6 4 1اس سے مراد فرعون اور اس کا لشکر ہے یعنی ہم نے دوسروں کو سمندر کے قریب کردیا۔
[٤٥] اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر بنی اسرائیل کے لئے نجات کی راہ پیدا کردی۔ اور بنی اسرائیل اس میں سے گزر کر بخیر و عافیت اس بحیرہ کے دوسرے کنارے پر پہنچ گئے اس وقت فرعون کا لشکر انہی راستوں سے گزر کر سمندر پاکر کرنے کی تیاریاں کر رہا تھا۔ شاید اس وقت موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ خیال آیا ہو تو اب دوبارہ سمندر پر اپنا عصا ماریں۔ تاکہ پانی پھر سے آپس میں مل جائے اور فرعون کا لشکر ان تک نہ پہنچنے پائے لیکن اسی وقت اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو وحی کی کہ واترک البحر وھوا (٤٤: ٢٤) یعنی سمندر کو اسی حال میں پہاڑوں کی طرح کھڑا چھوڑ دو ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی مرضی صرف یہی نہیں تھی کہ بنی اسرائیل ان فرعونیوں سے نجات پاجائیں بلکہ یہ بھی تھی کہ اس ظالم قوم کو سمندر میں غرق کرکے صفحہ ہستی سے نیست و نابود کردیا جائے۔- فرعون اور آل فرعون اگر بنی اسرائیل کا تعاقب نہ کرتے یا سمندر سے ہی واپس چلے جاتے تو ان کا صرف اتنا ہی نقصان ہوتا کہ ایک غلام قوم ہاتھ سے نکل گئی۔ مگر اللہ کی مشیت پوری ہو کے رہتی ہے۔ ان کی ہلاکت ہی انھیں مقام ہلاکت پر کھینچ لائی تھی۔ پھر جب انہوں نے سمندر میں کھلے راستے دیکھے۔ پھر بھی فرعون کو یہ خیال نہ آیا کہ ممکن ہے کہ سمندر میں اس طرح راستہ بن جانا ایک خرق عادات امر اور موسیٰ (علیہ السلام) کا معجزہ ہو۔ اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ۔ فوراً اپنے گھوڑا انہی راستوں پر ڈال دیئے۔ اور جب فرعون کا پورا لشکر سمندر کی زد میں آگیا تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے پانی کو حکم دیا کہ وہ اپنی طبعی حالت پر واپس آجائے اور آپس میں مل جائے۔ چناچہ خدائی کے بلندو بانگ دعویٰ کرنے والا فرعون اپنے تمام اہلیان سلطنت اور لاؤ لشکر سمیت اس سمندر میں غرق ہوگیا۔
وَاَزْلَفْنَا ثَمَّ الْاٰخَرِيْنَ ” أَزْلَفَ یُزْلِفُ “ قریب کرنا۔ ” ثَمَّ “ وہاں، اس جگہ۔ ” الاخرین “ دوسرے لوگ یعنی فرعون کی قوم۔ ” الْاٰخَرِيْنَ “ کا مطلب یہ ہے کہ اس عظیم الشان موقع پر ہم نے فرعون اور اس کی قوم کو مسلمانوں کے قریب پہنچا دیا۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا خاص تصرّف تھا کہ فرعون اور اس کی قوم سمندر میں داخل ہوگئی، ورنہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ فرعون جیسا مادہ پرست ایسے خوفناک منظر کو دیکھتے ہوئے کیسے سمندر میں داخل ہوگیا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس فعل کو اپنی طرف منسوب کرکے جمع متکلم کے صیغے کے ساتھ فرمایا کہ اس موقع پر ہم انھیں قریب لے آئے، ورنہ وہ کہاں قریب آنے والے تھے۔
وَاَزْلَفْنَا ثَمَّ الْاٰخَرِيْنَ ٦٤ۚ- زلف - الزُّلْفَةُ : المنزلة والحظوة «2» ، وقوله تعالی: فَلَمَّا رَأَوْهُ زُلْفَةً [ الملک 27] - وقیل لمنازل اللیل : زُلَفٌ قال : وَزُلَفاً مِنَ اللَّيْلِ [هود 114] - ( ز ل ف ) الزلفۃ - اس کے معنی قریب اور مرتبہ کے ہیں چناچہ آیت : ۔ فَلَمَّا رَأَوْهُ زُلْفَةً [ الملک 27] سو جب وہ قریب دیکھیں گے ۔ اور منازل لیل یعنی رات کے حصوں کو بھی زلف کہا گیا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَزُلَفاً مِنَ اللَّيْلِ [هود 114] اور رات کے کچھ حصوں میں۔
(٦٤) اور ہم نے فرعون اور اس کی قوم کو بھی اس کے قریب پہنچا دیا اور دریا میں اتار دیا اور یہ سب کے سب کافر تھے۔
آیت ٦٤ (وَاَزْلَفْنَا ثَمَّ الْاٰخَرِیْنَ ) ” - جب سمندر پھٹ گیا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم کو لے کر اس راستے سے نکل گئے۔ عین اس وقت ان کے پیچھے فرعون بھی آپہنچا اور اس نے بھی اپنا لشکر اسی راستے پر ڈال دیا۔
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :48 یعنی فرعون اور اس کے لشکر کو ۔
16: یعنی فرعون کے لشکر نے جب دیکھا کہ سمندر کے درمیان راستے بنے ہوئے ہیں، تو اس نے بھی اس راستے سے گذرنے کی کوشش کی، لیکن جب وہ لوگ وہاں پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے سمندر کو اپنی اصل حالت پر لوٹا دیا، اور فرعون اور اس کے ساتھ اسی سمندر میں غرق ہوگئے۔ یہ تفصیل سورۃ یونس :91، 92 میں گذر چکی ہے۔