ اسی طرح کا بعینہ واقعہ ہجرت کے وقت غار ثور میں چھپنے کے وقت رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پیش آیا تھا کہ دشمن جو آپ کے تعاقب میں تھے اس غار کے دہانے پر آکھڑے ہوئے ذرا نیچے نظر کریں تو آپ ان کے سامنے آجائیں اس وقت صدیق اکبر کو گھبراہٹ ہوئی تو آپ نے بعینہ یہی جواب دیا لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا کہ غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ ان دونوں واقعات میں ایک بات یہ بھی قابل نظر ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو تسلی دینے کے لئے کہا اِنَّ مَعِيَ رَبِّيْ میرے ساتھ میرا رب اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب مَعَنَا فرمایا کہ ہم دونوں کے ساتھ ہمارا رب ہے، یہ امت محمدیہ کی خصوصیت ہے کہ اس کے افراد بھی اپنے رسول کے ساتھ معیت الہیہ سے سرفراز ہیں۔
قَالَ كَلَّا ٠ۚ اِنَّ مَعِيَ رَبِّيْ سَيَہْدِيْنِ ٦٢- كلا - كَلَّا : ردع وزجر وإبطال لقول القائل، وذلک نقیض «إي» في الإثبات . قال تعالی: أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ إلى قوله كَلَّا[ مریم 77- 79] وقال تعالی: لَعَلِّي أَعْمَلُ صالِحاً فِيما تَرَكْتُ كَلَّا [ المؤمنون 100] إلى غير ذلک من الآیات، وقال : كَلَّا لَمَّا يَقْضِ ما أَمَرَهُ [ عبس 23] .- کلا یہ حرف روع اور زجر ہے اور ماقبل کلام کی نفی کے لئے آتا ہے اور یہ ای حرف ایجاب کی ضد ہے ۔ جیسا کہ قرآن میں ہے ۔ أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ إلى قوله كَلَّا[ مریم 77- 79] بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے ہماری آیتوں سے کفر کیا ۔ اور کہنے لگا اگر میں ازسر نو زندہ ہوا بھی تو یہی مال اور اولاد مجھے وہاں ملے گا کیا اس نے غیب کی خبر پالی ہے یا خدا کے یہاں ( سے ) عہد لے لیا ہے ہر گز نہیں ۔ لَعَلِّي أَعْمَلُ صالِحاً فِيما تَرَكْتُ كَلَّا [ المؤمنون 100] تاکہ میں اس میں جسے چھوڑ آیا ہوں نیک کام کروں ہرگز نہیں ۔ كَلَّا لَمَّا يَقْضِ ما أَمَرَهُ [ عبس 23] کچھ شک نہیں کہ خدا نے سے جو حکم دیا ۔ اس نے ابھی تک اس پر عمل نہیں کیا ۔ اور اس نوع کی اور بھی بہت آیات ہیں ۔- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔
(٦٢) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا ہم ہرگز ان کے ہاتھ نہیں آسکتے کیوں کہ میرے ساتھ میرا پروردگار ہے وہ ابھی مجھ کو ان سے نجات دے دے گا اور راستہ بتا دے گا۔
آیت ٦٢ (قَالَ کَلَّاج اِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَہْدِیْنِ ) ” - اس آیت کے یہ الفاظ سورة التوبہ کی آیت ٤٠ کے ان الفاظ سے ملتے جلتے ہیں جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غار ثور میں حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو مخاطب کر کے فرمائے تھے : (لاَ تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا ج) ” ( اے ابوبکر (رض) آپ پریشان نہ ہوں ‘ یقیناً اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ “
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :46 یعنی مجھے اس آفت سے بچنے کی راہ بتائے گا ۔